
شیخ محمد امین
1990کے ابتدائی مہینوں میں ہی کشمیری پنڈت پُر اسرار انداز میں وادی سے جموں اور کئی بھارتی ریاستوں کی طرف کوچ کرگئے۔ لیکن کچھ دنوں بعد ہی یہ راز منکشف ہوا کہ اس سارے پر اسرار ڈرامے کے پیچھے ریاستی گورنر شری جگ موہن جی اور بھارتی انٹلی جنس ایجنسی را کی کارستانی تھی۔
معروف کشمیری صحافی و مصنف مرحوم خواجہ ثنا ء اللہ بٹ اپنی کتاب “عہد نامہ کشمیر “صفحہ نمبر234-235میں کشمیری پنڈتوں کے اس انخلاء کے بارے میں لکھتے ہیں۔۔۔
“گورنر جگموہن نے کشمیری پنڈتوں کو ورغلانے کیلئے ان میں یہ خیال بڑی تیزی کے ساتھ پھیلا دیا کہ کشمیری پنڈتوں کو یہاں سے نکال لینے کے فوراََ بعد فوج سرینگر میں کریک ڈاون اور شہر کی ناکہ بندی کرکے بلا امتیاز لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دے گی۔تاکہ اس مسلح بغاوت کا خاتمہ کردے جس پر قابو پانا حکومت کیلئے ناممکن ہوگیا تھا۔کشمیری پنڈتوں کے زیادہ ترگھرانے کرفیو کے نفازذ اوررات کے اندھیرے میں اپنے گھروں سے نکال کر گاڑیوں میں سوار کئے گئے،وہ لوگ کسی خوف میں مبتلا نہیں تھے۔جس کا واضح ثبوت ہے کہ بہت سے کشمیری پنڈتوں نے اپنے گھر کی چابیاں اپنے ہمسایہ مسلمانوں کے حوالے کرکے ان سے کہا کہ وہ ان کے گھروں کی حفاظت کریں گے اور کشمیری مسلمانوں نے یقین دلایا اور ان سے کہاکہ وہ ان کے گھروں کی حفاظت کریں گے اور ان کے اس اعتماد پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔یہی وجہ تھی کہ بہت سے کشمیری پنڈ ت جموں سے سرینگرآکر بار بار اپنے علاقوں میں جانے اور اپنے گھروں وغیرہ کے محفوظ رہنے کایقین کرلیتے ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ درجنوں کشمیر ی پنڈت گھرانے گورنر جگموہن کی ترغیب و تحریک اور یقین دہانیوں کے باوجود کشمیر ہی میں رہے۔ان میں سے جو گھرانے بہکاوے میں آکر جموں اور دوسرے علاقوں میں گئے وہ برابر اپنے کئے پر پچھتاتے رہے اور ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو اعلانیہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کشمیری پنڈتوں کوکشمیری مسلمانوں نے وادی سے نہیں نکالا،بلکہ گورنر جگموہن اور اس کے ما تحتوں نے ہی ان کو وادی سے نکالا “
وادی سے باہر صرف چند مہینے گذارنے کے بعد ہی پنڈت دوستوں کو اندازہ ہوا کہ وہ ایک جال میں پھنسائے گئے ہیں اور اب انہیں ایک کٹھ پتلی کی طرح عمر بھر ناچنا پڑے گا۔اس حقیقت کے عیاں ہونے کے بعد بعض پنڈت صاحبان نے کھل کر اور کھول کر اس سازش سے پردہ اٹھایا۔
11ستمبر 1990میں ایک مہاجر کشمیری پنڈت،کے ایل کول (ایم اے ایم ایڈ) چمن چھانپورہ سرینگر حال نگروٹہ کیمپ جموں کا خط سرینگر کے ایک معروف اخبار روزنامہ الصفاء میں شائع ہوا۔ خط کے صرف دو اقتباس۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“فروری کے پہلے ہفتے میں ہمیں چند خودساختہ رہنماؤں کے ذریعے گورنر جگ موہن کا ایک پیغام ملا جس میں ہمیں وادی چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔پیغام میں کہا گیا کہ تحریک دبانے کیلئے لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ مسلم نوجوانوں کو مارنے کا منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے۔پنڈتوں سے یہ بھی وعدہ کیا گیا ہے کہ انہیں باہر ہر قسم کی آسائش بہم رکھی جائیگی اورمفت راشن،نوکریاں اور رہائش کا بھی انتظام ہوگا۔۔پیغام میں یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ جونہی مجوزہ منصوبہ تکمیل کو پہنچے گا اور تحریک دم توڑے گی تو پھر آپ کو واپس اپنی جگہوں پر بسایایا جائیگا۔میری کمیونٹی کو اب اندازہ ہورہا ہے کہ عوامی بغاوت کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کیلئے ہمیں استعمال کیا گیا” اسی طرح کا ایک مشترکہ خط 22ستمبر1990کے الصفا میں شائع ہوتا ہے۔خط پران پنڈت بھائیوں کے نام اور دستخط موجود ہیں۔۔۔برج ناتھ بھان،ایم ایل دھر،کے ایل کاو،جی این دفتری،موتی لعل مام،کنیا لعل رینا۔ایم،منشی،بی این گنجو،اشوک کول،سی ایل پاریمو،پشکر ناتھ بھٹ،پران ناتھ کھیر،آر ایل کول۔ایم ایل رازدان،پشکر ناتھ کول،بی این بٹ،موتی لعل کول،اشوک دھر،کمل رینا،ایچ کے کول،ایس این در۔ اس خط کا صرف ایک پیرا گراف پڑھنے سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ کشمیری پنڈت بھائی کس طرح اپنے وطن کو یاد کررہے ہیں اور اس دن کو کس طرح کوستے ہیں جس دن انہوں نے کشمیر چھوڑنے کی سازش کاحصہ بننے کی غلطی کی تھی۔۔ملاحظ فرمائیں
“ہمیں یہ تسلیم کرتے ہوئے بڑی شرمندگی محسوس ہورہی ہے کہ نہ صرف ہم نے اپنے مادر وطن کے ساتھ غداری کی بلکہ ان لوگوں کے ساتھ بھی بے وفائی کی جنہوں نے صدیوں سے ہمیں عزت دی،پیار دیا۔ہمیں یہ اعتراف کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے کہ اس تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوششوں میں ہم شامل رہے حالانکہ ہمیں اس تحریک کا ایک حصہ بننا چاہئیے تھا۔” کشمیر فائلز فلم بنانے والے کاش حقائق جاننے کی کوشش کرتے۔ (جاری)