پیاری امی جان

ام عبداللہ ہاشمی

یہ 1995 کا ایک دن تھا جب میری خالہ کے ہاں ایک بہت ہی پیاری اور خوبصورت بچی نے جنم لیا۔خالہ سکول میں استانی تھی ۔ بچی دادی اور پھوپھی کی آغوش میں پلنے بڑھنے لگی۔ بھوری آنکھوں والی ،بھورے بالوں والی سمعیہ فاطمہ کسی دیس کی شہزادی لگتی تھی۔ریڈ فائونڈیشن میں ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا تو سمعیہ ایک بے حد لائق و فائق طالبہ کے طور پرہمیشہ اول درجے پر رہی ۔میٹرک میں سمعیہ دختران اسلام اکیڈمی صادق آباد میں داخل کروائی گئی۔ سمعیہ فطری طور پر بے حد نازک شرمیلی اور معصوم سی تھی۔ چونکہ سمعیہ نے جونہی ہوش سنبھالا تو اپنے سے تین چھوٹے تین بھائیوں اور ایک بہن کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ نہایت ذمہ داری کے ساتھ کم گو سی سمعیہ کو جب اس کے نٹ کھٹ اور بے حد شرارتی بھائی تنگ کرتے، کھبی مارتے بھی تو بھی وہ ایک کونے میں جاکر روکر خاموش ہوجاتی ۔سمعیہ تعلیمی مراحل طے کرتی گئی تو ایک سال کے لیے الھدٰی میں داخل کروائی گئی ،میری چھوٹی بہن اقراء بھی ساتھ تھی ایک سال کے بعد ان دونوں نے اسلامک یونیورسٹی میں داخلہ لیا پہلے تو عام ہوسٹل میں رہی ۔پھر دھان پان سی سمعیہ نے باہر کا کھانا نہ کھانے کے باعث خود ہی تین عدد کمروں اور کچن پرمبنی ایک گھر لے لیا ۔سمعیہ ایم اے کے بعد ایم فل کرنے لگی اور ساتھ میری بہن اقراء اور راولاکوٹ کی ایک لڑکی اور اپنے دو بھائی بھی ساتھ رکھے ۔سمعیہ سارا کام خود کرتی ،کھانا پکانا سے لے کر صفائی اور کپڑے دھونے تک کاعمل ۔اس کا یہ عارضی گھر سکستھ روڑ پر واقعہ تھا ۔الھدٰی سے آنے کے بعد سمعیہ بے حد مذہبی ہوگئی۔ فل گائون سکارف اور نماز کی پابند سمعیہ کو لڑنا آتا ہی نہ تھا۔کبھی کسی سے لڑائی نہیں کی اگر کوئی کرتی تو کونے میں جاکر آنسو بہا کر اس بندے کے ساتھ پھر نارمل۔چھوٹا بھائی منیب بے حد ضدی من موجی سا تھا بہت تنگ کرتا ۔اکثر پریشان ہوجاتی امی فون کرتی تو ان سے چھپالیتی کہ امی کا بی پی ہائی نہ ہوجائے ۔میں جب بیمار ہوکر ہاسپٹل ایڈمٹ ہوئی تو سمعیہ کا گھر چند منٹ کی واک پر تھا ۔ اکثر ہاسٹل جاتی طرح طرح کے کھانے پکاتی اور ہاسپٹل لے جاتی۔ میر ی امی ہاسپٹل کے ماحول سے قدرے تنگ پڑتی تو فوراََ ان کو اپنے گھر لے جاتی ،ریلیکس کرواتی ۔امی کو ریشین سیلڈ کھلایا جو کہ امی کو بے حد پسند آیا ۔میرا بیٹا عبداللہ بھی امی نے بلالیا کہ امی اس کے بغیر رہ نہ سکتی تھی تو عبداللہ کو اپنے میٹرس پر بٹھا کر لیپ ٹاپ دے دیتی وہ کارٹون دیکھتا رہتا ،وقت پر اس کو کھانا کھلاتی۔ عبداللہ کی عادت ہے کہ جب سب رات کا کھانا کھا لیتے ہیں تو پھر سے بھوک کا شور مچاتا ہے، اس کے لئے لیز،چاکلیٹ یا بسکٹ لاتی صبح جلدی جاگ جاتی ناشتہ اور سب کے لیے لنچ بھی صبح کے وقت ہی تیار کردیتی ۔بے حد ایکٹیورہتی کم کھاتی کم سوتی اور کم بولتی۔۔۔ شرمیلی اسقدر کہ سمعیہ کے ابو سعودی عرب میں مقیم ہیں ۔تو جب وہ گھر آئے تو ان سے بھی بے حد شرماتی سمعیہ اپنی امی سے کہتی ۔امی میں پی ایچ ڈی بھی کروں گی۔سمعیہ نے ساتھ ہی بی ایڈ میں ایڈمیشن لیا ہوا تھا اوپن یونیورسٹی میں ستائیں مئی کو سمعیہ آخری پیپر دے کر منیب کے ساتھ بائیک پر آرہی تھی آنے سے پہلے اس نے گھر کا سودا سلف کسی مارکیٹ سے خریدا ،تین عدد کپڑوں کے جوڑے ایک امی کے لیے ،چھوٹی بہن کے لیے اور ایک اپنے لیے ۔اس نے ویڈیو کال کرکے امی سے کہا میں تیاری کررہی ہوں ،پیپر کے دینے کے بعد رات آٹھ بجے میں آپ کے پاس ہوں گی کیونکہ میرا آخری پیپر ہے ۔پانچ بجے وہ چھوٹے بھائی منیب کے ساتھ واپس آرہی تھی تو سکستھ روڑ پر کسی کار نے نہایت بری طرح سے بائیک کو ٹکر ماری ۔سمعیہ چونکہ پیچھے بیٹھی تھی اس لیے سب سے زیادہ انہیں لگی وہ سرکے بل ایک دیوار سے جالگی پھر منہ کے بل سڑک پر گر پڑی اور منیب بھی بے ہوش ہوگیا۔ پاس ہی چند ہوک کھڑے تھے جو مری جارہے تھے وہ سب دیکھ کر رک گئے ۔سمعیہ کے سر اور منہ سے خون کے فوراے پھوٹ نکلے ۔وہ تین فرشتہ صفت زخمیوں کو بے نظیر ہسپتال لے گئے ۔میری خالہ نے جب سمعیہ کے نمبر پر کال کی آگے سے ڈاکٹر نے جواب دیا کہ ان کا ایکسیڈنٹ ہو چکا ہے بچی سیریس ہے ان کا دماغ مائوف ہوچکا ہے ،خالہ کی دیورانی نے فون لیا اور ساری تفصیل بتائی۔خالہ نے حسیب کو کال کی اور میری بہن اقراء اور اسماء کو بتایا وہ جلد ہسپتال پہنچے ۔سب سے پہلے ان کو دیکھ کر چیخ نکل گئی ان کا خون تیزی سے بہہ رہا ہے ۔زخمیوں کو ہولی فیملی منتقل کیا گیا ،اسماء او رحسن بھائی بھی آگئے ،خالہ سمعیہ کی دادی اور چاچو بھی چلے گئے اورپوچھا سمعیہ کدھر ہے جب بتایا گیا کہ سمعیہ یہ ہے توخالہ کمرے سے باہر بھاگ آئی کہ یہ میری سمعیہ نہیںہے ڈاکٹرز نے خون مانگا اس کا ہم نے ایرینج کیا مگر رات گیارہ بجے سمعیہ اپنے پیارے اللہ کے پاس چلی گئی ۔

کم گو سمعیہ ہر دکھ اور تکلیف بہت بہادری سے برداشت کرلیتی تھی ۔ وہ سب کی لاڈلی تھی ان کی بے شمار سہیلیاں تھیں۔بڑی عمر کی خواتین کو بھی سمعیہ سہارا دیتی ۔ہرطرح سے مدد کرتی وہ انسان دوست تھی ۔ہمارے گھر تو بہت آتی تھی ۔بچپن سے ہی ۔اس دفعہ چھوٹی عید کے دوسرے دن تینوں ماں بیٹیاں آئیں تھیں۔گاڑی والے نے سڑک دیکھ کر صاف انکار کیا تھا اور وہ روڑ پر ہی تارکرچلاگیا۔تینوں خراماں خراماں چلتی ہوئی آگئی،عروج آزاد کی امی بھی ان کے ساتھ ہمارے گھر کے قریب ایک فوتگی پر آئی ۔وہ کہنے لگی میں نے اس کو سرتاپا دیکھا بے حد سادہ اور شریف سنا تھا خوشحال بھی ہیںاور بچی کسی یونیورسٹی میں بہت بڑی کلاس میں ہے مگر ذرہ بھر نخرہ یا فیشن اس کی زندگی میں نظر نہ آیا ۔سادہ طبیعت معصوم شرمیلی کم گو سمعیہ کو اللہ نے شہادت کا رتبہ دیاہے کیونکہ علم کی راہ میں چلنے والے اگر اس راہ میں مرجائیںتوشہید ہوتے ہیں۔اس کا منہ اور سر بہت متاثر تھا باقی جسم محفوظ تھا ہاتھ پر سیاہی کا نشان تھا۔وہ اپنے ماں باپ کی سب سے بڑی بیٹی تھی۔ظاہر ہے بہت بڑا غم تھا مگر اللہ حوصلہ دے دیتا ہے

۔اللہ سمعیہ کی قبر کو جنت کا ایک باغ بنادے۔ آمین

٭٭٭