کتنی بے بسی

عروج آزاد

جب کوئی بھی قوم اپنے اصل کو بھول جاتی ہے اوردوسروں کو فالو کرنا شروع ہو جاتی ہے تو وہ خسارے میں چلی جاتی ہے۔اب دنیا دیکھ چکی ہے کہ کیا ہوا تھا ؟اور دیکھ رہی ہے کہ کیا ہو رہا ہے ؟ لیکن غور کرنے والی بات کہ دنیا کی عالمی تنظیمیں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں وہ بھی وہاں جہاں پر مسلم عوام ظلم و ستم کے انتہائی بیاناک مرحلے پر پہنچی ہوئی ہے۔عالمی اداروں نے کبھی بھی مسمانوں کے لیے بڑا سٹینڈ نہیں لیا اور نہ ہی لینے کا کوئی ارادا رکھتے ہیں۔ عالمی طاقتوں کے بارے میں یہ خیال بہت بہتر ہے کہ وہ آنکھیں ،کان بند کر کے دنیا کے تمام مسلمانوں کے مسائل سے کنارہ کیے ہوئے ہیں ۔ انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کشمیر میں کیا ہو چکا ہے ؟ اور کیا ہو رہا ہے ؟ اس کے ساتھ ہی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے غور کیا جائے تو مسلمانوں کے دل وجان پر ہاتھ ڈالا گیا ہے یعنی میری مراد امت مسلمہ کی محبت قبلہ اول بیت المقدس ہے۔ہم یہودیوں کی اصلیت سے تو بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ مسلمانوں کے مقدس مقامات پر مقدس مہینوں میں اپنے گھٹیا اور گھنائونے ہتھکنڈے آزمانے آیا ہے اور آزما رہا ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہودیوں اور کافروں سے ہماری امیدیں کبھی وابستہ نہیں رہی اور نہ کبھی رہیں گی۔کیونکہ یہودی وکفار کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے یہ ہماری مقدس کتاب قرآن کریم کے الفاظ ہیں۔ تو پھر ہم مسلمان کدھر جا رہے ہیں ؟ کس کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہیں ؟کہ کون آئے گااور ہمارے حالات بدلے گا۔ہمارے اوپر کئے جانے والے ظلم وستم کو روکے گا۔

فلسطین میں بیت المقدس پر پچھلے عرصے کی طرح اس بار بھی رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں اسرائیل نے اپنے ناپاک ارادوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حملہ کیا اور ہزاروں کی تعداد میں مسلم مرد و خواتین پر تشدد کیا۔ امت مسلمہ کے لیے کتنی بے بسی و بے حسی کی انتہا ہے کہ 1 ارب 80 کروڑ امت مسلمہ ، 60 مسلم ممالک ،جدید اسلحہ سے لیس ،80 لاکھ ریگولر آرمی ،اہم قدرتی وسائل کی موجودگی کے باوجود قبلہ اول اور بہنوں کی حرمت نہیں بچا سکتے۔کیونکہ غیرت ناپید ہو چکی ہے۔ افسوس صد افسو س

! خدا کی قسم ۔۔۔اگر عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ اسے دیکھ لیتے (بیت المقدس میں ظلم وزیادتی اور عزت کی پامالی) تو صیہونیوں کے لیے کہیں چھپنے کی جگہ نہ بچتی ،اور اگر خالد بن ولیدؓ دیکھ لیتے تو اسی وقت تلواریں اٹھالیتے اور ان کو سمجھاتے مسلمان کسے کہتے ہیں ۔۔اگر معتصم باللہ دیکھ لیتا تو اپنی بہن کے آنچل پہ گرے خون کے ایک ایک قطرے کے بدلے ستر ستر لاشے نہ گرالیتا تب تک سکون سے نہ بیٹھتا۔۔

!اے مسلمانو!کیاتمہارے ہاتھ مفلوج ہو گئے۔یا تمہاری زبانیں کٹ گئیں یا تمہای رگوں میں خون جم گیا۔خدا کے لیے اب تو اٹھ کھڑے ہو۔کب تک غفلت کی نیند سوتے رہو گے۔کبھی تو اپنے ماضی کی فتوحات کو حال میں بدلنے کے لیے کمر بستہ ہو۔

کب تک اپنے سیاسی جمہوری لیڈروں کے پیچھے زندگی تباہی کرتے رہو گے ؟

کب تک وطن پرستی کو بت کی طرح پوجتے رہو گے ؟

اس سے بڑی اور کیا اس نظام کی ناکامی کی دلیل ہو گی کہ کئی برس گزر جانے کے باوجود بھی وہی ظلم و ستم جاری ہے جبکہ ٹکڑوں میں بٹی مسلم ریاستیں اور ان پہ مسلط حکمران فقط ٹوئٹر کی جنگ یا اقوام متحدہ سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں ؟؟؟

افسوس ہم اپنے دل کو نہیں بچا سکے۔۔۔

آہ بیت المقدس آہ۔۔۔

٭٭٭