
شیخ عقیل الرحمان ایڈووکیٹ
صدر آزاد ریاست جموں وکشمیر بیرسٹر سلطا ن محمود چودھری صاحب صدارت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے بیس کیمپ کی قیادت اور عوام کو متحرک کرنا شروع کردیا اس سلسلہ میں آزادجموں وکشمیر کی تمام جماعتوں کو آ ل پارٹیز کانفرنس کے پلیٹ فارم پر جمع کرکے سب سے پہلے اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس ریلی کا اہتمام کیا جبکہ اس تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے دوسرا پروگرام دارلحکومت مظفرآباد میں منعقد کیا گیا جس میں وزیر اعظم آزادکشمیر، تمام جماعتوں کی قیادت،سابق وزرائے اعظم،سابق صدرشریک ہوئے۔

صدر ریاست بیرسٹر سلطان محمود چودھری صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ آزادکشمیر کے دیگر مقامات پر بھی یہ کانفرنسز منعقد کی جائیں گی اور پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی ریلیوں کا انعقاد کیا جائے گا اور با لآخر ہم سیز فائر لائن کی طرف مارچ کریں گے،سیز فائر لائن کو دیوار برلن کی طرح اپنے پاؤں تلے روند ڈالیں گے۔جبکہ وزیر اعظم آزاد کشمیر عبدالقیوم نیازی صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ کشمیر ایک وحدت ہے تقسیم ناقابل قبول ہے مسئلہ کشمیر پر ہم سب متحد و متفق ہیں اور ہم نے آزادکشمیر کو حقیقی معنوں میں بیس کیمپ بنانا ہے جبکہ دیگر تمام قائدین جناب راجہ فاروق حیدر خان صاحب،چوہدری لطیف اکبرصاحب،سردار عتیق احمد خان صاحب،عبدالرشید ترابی صاحب سمیت تمام تمام زعماء نے تقسیم کشمیر کی مخالفت کی اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنائے جانے کے اقدام پر مزاحمت کرنے کا اعادہ کیا۔تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے یہ ایک بڑا پروگرام تھا بڑا اس لیے کہ آزادکشمیر کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس میں شریک تھیں البتہ پروگرام میں مہاجرین جموں وکشمیر کے علاوہ عام شہریوں اور سرکاری ملازمین کی عدم شرکت کی وجہ سے جلسہ گاہ کی کرسیاں خالی تھیں۔پروگرام کے لیے اجتماعی طور پر جو منصوبہ بندی ہونی چاہیے تھی اس کا فقدان تھا۔بہر حال ان پروگراموں کے حوالے سے صدر ریاست جناب بیرسٹر سلطان محمود چودھری صاحب متحرک رہے اور ہر ایک سے ذاتی طور پر رابطہ کرتے رہے ان کی کاوش لائق تحسین ہے ماضی میں سفارتی سطح پربھی کافی متحرک رہے،سفراء سے ملاقاتیں کرنا اور کشمیر کی تشویشناک صورت حال سے آگاہ کرنا ان کا خاصہ رہا اسی طرح بین الاقوامی سطح پر برطانیہ،یورپ اور امریکہ میں انہوں نے بڑے موثر پروگرامات منعقد کیے بہر حال عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر سے روشناس کرانا اور اس کے حل کے لیے متوجہ کرنا ان کا کردار رہا جس کا ہر کوئی معترف ہے۔

صدر ریاست کا منصب سنبھالنے کے بعد قومی سطح پر حکومتی اختیارات کو برؤے کار لاکر متحرک ہو گئے ہیں جو کہ خوش آئند ہے اسی طرح وزیر اعظم آزادکشمیر نے کشمیر کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم سب ایک ہیں اور کشمیر ایک نا قابل تقسیم وحدت ہے وہ قابل تعریف ہے۔ وزیر اعظم صاحب کی جانب سے آزادکشمیر کو صحیح معنوں میں آزادی کا بیس کیمپ بنانے کا اعلان مبالغہ آرائی ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بیس کیمپ تو دور کی بات ہے حکومت آزادکشمیر نے تحریک آزادی کشمیر کو اپنی حکومت میں پہلی ترجیح بھی نہیں دی ہے ماضی میں بھی سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان بھی کہتے رہے کہ آزادی کشمیر ہماری ترجیح اول ہے لیکن نہ اس وقت نہ اب یہ آخری ترجیح بھی ہے۔ آزادکشمیر کو حقیقی بیس کیمپ بنانا اور تحریک آزادی کشمیر کو ترجیح اول رکھنا اس کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے فی الحال وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ تحریک آزادی کشمیر کا سیاسی طور پر ہم نام لیتے ہیں اور کبھی کبھار کوئی جلسہ کانفرنس کا انعقاد کرلیتے ہیں ایک عدد لبریشن سیل جو حکومت کی ایما ء پر چلتا ہے آزادی سے زیادہ حکومتی پروگرامات ترتیب دیتا ہے بس ایسی تحریک آزادی کشمیر کے لیے کاوش ہے بلا ان نمائشی اور سیاسی پروگرامات سے کشمیر آزاد ہوسکتا ہے قطعاً نہیں اس کے لیے آگ اور خون کے دریا سے گزرنا ہو گا اس کے لیے آزادکشمیر کی قیادت تیار نہیں ہے جب قیادت تیار ہو گی تو کشمیر آزاد ہو جائے گا ہم اپنی قیادت سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ سب مل کر اسے آزادی کا بیس کیمپ بنائیں جس کا مقصود صرف اور صرف آزادی ہو یہ ہو جائے تو آزادی کا نصف کام ہو جائے گا‘ آزادکشمیر اگر حقیقی معنوں میں آزادی کا بیس کیمپ ہو۔ یہاں کے وسائل آزادی کی جدوجہد میں خرچ کیے جائیں لیکن ان میں سے کوئی ایسی بات نہیں ہے صرف زبانی جمع خرچی ہے قراردادیں ہیں بیانات جلسے جلوس اور ریلیاں ہیں بیرون ملک دورے ہیں ان تمام نمائشی پروگرامات کو منعقد کرنے کے لیے لبریشن سیل کا ادارہ ہے ان پروگرامات کے ذریعے کشمیرکو آزاد کرانا چاہیں تو یہ بھول ہو گی 74سالوں سے ہم یہی کرتے رہے ہیں محض زبانی خرچ ہے اس طرح کیا کشمیر آزادہو گیا؟بلکہ ان پروگرامات سے ہندوستان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑاوہ کشمیر کو ہندوستان میں ضم کرنے کے لیے قتل عام کی پالیسی پر گامزن ہے اور پہلے سے زیادہ اس کے اقدامات میں تیزی آگئی ہے گزشتہ ہفتے ہی تقریباً20افراد کو شہید کردیا گزشتہ 960دنوں سے اس کی 9لاکھ درندہ صفت افواج نے کشمیر کا محاصرہ کررکھا ہے اور اہل کشمیر کو جینے کے حق سے بھی محروم کررکھا ہے ان کی زندگی ان کی عزت اور ان کی جائیداد سب کچھ ملیا میٹ کردیا جاتا ہے حتیٰ کہ ہزاروں نوجوانوں کوپابند سلاسل کیا ہوا ہے اس لیے ہمیں کاغذی کارروائیوں سے ہٹ کر آزادی کے حقیقی پروگرام کی طرف آنا چاہیے۔کشمیر صرف اور صرف جہاد سے آزادہو گا۔جہاد کے لیے نہ ہماری قیادت تیار ہے نہ پاکستان کی قومی قیادت اور نہ افواج پاکستان تیار ہیں بلکہ سب کی نظر کشمیرکی آزادی کی بجائے مظفرآباد اور اسلام آباد کی کرسی پر ہے۔ایسے بھی کبھی آزادی ملا کرتی ہے۔
ایسی مشکل تو نہیں دست وفا کی تسخیر
سر میں سودابھی تو ہو دل میں ارادہ بھی تو ہو
٭٭٭