پیغامات

حافظ نعیم الرحمن، امیر جماعت اسلامی پاکستان

حافظ نعیم الرحمن، امیر جماعت اسلامی پاکستان

مجھے یہ جان کر طمانیت ہوئی کہ آپ محترم پروفیسر خورشید احمد علیہ رحمہ کی حیات و خدمات اور اعلائے کلمتہ اللہ کی جدوجہد پر ”کشمیر الیوم“کا خصوصی شمارہ (پروفیسر خورشید احمد ؒ نمبر)شائع کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے بہت ہی قابل احترام بزرگ، شفقت فرمانے والے، تحریک کا اثاثہ دین کے غلبے کی جدوجہد کرنے والے مثالی رہنما، مدبر مفکرپروفیسر خورشید احمد 93 سال کی عمر میں ہم سے رخصت ہو گئے۔ پوری زندگی انھوں نے دین کے لیے وقف کیے رکھی۔ الحمدللہ! یوکے اسلامک فاؤنڈیشن کے قیام اور پھر اسے لے کر چلنے میں رہنمائی کاپورا کردار ادا کیا اور مرکز بنایا جہاں سے اسلام کے نظریات کو خود مغرب میں بیٹھ کر فروغ دیا۔ پروفیسر صاحب طالب علمی کے زمانے سے ہی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے متاثر ہوئے اور پھر پوری زندگی اسی راستے پر چلتے رہے۔ پروفیسر صاحب نے متعدد رسائل کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔ چراغ راہ ایک بہت زبردست رسالہ تھا جس کے نمبرز بڑے مشہور ہیں، سوشلزم نمبر، اسلامی معیشت نمبر، اسلامی نظام نمبر، اسلامی نظریات نمبر وغیرہ۔
طالب علمی کے زمانے میں پروفیسر صاحب بہت اچھے طالب علم تھے، معیشت آپ کا بنیادی موضوع تھا اور معیشت کوپڑھا بھی اور پڑھایابھی۔ پاکستان کے بہت اہم افراد آپ کے شاگردوں میں شامل ہیں۔ اسلامی معاشیات پر بڑی گہری نظر بھی تھی اور اس کے لیے خطوط کار بھی انھوں نے طے کیے اور کئی مسلم ممالک نے انہی کے مرتب کردہ خطوط پر اپنی معیشت کو بہتر بھی بنایا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان ان کی سفارشات پر عمل نہ کر سکا اور آج بھی ہم گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔
پروفیسر صاحب کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ جماعت اسلامی کے رکن تھے اور پھر جماعت اسلامی کی مختلف شوراؤں میں شامل ہوتے رہے اور بہت کم عمری میں وہ جماعت کی مرکزی قیادت میں شامل ہو گئے تھے اور ان لوگوں میں شامل ہو گئے تھے کہ جن کی جانب لوگوں کی نظریں ہوتی تھیں کہ یہ بحیثیت پہلے نمبر کے قائد کے طور پر بھی کام کر سکتے ہیں۔
سید مودودیؒ ان کو ٹاسک دیتے رہتے تھے اور یہ اس ٹاسک کے مطابق کام انجام دیتے رہتے تھے۔ اسلامی معاشیات پر ان کی تصنیف مختلف کالجز اوریونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے۔ اسی طرح اسلامی نظریہ حیات بھی ایک زبردست کتاب ہے، یہ جماعت کے سلیبس میں بھی شامل ہے۔ اسی طرح تعلیم پر آپ کا بڑا زبردست کام ہے۔ نظامِ تعلیم، نظریہ روایت، خود اپنے طالب علمی کے زمانے میں ہم نے اس کو سبقاً سبقاً پڑھا تھا اور معلوم کیا تھا کہ تعلیم درحقیقت کیا چیزہے۔ وہ تین مرتبہ سینیٹ کے ممبر رہے، بہترین پارلیمنٹرین تھے۔ سینیٹ میں حالانکہ اس وقت بڑے بڑے نام موجود تھے، آج کے زمانے میں تو اس طرح کے لوگ دستیاب نہیں ہیں، ان میں پروفیسر خورشید احمد کا ایک ممتاز مقام تھا اور ہر دور میں انھوں نے سینیٹ کے بہترین پارلیمنٹرین کا اعزاز حاصل کیا۔
مرکزی مجلس شوریٰ اور مجلس عاملہ میں جب آپ گفتگو کرتے تھے تو پورے موضوع کو بھرپور طریقے سے سمیٹ لیتے تھے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ بہت شدید اختلاف سامنے آتا تھا اور سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کیا جائے۔ پروفیسر صاحب اس کو پوری طرح سنبھال لیا کرتے تھے اور جب آپ بولتے تھے تو پھر اس کے بعد لوگوں کے پاس دلائل ختم ہو جاتے تھے، ہم نے خود اس بات کا مشاہدہ کیا ہے۔
ترجمانُ القرآن مولانا مودودیؒ کے زمانے سے چل رہا ہے اور اس وقت تک جاری ہے۔ جماعت اسلامی کے لیے نظریاتی محاذ پر ترجمان القرآن ایک بہت ہی اہم ذریعہ ہے اور اس کی نظریاتی آبیاری کے لیے پروفیسر صاحب کا ایک کردار ہے۔ اگرچہ پروفیسر صاحب انتہائی علیل تھے، لیکن اس کے باوجود جب تک وہ بات کر سکتے تھے اور الحمدللہ 93 برس کی عمر میں بھی پوری طرح ہوش و حواس میں رہے اور یہ منجانب اللہ ہوتا ہے۔ آخری چند دن تو شدید علیل تھے اس سے پہلے کام بھی کرتے رہے۔ دیکھتے تھے، پڑھتے تھے چیزوں کو۔ ادارہ ترجمان القرآن کے لوگ ان سے رابطے میں رہتے تھے۔
پروفیسر صاحب کراچی سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس لیے کہ ہجرت کرکے وہ کراچی تشریف لائے تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا زمانہ ان کا یہیں گزرا، جماعت اسلامی کے لوگ ان کو بڑی قدرکی نگاہ سے دیکھتے تھے، اور ان سے مشورہ لیتے تھے۔ ہم ’کراچی کو حق دو‘ کی تحریک لے کر چل رہے تھے، اگر میں آپ سے کہوں کہ پوری طرح سے ان کی سپورٹ ہمیں حاصل تھی تو یہ غلط نہ ہو گا۔ وہ کبھی کبھی خود بھی فون کرتے تھے اورمیں اسے اپنے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھتا تھا۔ میں تو ظاہر ہے کہ جماعت اسلامی کی ذمہ داری ادا کر رہا تھا، میں تو ان سے بہت جونیئر تھا، لیکن وہ باقاعدہ فون کرتے تھے۔ جو چیز ان کے ذہن میں ہوتی تھی کہ کس طرح لے کر چلنا چاہیے، کیا حکمت عملی ہونی چاہیے، کن کن چیزوں سے بچنا چاہیے، وہ سب کو نصیحتیں فرماتے تھے اور اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں بہت کچھ حاصل ہوتا تھا۔ ہماری بڑی خواہش ہوتی تھی کہ وہ یہاں تشریف لائیں، تو جب تک ان کی صحت اجازت دیتی رہی وہ برطانیہ میں بھی کام کرتے تھے اور مرکزی شوریٰ کے اجلاس کے موقع پر پاکستان بھی آیا کرتے تھے، لیکن جب صحت بالکل ہی جواب دے گئی تو پھر وہ وہیں رہنے لگے، لیکن اکثر وہ کہا کرتے تھے کہ میرا دل برابروہیں لگا رہتا ہے، یہ ان کا مخصوص جملہ تھا اور میں ہر وقت پریشان رہتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے، کیسے ہو رہا ہے اور ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے تو اس پر وہ بہت زیادہ رنجیدہ بھی رہتے تھے۔
پروفیسر صاحب میں بہت سی خوبیاں تھیں۔ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اپنا علمی سرمایہ چھوڑا، جنھوں نے اپنی باتیں چھوڑی ہیں، جنھوں نے اپنی فکر چھوڑی ہے۔ آپؒ سید مودودیؒ کی فکر کے صحیح ترجمان تھے۔ اقامت دین یعنی دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کے حوالے سے مولانا مودودیؒ کے بعد جس نے اس با ت کو پوری علمی دلیل کے ساتھ تحریر کی صورت میں پیش کیا وہ پروفیسر خورشید صاحب تھے اور آج ہم ان کو مس کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا نعم البدل ہمیں عطا فرمائیں۔ یہ صرف جماعت کا نقصان نہیں ہے بلکہ پاکستان اور اُمت مسلمہ کانقصان ہے۔
پروفیسر صاحب کی ایک بہت بڑی خوبی ان کی Conectivity تھی۔ ان کیConectivity اسلامک موومنٹ کے ساتھ تھی وہ ڈائیلاگ کے قائل تھے، وہ مغربی تہذیب پر گفتگو کرتےتھے۔ وہ سامراجیت پر بات کرتے تھے۔ انھوں نے مغرب کے پورے نظام اور تہذیب پر گفتگو کی، لیکن وہ دلیل کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ وہ ان کے تھنک ٹینک کے ساتھ رابطے بھی کرتے تھے، عالمی اسلامی تحریکوں کے ساتھ جڑے رہتے تھے۔ ایک مرکز کی حیثیت ان کو حاصل تھی اور ایک زبردست قسم کا نیٹ ورک انھوں نے قائم کر رکھا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ جماعت اسلامی کو ہی نہیں پاکستان کو، اسلامی تحریکوں کو بھی، لیکن ان شاء اللہ ہر دور میں یہ ہوا ہے، نئے لوگ آ کر چیزوں کو سنبھالتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگ ہمیں عطا کرے جو پروفیسر صاحب کا نعم البدل بن سکیں اور ہم اسی طرح سے یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔
ایک آخری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں کہ پروفیسر صاحب کی طبیعت میں عاجزی اور انکساری بہت زیادہ تھی اور کبھی ان کے لہجے سے ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ خدانخواستہ کسی زعم میں مبتلا ہیں، کسی کبر میں مبتلا ہیں۔ بڑی انکساری کے ساتھ تمام چیزوں کو پیش فرماتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ جماعت اسلامی کے ڈسپلن کو بہت فالو کرتے تھے۔ انھوں نے سید مودودیؒ، میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمدؒ، سیدمنور حسنؒ پھر سراج الحق کے ساتھ کام کیا اور ہمارے ساتھ ظاہر ہے اس طرح سے نہیں، لیکن وہ موجود تھے۔ اس کے باوجود کبھی بھی یہ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ اتنی بڑی شخصیت بن کر بات کر رہے ہوں بلکہ وہ ایک کارکن کے طور پر امیر کو مخاطب کرتے تھے اور سب کی عزت کرتے تھے، خود نمائی تو ان کو چھو کر نہیں گزری۔ خود پسندی تو ان میں تھی ہی نہیں۔ الحمدللہ ہم نے یہ چیز ان میں دیکھی، بڑی ذات تو اللہ کی ہے، اللہ کے دین کے لیے کام کرنے والی اجتماعیت بڑی ہے، اس کا نظام بڑا ہے۔ اس کو لے کر جو پورا سسٹم چل رہا ہے اس کو Follow کرنا ہے کہ ۔۔۔دانہ خاک میں مل کر گل وگلزار ہوتا ہےاسی طرح تحریکیں آگے بڑھتی ہیں۔ الحمدللہ خورشید صاحب اس حوالے سے بھی ہمارے لیے ایک بہت بڑا اثاثہ تھے کہ ہم ان کو دیکھ کر سیکھ سکتے ہیں اور اب بھی ان کی چیزیں تو موجود ہیں، کتابیں موجود ہیں، کچھ گفتگوئیں بھی موجود ہیں، کچھ ویڈیوز بھی موجود ہیں، ان شاء اللہ ہم اس بات کی کوشش کریں گے کہ ان کے علمی کام کو بچایا بھی جائے، چلایا بھی جائے اور لوگ اس سے استفادہ کر سکیں۔

سراج الحق، سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان

ہ بہت خوش نصیب تھے کہ انھوں نے مولانا مودودیؒ کا قرب حاصل کیا، جو ان کے لیے ایک بڑی تربیت اور رہنمائی کا ذریعہ بنا۔پروفیسر خورشید احمدؒ کی وفات سے اُمت مسلمہ ایک عالمی ماہر معاشیات، ایک دانشور اور ایک اسلامی سکالر سے محروم ہو گئی۔ وہ صرف پاکستان نہیں اُمت مسلمہ کے ترجمان تھے۔ پروفیسر خورشید احمدؒ نے 1950ء سے ایک سیاسی زندگی اختیار کی۔ وہ دینی جدوجہد کی عملی تصویر تھے۔ انھوں نے علمی کام بھی کیا، خاص طور پر معاشیات، سیاست اور علمی موضوعات پر چھوٹی بڑی 70 سے زائد کتب تصنیف کی ہیں۔ انھوں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں نوجوانوں کی قیادت کی، جماعت اسلامی میں شامل ہونے کے بعدانھوں نے ثابت کیا کہ مولانا مودودی کے بعدوہ ان کی فکر کے حقیقی وارث تھے۔
آج ان کی وفات سے جماعت اسلامی کو یقینا بہت نقصان پہنچا، لیکن اس کا سب سے زیادہ نقصان نئی نسل کو ہوا کہ جن کی رہنمائی سے وہ محروم ہو گئی۔ پروفیسر خورشید احمدؒ تین بار سینیٹر رہے انہوں نے خیبر پختونخوا کے عوام کی نمائندگی کی۔ خاص طور پر بجلی کے خالص منافع کے حصول میں انھوں نے اس صوبے کے عوام کی وکالت کی اور اس وکالت میں وہ کامیاب ہوئے۔ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں مرکزی حکومت نے 110بلین روپے صوبائی حکومت کے حوالے کیے۔
میں سمجھتا ہوں خیبرپختونخوا کے عوام پر ان کا بہت بڑا احسان ہے۔ جناب خورشید احمد صرف ایک سیاسی ورکر نہیں تھے بلکہ انھوں نے پاکستان میں موجود کئی رفاہی اداروں کی بھی سرپرستی کی۔ اس طرح انھوں نے علمی ریسرچ کے اداروں کو قائم کیا۔ خاص کر اسلام آباد میں آئی پی ایس کے نام سے جو ایک عالمی شہرت یافتہ ادارہ ہے، قائم کیا۔ اسی طرح لندن میں بھی انھوں نے دو ایسے ادارے قائم کیے۔
پروفیسر صاحب کی تحریروں میں نئی نسل کے لیے روشنی ہے۔ انھوں نے تقریباً ہر سماجی اور سیاسی، معاشی اور تعلیمی موضوع پر لکھا ہے اس لیے نئی نسل کو ان کی تحریروں سے استفادہ کرنا چاہیے، ان کی ایمان افروز تحریروں سے اپنے دل کی دنیا کو منور کرنا چاہیے۔ دنیا کا کوئی مباحثہ ان کی تحریر یا دلائل کے بغیر نامکمل ہے۔ لہٰذا امت مسلمہ کے حکمرانوں کا فرض ہے کہ پروفیسر صاحب کی کتابوں کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کروائیں اور ان کو نصاب کا حصہ بنائیں تاکہ نئی نسل کو اسلام کا پیغام پہنچے اور عملی اور نظریاتی طور پر مضبوط ہو کر وہ پوری انسانیت کی قیادت کی اہل بنے۔

خادم المجاہدین سید صلاح الدین احمد

‎پروفیسرخورشید صاحب کشمیر کے سفیر اور امتِ مسلمہ کے غیرت مند ترجمان تھے۔ہم، مجاہدینِ تحریکِ آزادیٔ کشمیر اور حریت پسند کشمیری عوام کی جانب سے، ایک ایسے مردِ مومن، مجاہدِ علم و قلم، اور امتِ مسلمہ کے سچے خیرخواہ کو سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں، جنہوں نے اپنی پوری زندگی ’’کشمیر کی آزادی‘‘ اسلامی نظام کے قیام، اور مظلوموں کی آواز بننے میں گزار د ی ہے۔وہ نام ہے ’’پروفیسر خورشید احمد‘‘۔پروفیسر صاحب اُن نڈر سپاہیوں میں شامل تھے جنہوں نے عالمی اداروں اور فورموں میں مظلوم کشمیر یوں کے حقِ خودارادیت کی گونج دار صدا بلند کی۔ وہ نہ دبے، نہ جھکے، نہ خاموش ہوئے۔ ان کی زبان سے نکلا ہر لفظ امت کے ضمیر کو جگاتا، اور دشمنانِ اسلام کے ایوانوں میں لرزہ طاری کرتا۔انہوں نے دنیا کو بتایا کہ ’’کشمیر صرف جغرافیہ نہیں، یہ ایک مقدس امانت ہے‘‘یہ امت کا کربلا ہے، جہاں روز مظلوموں کا خون بہتا ہے، اور پروفیسر خورشید احمد ان مظلوموں کی صدا بنے۔آج اگر تحریکِ آزادیٔ کشمیر زندہ ہے، تو ان جیسے اہلِ بصیرت بزرگوں کی دعاؤں، تحریروں اور جدوجہد کی بدولت ہے۔ وہ محاذِ جنگ پر نہ سہی، لیکن ان کا قلم، ان کی فکر، ان کا بیان ہر میدان میں دشمن کے لیے ایک چیلنج تھا۔ہم اُن کے مشن کے وارث ہیں۔ ہم ان شاء اللہ ان کے خواب کو، ’’آزادی کشمیر کے خواب کو‘‘، شرمندۂ تعبیر کریں گے۔ ان شاء اللہ! ہم عہد کرتے ہیں کہ جب تک ایک بھی مجاہد زندہ ہے، کشمیر کی وادی میں آزادی کا نعرہ گونجتا رہے گا، اور پروفیسر صاحب کی صدا روحوں کو جھنجھوڑتی رہے گی۔اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے، اُن کے درجات بلند فرمائے، اور ہمیں ان کے مشن پر ڈٹے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔إنا لله وإنا إليه راجعون

غلام محمد صفی کنوینئر آل پارٹیز حریت کا نفرنس

جماعت اسلامی پاکستان کے قائد ، ماہر اقتصادیات، سابق سینیٹر، انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد اور اسلامک فاونڈیشن برطانیہ کے بانی پروفیسرخورشید احمد برطانیہ میں خالق حقیقی سے جا ملے۔

یہ خورشید بھی مشرق میں طلوع ہوکر مغرب میں غروب ہو گیا۔پروفیسر خورشید احمد 1953میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے اور 1956 سے جماعت اسلامی پاکستان کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ 1985۔1997 اور 2002 میں سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئےبطور ممبر سینیٹ انہوں نے تنخواہ نہیں لی اور اس رقم کے ذریعے سینیٹ میں لوئر اسٹاف کے لئے فنڈ قائم کیا جو دوسرے اراکین کے تعاون سے سینیٹ ملازمین کے لئے بڑا سہارا بن چکا ہے ۔پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے انہیں جو سرکاری سہولیات میسر تھیں ان سے بھی استفادہ نہیں کیا اور نہ21 سال سینیٹر ہوتے ہوئے ایک بار بھی اپنے اہل خانہ کے علاج کے لئے ایک روپیہ کی دوا یا علاج کی سہولت حاصل کی۔پروفیسر خورشید احمد کی علمی خدمات کے اعتراف میں متعدد ممالک، اداروں اور تنظیموں نے انہیں اعزازات سے بھی نوازا جن میں نشان امتیاز اور شاہ فیصل بین الاقوامی ایوارڈ بھی شامل ہیں وہ اسلام ، اسلامی تحریکوں، بھارتی مسلمانوں، پاکستان اور کشمیر کے بارے میں بہت حساس تھے۔

ان کی کتابوں ، مضامین اور تقاریر میں یہ موضوعات نمایاں تھے۔

مسئلہ کشمیر کے حل کےحوالے سے ان کے مندرجہ ذیل points اہمیت کے حامل ہیں :

ہمیشہ جامع حل کے لئے جدوجہد کیجئے نہ کہ قسط وار حل کے لئے

ہمیشہ بنیادی مسئلہ پیش نظر رکھیں فروعی مسائل میں الجھ کر نہ رہیں

بھارت سے آزادی کو ترجیح بنائیں قابض قوت کے تحت تعمیرو ترقی کو نہیں

پاکستان بھارت اور کشمیری قیادت کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے نفاذ کا ذریعہ بنائیں

کبھی کسی ایسے ملک کی ثالثی کے لئے آمادہ نہ ہوں جو قابض قوت کا اسٹریٹیجک پارٹنر ہو۔

پروفیسر خورشید احمد کے ساتھ میری ملاقات 1990 میں اسلام آباد میں ہوئی۔پروفیسر خورشید احمد سید ابوالاعلی مودودی ؒکے تلمیذ اور سید علی گیلانیؒ کی جدوجہد کے مداح تھے۔
اللہم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ واغسلہ بالماء والثلج والبرد ونقہ من الخطایاء کما نقیت الثوب الابیض من الدنس وابدلہ دارا خیرا من دارہ واھلا خیرا من اھلہ وزوجا خیرا من زوجہ وادخلہ الجنہ واعذہ من عذاب القبر ومن عذاب النار