
محمد احسان مہر
چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر کے امریکہ کو ایک بڑا سرپرائز دیا ہے
کشمیری قائدین کے تر دماغ کی ناقابل فراموش صلاحیتیں بھارت کو کسی بھی بڑے سانحے سے دوچار کر سکتی ہیں
دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو خطہ کشمیر دنیا کا وہ واحد کرہ ارض ہے جو سب سے زیادہ متاثر ہے،یہ خطہ برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈہ کا حصہ ہونے کی وجہ
سے سات دہاہیاں گزرنے کے بعد بھی بھارت کے قبضہ میں سفاقیت، درندگی اور ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے، دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اقوام عالم نے دنیا میں امن اور سلامتی کے لیے اقوام متحدہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ،اس ادارے کے قیام کے ساتھ ہی 1948میں پاک بھارت جنگ کی وجہ سے بھارت خود پہلی بار جنگ رکوانے کے لیے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے کر گیا ،اسی فورم پر بھارت نے عالمی برادری کے سامنے کشمیریوں کو حق خودارادیت کا حق دینے کا وعدہ کیا ہے ،مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اس ادارے میں متعدد قرادایں موجود ہیں جنہیں بھارت نے تسلیم کیا ہے ،مگر افسوس۔۔۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دنیا میں قیام امن کے لیے جس طرح ـ”ذمہ داری”سے اقدامات اٹھائے ہیں اس طرح بھارت پر دباو بڑھانے کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آرہی ۔ مسئلہ کشمیرکے متعلق اختلاف کی گنجائش کے باوجود کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسئلہ عالمی مفادات کی نظر ہو چکا ہے۔چند دن پہلے پاک بھارت تنازعات کے حل کے لیے امریکی ثالثی کی پیشکش کے پیچھے بھی یہی سوچ کار فرما ہے، امریکہ واضح طور پر سمجھتا ہے کہ جنوبی ایشیاء کی اجارہ داری اس کے ہاتھ سے نکل رہی ہے اور خطے میں اس کے مفادات شدید خطرے میں ہیں ،امریکہ علاقائی طاقتوں روس اور چین کے کردار کو پچھاڑ کر علاقائی بالا دستی کے خواب دیکھ رہا ہے ۔ماضی میں بھی امریکہ زمینی حقائق کے برعکس پالیسی پر گامزن رہا جس کے نتیجے میں بہت کم مفادکے ساتھ عوامی نفرت بھی اس کے حصے میں آئی لیکن اب چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر کے امریکہ کو ایک بڑا سرپرائز دیا ہے۔ امریکہ اگر واقعی مستقبل میں شراکت داری سے خطے میں کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے مخلص اور غیرجانبدرانہ طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا ہو گا ،اور بھارت کو اس بات پر قائل کرنا ہو گا کہ وہ جنوبی ایشیاء کے امن و سلامتی اور بھارت کے اندورنی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ وہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت کا موقع فراہم کرے، اور پاکستان کشمیریوں کا وکیل اور مسئلہ کا فریق ہونے کی حیثیت سے سیاسی اور سفارتی سطح پر بھارت پر یہ واضح کر دے کہ وہ کسی طرح بھی سویت یونین اور نیٹو اتحاد کی سی صلاحیت نہیں رکھتا اگر اندرونی خلفشار اور باہمی خانہ جنگی کی شکار افغان قوم چند دہایوں میں دنیا کی 2بڑی عالمی طاقتوں کو شکست دے سکتی ہے تو کشمیر کا کل جماعتی مزاحمتی اتحاد اور کشمیری قائدین کے تر دماغ کی ناقابل فراموش صلاحیتیں بھارت کو کسی بھی بڑے سانحے سے دوچار کر سکتی ہیں۔بھارت کا موجودہ معاشرتی نظام ، نام نہاد جموریت اور مصنوعی سیکولر کے لبادے میں آخری ہچکیاں لے رہا ہے جہاں سے اس کی واپسی ناممکن ہے،مودی کے بھارت میں سکھوں کی اہمیت کو نظر انداز کرنا ،اقلیتوں کے خلاف قانون اور مسلم کش جیسے اقدامات سے بھارت کا شیرازہ زیادہ عرصہ متحد نہیں رہ سکتا ۔ عالمی مفادات کے اس کھیل میں بڑی طاقتوں نے جس طرح ماضی میں کشمیریوں کو نظر انداز کیا ہے انہیں اب اپنی اس روش کو ترک کرنا پڑے گا ،کشمیری سات دہائیوں سے نا مسائد حالات کی چکی میں پس کر ایک لاوے کی شکل اختیارکر چکے ہیں، وہ بھارت کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے پر عزم ہیں وہ کسی بھی ظلم وجبر کے سامنے اپنی آزادی کے مطالبے سے ہرگز دستبردار نہیں ہوں گے ۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری آخر کب تک بھارتی مکروہ عزائم ،مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور بھارت کی ریاستی دہشت گردی پر اپنی آنکھیں بند رکھے گی ؟
اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ حق خود ارادیت کی اس تحریک میں کیا ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں ؟ یا عالمی استعماری طاقتوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر قومی مفاد ات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے رہیں گے ، اگر ایسا ہے تو پھر۔۔۔ کشمیریوں سے معذرت نہ کر لیں ؟ اس لیے کہ کشمیری شہادت کی جس راہ پر نکلے ہیں وہ بھارت سے آزادی یا پھر اس کی بربادی تک جاری رہے گا۔ (ان شاء اللہ)