
محمد احسان مہر
ایک مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے کشمیریوں سے جڑاہر دکھ او ر درد میرا اور میری قوم کا درد ہے،اور بجا طور پر ہم اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہم کشمیریوں کی سفارتی،سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے،لیکن نہ جانے کیوں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب یہ الفاظ کھوکھلے سے ہو رہے ہیں،دراصل جب کو ئی قوم اعلیٰ مقاصد سے پہلو تہی کر کے طویل المدتی منصوبہ سازی میں مصروف ہو جاتی ہے تو یقینی طور پر ابہام پیدا ہوتا ہے،بحثیت قوم ہم اپنی آزادی کے مقاصد سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں،برصغیر میں مسلمانوں کے لیے الگ وطن کے حصول کے دو بنیادی مقاصد تھے نمبر (۱)مسلمان اپنے مذہبی فرائض اور ثقافتی رسومات آزادانہ طریقے سے ادا کر سکیں،
نمبر(۲)برصغیر کے باقی ماندہ غلام اور مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کمزور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات بھی اٹھا سکیں،لیکن افسوس۔۔۔دیکھ لیجیے۔۔۔آج ہم کہاں کھڑے ہیں،قیام پاکستان کو؛؛پون صدی؛؛ ہو رہی ہے اور ہم ابھی تک اپنا دفاعی حصار مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں لگے ہوئے ہیں،یہ الگ بات ہے کہ اس دوران ہمارا ایک بازو کاٹ دیا گیا اور شہ رگ ابھی تک دشمن کے نرغے میں ہے،(اللہ تعالیٰ ڈاکٹر عبدالقدیرکی قبر کو اپنے انوار سے بھر دے جنہوں نے ہماری اس آزادی کو ابدی آزادی میں بدل دیا)لیکن ہم پھر بھی زندہ قوم ہیں کرکٹ کے میدانوں سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک،دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز تو ہمیں حاصل ہے ہی اب سیات کی کرشمہ سازی سے ریاستی اداروں کو عوامی جزبات و احساسات کے سامنے کھڑا کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہونے جا رہا ہے،اللہ دنیا و آخرت میں ان کے درجات بلند فرمائے جن کے کشمیر کے حوالے سے ان الفا ظ کی بدولت ہم آج تک ہواؤ ں میں اڑ رہے ہیں کہ،ہم کشمیریوں کی سفارتی،سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھیں گے،کرکٹ کے ٹی وی ٹاک شو اور تبصروں سے کبھی فرصت ملے تو اس پر بھی روشنی ڈالیے نا۔۔۔کہ سفارتی،سیاسی اور اخلاقی حمایت سے ہم کس ظلم وستم کے آگے بند باندھ سکے،کیا ہم بچوں کی پیلٹ گن سے ضائع ہونے ولی بینائی روک سکے،ہزاروں کشمیری عفت مآب بہنوں اور بیٹیوں کے آنچل کو تار تار ہونے سے بچایا جا سکا،کالے قوانین کے تحت مسلم نوجوانوں کو گھروں سے اٹھانے کا سلسلہ رک سکا،بے بنیاد الزامات کی پاداش میں بھارتی عقوبت خانوں میں ٹارچر کا سلسلہ رک سکا،کتنے مکان زمین بوس ہونے سے بچ گئے اور کتنے باغات اجڑنے سے،بھارت نے غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور ہم دیکھتے رہے،بھارت کشمیریوں کی زمین کی خرید وفروخت اور غیر کشمیری باشندوں کو ریاستی ڈومیسائل کے اجرا ء سے آبادی کاتناسب تبدیل کررہا ہے،اور 1947سے آج تک اپنے قبضے کو دوام بخشنے کے لیے کشمیری قوم پر ہر قسم کے ظلم و جبر کے ہتھکنڈے آزماء رہا ہے، حالیہ دنوں نہتے اور کاروباری حضرات کو مجاہدین قرار دے کر بھارت نے جس ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا ہے، یہ تمام بھارتی اقدام ہماری۔۔حمایت۔۔کا منہ چڑا رہے ہیں،واضح رہے کہ ان چار افراد میں ایک ڈاکٹر اور ایک سابق بھارتی ایجنٹ لطیف ماگرے کا بیٹا بھی شامل ہے،جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی سرکار کو کشمیری مسلمانوں کا وجود کسی صورت بھی قبول نہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ بے حس عالمی برادری کے ساتھ ساتھ بے ضمیر اقوام متحدہ اور مسلم دنیا نے بھی کشمیریوں کو ان کے ہال پر چھوڑ دیا ہے۔جس کی واضح مثال افغانستان کی صورت میں ہمارے سامنے ہے، جہاں سے یکے بعد دیگرے دو عالمی طاقتیں اور ان کے ہواری ذلیل و خوار ہو کر نکلے۔ لیکن مسئلہ کشمیر سات دہایوں کے باوجود جوں کا توں ہے۔دنیا کو انسانیت اور اخلاقیات کا درس دینے والے کشمیر میں جاری بھارتی ظلم و ستم اور قتل و غارت پر بھی توجہ دیں۔ بھارت اگراسرائیل کی طرز پر کشمیریوں کی نسل کشی میں کامیاب ہو گیا تو بھارت میں کمزور اقلیتوں کا مستقبل کیا ہو گیا۔۔۔۔اور اس وقت ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔۔۔۔موجودہ حکومت اور ملکی میڈیا جس طرح کرکٹ کے متعلق مسائل سلجھانے میں کردار ادا کرتے ہیں اور کھال سے بال نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔اسی طرح۔۔ صاحب اقتدار اور ملکی میڈیا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی سفارتی، سیاسی اور اخلاقی حمایت کے غلاف سے باہر نکلیں۔
٭٭٭
محمد احسان مہرشیخ پورہ پنجاب کے نوجوان قلمکار ہیں۔
ماہنامہ کشمیر الیوم کے مستقل کالم نگار ہیں