عروج آزاد
تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں بہت قابل اور ذہین لوگوں نے جنم لیا۔جن میں سے ایک پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیں۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان کی نیوروسائنٹسٹ ہیں۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2مارچ 1972ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم کراچی سے مکمل کرکہ 1990 میں سٹوڈنٹ ویزہ پر امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں پڑھنے کے لیے گئیں۔ان کا ایک بھائی پہلے سے وہاں موجود تھا جو آر ٹیٹکچرتھا۔ٹیکساس میں کچھ عرصہ رہیں پھر وہاں میساچوسٹس ارادہ ٹیکنالوجی چلی آئیں اور اس ادارہ سے وراثیات میں علمائی پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی 2002ء میں پاکستان واپس آئیں مگر ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے امریکہ ملازمت ڈھونڈنے کے سلسلہ میں دوبارہ گئیں۔اس دوران میریلینڈ میں ڈاک وصول کرنے کے لیے ڈاک ڈبہ کرائے لیا اور 2003 ء میں کراچی واپس آگئیں ایف بی آئی نے شک ظاہر کیا کہ یہ ڈاک ڈبہ دراصل القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے لیے کرائے پر لیا گیا تھا۔امریکی ابلاغ میں عافیہ صدیقی کی بطور دہشت گرد تشہیر کی گئی۔یہ دیکھ کر عافیہ کچھ دن کراچی میں روپوش ہو گئی۔30 مارچ، 2003ء کو اپنے تین بچوں سمیت راولپنڈی جانے کے لیے ٹیکسی میں ہوائی اڈے کی طرف روانہ ہوئی مگر راستے میں غائب ہو گئیں بعد میں خبریں آئیں کہ ان کو امریکیوںنے اغوا کر لیا ہے۔اس وقت ان کی عمر 30 سال تھی اور بڑے بچے کی عمر چار سال اور سب سے چھوٹے کی ایک ماہ ،مقامی اخباروں میں عافیہ صدیقی کی گرفتاری کی خبر شائع ہوئی مگر بعد میں وزیروں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور ان کی والدہ کو دھمکیاں دی گئیں۔عالمی اداروں نے خیال ظاہر کیا کہ افغانستان میں امریکی جیل بگرام میں قیدی نمبر 650 شاید عافیہ صدیقی ہی ہے جو وہاں بے حد بری حالت میں قید تھی پاکستانی اخبارات میں شور مچنے کے بعد امریکیوں نے اچانک اعلان کیا کہ عافیہ کو 27 جولائی 2008ء کو افغانستان سے گرفتار کر کہ نیویارک پہنچا دیا گیا تھا تاکہ ان پر دہشتگردی کے حوالہ سے مقدمہ چلایا جا سکے۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکی کہانی کو ناقابل یقین قرار دیا ۔

افغانستان میں امریکی فوجیوں نے دوران گرفتاری عافیہ کو گولیوں کا نشانہ بنا کر شدید زخمی کر دیا۔تب امریکی فوجی معالجین نے عافیہ کی طبی حالت کو گلاسگو غشی میزان پر 3 (یعنی مرنے کے قریب)بتایا۔تاہم امریکیوں نے الزام لگایا کہ عافیہ نے امریکی فوجی کی بندوق اٹھانے کی کوشش کی تھی جس پر انھوں نے اس پر گولیاں چلا دیں۔اگست 2009 ء میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بتایا کہ حکومت 2 ملین ڈالر تین امریکی وکیلوں کو دے گی جو عافیہ صدیقی کے لیے امریکی عدالت میں پیش ہونگے۔خیال رہے کہ لاہور کی عدالت اعلیٰ نے حکومت کو یہ رقم جاری کرنے سے منع کیا تھا کیونکہ خدشہ تھا کہ رقم خرد برد کر لی جائے گی۔عدالت میں درخواست گزارنے کہا تھا کہ امریکی عدالت سے انصاف کی توقع نہیں،از لیے یہ پیسے عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کر کے خرچ کیے جائیں۔دسمبر 2009 ء میں بالآخر کراچی پولیس نے عافیہ صدیقی اور ان کے بچوں کے 2003 ء میں اغوا کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لیا۔
23 ستمبر 2010ء میں نیویارک امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی کو 86 سال قید کی سزا سنائی۔جون 2013ء میں امریکی فوجی زنداں فورٹ ورتھ میں عافیہ صدیقی پر حملہ کیا گیا جس سے وہ دو دن بے ہوش رہے بالآخر وکیل کی مداخلت پر اسے طبی امداد دی گئی۔اپریل 2010ء میں گیارہ سالہ لڑکی جس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ عافیہ کے ساتھ لاپتہ ہونے والی ایک بیٹی ہے اس کو نامعلوم افراد کراچی میں عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی کے گھر چھوڑ گے۔

عافیہ صدیقی کے کیس کو پاکستانی امریکی کشیدگی کا ”فلیش پوائنٹ ” اور ”اسرار” سے بھری خفیہ جنگ میں سب سے زیادہ پر اسرار کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری اور سزا کو عوام نے اسلام اور مسلمانوں پر حملے کے طور پر دیکھا اور ملک بھر میں بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔امریکی میں وہ کچھ لوگوں کی طرف سے خاص طور پر خطرناک سمجھی جاتی تھی کیونکہ القاعدہ کے ان چند مبینہ ساتھیوں میں سے ایک جن کا پتہ نہیں چل سکا اور ایک جدید ترین حملہ کرنے کی سائنسی مہارت۔اسلام پسندوں کے ساتھ ان کی مبینہ وابستگی کی وجہ سے میڈیا کے متعدد اداروں نے انہیں ”لیڈی القاعدہ” قرار دیا ہے۔اسلامک اسٹیٹ نے دو مواقع پر اسے قیدیوں کے لیے تجارت کرنے کی پیشکش کی تھی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ایک ایف بی آئی ایجنٹ ہر روز دس دن تک ”اوسطاً آٹھ گھنٹے ” دن میں پوچھ گچھ کرتا تھا۔اس کی گواہی اس بات سے متصادم تھی جو بعد میں صدیقی نے وکلاء اور عدالت کو بتایا کہ اس کی گمشدگی کے دوران کیا ہوا تھا۔حامیوں نے شکایت کی کہ وہ میرنڈائز نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی پاکستانی قونصلر اہلکار تک رسائی حاصل تھی،اور یہ کہ وہ اس وقت نشہ آور حالت میں تھیں۔ اس نے بعد میں پاکستانیوں کے دورے پر بتایا کہ اس کے بیانات پاکستانی عوام کو اچھے نہیں لگ سکتے لیکن اس نے انہیں اس لیے دیا تھا کیونکہ اس کے بچوں کو دھمکیاں دی گئی تھیں۔۔مقدمے کی کاروائی میں دفاعی اٹارنی ایلین شارپ نے کہا کہ صدیقی پر ملنے والے دستاویزات اور آئٹم لگائے گئے تھے۔ حکومتی دہشت گردی کے ماہر نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اس کی اپنی ہینڈ رائٹنگ میں سو صفحات ہیں۔پاکستان میں صدیقی کی بہن فوزیہ نے امریکہ پر اس کی بہن کے ساتھ زیادتی اور تشدد کرنے اور اس کے علاج سے انکار کرنے کا الزام لگایا۔پاکستان کی قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس میں عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کا مطالبہ کیا گیا ۔اپنے مقدمے کی سماعت سے قبل عافیہ صدیقی نے کہا کہ وہ تمام الزامات سے بے قصور ہیں۔اس نے برقرار رکھا کہ وہ ثابت کر سکتی ہے کہ وہ بے قصور ہے لیکن عدالت میں ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔جنورج 2010 ء کو عافیہ صدیقی نے جج کو بتایا کہ وہ اپنے وکلاء کے ساتھ تعاون نہیں کریں گی اور انہیں برطرف کرنا چاہتی ہیں۔اس نے کہا کہ کسی جج پر بھروسہ نہیں اور مزید،میں مقدمے کا بائیکاٹ کر رہی ہوں، صرف آپ سب کو بتانے کے لیے۔بہت زیادہ ناانصافی ہو رہی ہے۔اس کے بعد استغاثہ کی کاروائی کے دوران اس نے اپنا سر دفاعی میز پر رکھا۔۔۔۔۔۔۔
اصل بات یہ ہے کہ یہ سارا عمل جاری رہا اور ابھی تک جاری ہے لیکن پاکستان کی مظلوم بیٹی کو ابھی تک انصاف نہیں مل سکا۔سارے لیڈر کہتے رہے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کروائیں گے لیکن کسی نے بھی اس کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔ افسوس کہ ہم اپنے ذہین ترین عوام سے اپنے مفاد کی خاطر کام تو لیتے رہتے ہیں پر جب بات عوام کی جان پر آتی ہے تو ہم ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتے ۔ ہمیں خبر تک نہیں ہوتی کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کیوں؟؟ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان کا بہت بڑا سرمایہ تھی لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو نظر انداز کیا گیا۔۔۔ڈاکٹر عافیہ کی ساری زندگی جوانی سے لے کر بڑھاپے تک مسلسل ظلم و ستم سہتے ہوئے گزر رہی ہے۔۔اب ایسی حالت ہے کہ بالکل دنیا و جہاں سے بیگانہ ہوگئی ہیں ،پر ابھی تک مکار امریکہ نے ان کی رہائی کا نام تک نہیں لیا۔۔۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جلد سے جلد رہائی کے اسباب پیدا کرے تاکہ وہ اپنی زندگی کے آخری ایام اپنے وطن میں اپنے پیاروں کے پاس گزار سکیں۔
٭٭٭