محمد فردوس بابا
اگر گزشتہ دہائی کے سیاسی منظر نامے کو غور سے دیکھا جائے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ 2014ء سے بالعموم اور 2019ء سے بالخصوص کشمیریوں کے خلا ف نفرت میں خوفناک اور بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 2019ء کا پلوامہ دھماکہ محض ایک واقعہ نہ رہا، بلکہ نفرت کی جڑ بن گیا۔ اس کے بعد سے کشمیری مزاحمت کا ہر عمل اور بھارتی ریاست کی طرف سے ترتیب دیے گئے ہر جھوٹے فلیگ آپریشن کو بھارتی عوامی جذبات کو مزید بھڑکانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ نفرت کو نہ صرف ابھارا گیا بلکہ تیار کیا گیا، سنوارا گیا اور پھر بھارتی قومی نفسیات میں مستقل حیثیت سے اسے محفوظ کر دیا گیا۔
مگر یہ بھی ایک عیاں حقیقت ہے کہ یہ نفرت نہ تو نئی ہے اور نہ اچانک پیدا ہوئی ہے۔ چودھویں صدی سے، جب کشمیریوں کی غالب اکثریت نے اپنی مرضی اور بلا کسی خوف و دباوکے شاہ ہمدان رحمت اللہ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا تو ایک نہایت معمولی اقلیت نے لوگوں کی اس تبدیلی مذہب کو ہضم نہ کیا اور انہوں نے اس تبدیلی کے خلاف ایک متضاد بیانیہ تخلیق کیا جس میں کشمیری مسلمانوں کو مندر توڑنے والے، مقدسات کی بے حرمتی کرنے والے اور ظالم قرار دیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس بیانئے کو مزید تقویت دی گئی۔ 90ء کی دہائی میں اس بیانئے کی سب سے مہلک شکل سامنے آئی، جب کشمیریوں نے بھارتی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کی تو نئی دہلی نے موقع غنیمت جانا اور بھارتی ریاست کے حکمرانوں اور ہندوتوا کے پرستاروں نے کشمیری پنڈتوں کی ہجرت کا الزام مسلمان اکثریت پر لگا دیا، جبکہ یہ کارنامہ ان کے اپنے مقرر کردہ گورنر جگ موہن نے انجام دیا۔ درحقیقت یہ جگ موہن ہی تھا جس نے ان کی بے دخلی کو منظم اور آسان بنایا تاکہ کشمیری مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام کا راستہ کھل جائے۔ اور بالکل منصوبے کے مطابق، پنڈتوں کے روانہ ہونے کے صرف چند دنوں بعد ہی ہزاروں کشمیری مسلمانوں کا خون بہایا گیا اور جدید تاریخ کے سب سے وحشیانہ فوجی آپریشنز کا آغاز ہوا۔

آج یہ نفرت اس درجہ بڑھ چکی ہے کہ ہر کشمیری کو غیر معمولی نفسیاتی دبائو میں زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ حد سے زیادہ شائستہ، حد سے زیادہ صابر اور حد سے زیادہ پرامن رہے، اور مسلسل اپنی پرامن فطرت ثابت کرتا پھرے، ان لوگوں کے سامنے جو نہ اس کی تاریخ کو سمجھتے ہیں اور نہ سمجھنا چاہتے۔ اس پر براہ راست اور بالواسطہ دباوڈالاجاتا ہے کہ وہ اپنی ہی اس مزاحمتی تحریک سے بھی لاتعلقی اختیار کر لے جو اس نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے شروع کی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کشمیریوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اس ملک سے غداری کر رہے ہیں جس کی وفاداری کا حلف انہوں نے کبھی لیا ہی نہیں، جس میں وہ کبھی رضامندی سے شامل نہیں ہوئے اور جسے وہ کبھی اپنا ملک نہیں سمجھتے۔ حق خود ارادیت کا مطالبہ، جس کا بھارت کے پہلے وزیراعظم نے اقوامِ متحدہ میں کھلے عام وعدہ کیا تھا، تضحیک اور جرم قرار دیا جا رہا ہے۔
اس تناظر میں بھارت نے ایک بار پھر وہی پرانا ڈرامہ شروع کر دیا ہے جس میں کشمیریوں کو مستقل ملزم بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور ریاستی مشینری ’’سیکیورٹی ‘‘کے لبادے میں انتقام کے جذبے کے ساتھ حرکت میں آ جاتی ہے۔ دہلی دھماکہ، جو ابھی تک غیر یقینی صورتحال اور بے جواب سوالات میں لپٹا ہوا ہے، کشمیریوں کے خلاف گرفتاریوں، چھاپوں، تفتیشوں اور نفسیاتی جنگ کی نئی لہر کے لیے ایک نیا بہانہ بن گیا ہے۔ کوئی دھماکہ ہو، کوئی واقعہ پیش آئے یا تشدد کی کوئی سرسراہٹ سنائی دے، بھارتی ریاست کا سب سے پہلا ردعمل کشمیریوں کی سزا اور پروفائلنگ ہوتا ہے۔
دہلی کے مبینہ واقعے سے بھی پہلے، ہزاروں کشمیریوں کوجن میں طلبہ، مزدور، تاجر اور مسافر شامل ہیں—وادی کشمیر میں ’’پری ایمپٹو ڈیٹینشن‘‘ کے نام پر گھیر کر پکڑ لیا گیا تھا۔ 9 نومبر 2025ء کو ضلع اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر کو سری نگر میں کشمیر کی آزادی کے حق میں پوسٹرز لگانے کے الزام پر بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر سہارنپور میں گرفتار کیا گیا ہے جو وہاں ایک نجی اسپتال میں کام کر رہا تھا۔ پولیس نے الزام عائد کیا ہے کہ ڈاکٹر عادل احمد کی شناخت سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے ہوئی ہے جس میں اسے سرینگر کے متعدد مقامات پر پوسٹرز لگاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ 11 نومبر 2025ء کو ضلع پلوامہ، شوپیاں، سرینگر، بڈگام، ہندواڑہ، کولگام اور گاندربل کے علاقوں میں بھارتی فوج اور پولیس اہلکاروں اور دیگر ایجنسیوں نے صرف تین دنوں کے دوران محاصرے اور تلاشی کی مہم تیز کرتے ہوئے تقریباً 1500 افراد کو پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کر لیا۔ گرفتار کیے گئے نوجوانوں میں ڈاکٹر مزمل احمد گنائی اور ڈاکٹر عدیل احمد کے علاوہ عارف نثار ڈار، یاسر الاشرف، مقصود احمد ڈار، مولوی عرفان احمد اور ضمیر احمد اہنگر بھی شامل ہیں۔ ان کارروائیوں کا بنیادی ہدف آزادی پسند کارکن اور ان کے ہمدرد تھے، جن کے مکان اور بینک کے دستاویزات، ڈیجیٹل آلات، کتابیں اور دیگر اشیا ضبط کیے گئے۔اور دہلی دھماکے کے بعد گرفتاریاں ہر آدھے گھنٹے بعد میٹرو نوٹ کی طرح ہو رہی ہیں۔

بریکنگ نیوز کی ہیڈلائن “دہلی دھماکہ کیس میں ایک اور کشمیری گرفتار” اتنی بار دہرایا جا رہا ہے کہ وہ بھارت کا قومی نعرہ لگنے لگا ہے۔ اب وہ خاص طور پر اور دانستہ طور پر کشمیریوں کے دانشور طبقے کو نشانہ بنا رہے ہیں، وائٹ کالر دہشت گردی جیسے نئے اصطلاحات گھڑ کر ہر کشمیری کے سر پر شک کا بادل چڑھا رہے ہیں اورمسلمان ہونے کی سزا دے رہے ہیں، تاکہ ایک ایسا ماحول بنایا جائے جہاں ڈاکٹر، وکیل، پروفیسر اور محققین کو بغیر کسی جواز کے ستایا جا سکے۔ 13 نومبر 2025ء کو بھارتی تحقیقاتی ایجنسیوں نے دلی میں لال قلعے کے قریب ہونے والے حالیہ دھماکے کی آڑ میں ڈاکٹر عمر النبی اور مزمل احمد گنائی سمیت 57 ڈاکٹروں کو دھماکے میں ملوث کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں دہلی پولیس کی تفتیشی ٹیمیں وادی میں پہنچی جہاں انہوں نے اس منصوبے میں تین ڈاکٹروں اور خواتین سمیت 1700 سے زائد کشمیریوں کو حراست میں لیا، جن میں سے بہت سوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اےجیسے کالے قوانین کے تحت جیل بھیج دیا گیا ہے۔ بھارتی قابض انتظامیہ نے سیاسی اور دینی تنظیموں کے خلاف اپنی کارروائی جاری رکھتے ہوئے جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر اور دیگر حریت پسند تنظیموں کے اراکین اور کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مار کر مکینوں کو ہراساں کیا اور بینک اور مکانوں کے اہم کاغذات، موبائل فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ قبضے میں لے لئے۔ ضلع پونچھ میں پولیس نے ایک کشمیری محمد اقبال کی جائیداد، جس کی مالیت تقریباً ایک کروڑ 11 روپے ہے، ضبط کر لی۔ بھارتی فوج، بھارتی پولیس، اور کاونٹر انٹیلی جنس کشمیر کے اہلکاروں نے وادی کشمیر کے اسلام آباد، پلوامہ اور کولگام اضلاع کے علاوہ جموں خطے کے ضلع ڈوڈہ میں تقریباً 13 مقامات پر چھاپے مارے اور آزادی پسند کارکنوں، کشمیری پیشہ ور افراد اور عام شہریوں کے گھروں کو نشانہ بنایا۔ 15 نومبر 2025ء کو گرمائی دارالحکومت سری نگر کے مضافات میں واقع نوگام تھانے میں ہونے والے ایک پراسرار دھماکے میں کم از کم 9 پولیس اہلکار ہلاک جبکہ 30 کے لگ بھگ زخمی ہو گئے ہیں۔یہ تمام کے تمام مسلمان ہیں ۔ دھماکہ اس وقت ہوا جب پولیس کی ایک ٹیم تھانے میں رکھے گئے دھماکہ خیز مواد کی جانچ کر رہی تھی۔ قبل ازیں بھارتی حکام نے بھارتی ریاست ہریانہ کے علاقے فرید آباد میں ایک کرائے کے مکان سے 360 کلو گرام دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی کا دعویٰ کیا تھا۔ مواد کا کچھ حصہ جانچ کے لیے نوگام تھانے میں لایا گیا تھا۔ حکام نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ فرید آباد کے جس مکان سے دھماکہ مواد برآمد کیا گیا اس میں ایک کشمیری ڈاکٹر مزمل گنائی رہائشی پذیر تھا۔ پولیس نے مزمل گنائی کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔یہاں یہ سوال تو پیدا ہوا کہ جب وادی میں ہوہے بم دھماکوں میں شامل مواد کو دہلی فرانزک ٹیسٹ کیلئے لیاجاتا تھا تو اب کی بار کیوں دہلی اور یو پی کی جدید تریں فرانزک لیبارٹریز پر کشمیر کےایک دور دراز دیہات کے تھانے والی فرانزک لیبارٹری کا انتخاب کیوں کیا گیا۔

بات یہ نہیں کہ پہلے وہ ان پیشوں سے وابستہ لوگوں کو نشانہ نہیں بناتے تھے، انہوں نے ماضی میں سینکڑوں ایسے افراد کو قتل کیا ہے۔ لیکن اب ان افراد کے خلاف تشدد کشمیری دانشور برادری کے پورے طبقے کے خلاف ایک مکمل حملے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔آج کا بھارت سو فیصد اسلام مخالف اور کشمیر مخالف بیانئے کے ایندھن پر چل رہا ہے اور لگتا ہے کہ ہندوتوا کے پرستاروں کو ایک مستقل دشمن اور ولن کی ضرورت ہے جس کے وجود سے ریاستی جبر، نفرت کی مشینری اور ہندوتوا کے نظریاتی خوابوں کو جواز ملتا رہے۔ اس کردار کے لیے کشمیریوں سے بہتر کوئی کردار نہیں۔ بقول ان کی فلاسفی کے کہ کشمیری ظاہری طور پر سیدھے سادھے مسلمان لیکن سیاسی طور پر سرکش ہیں۔ یا اس سوچ کا احاطہ معروف کشمیری نژاد امریکن مصنفہ اطہر ضیا نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ ’’قابل قتل ‘‘قوم ہے۔ اگر بھارت کے بس میں ہوتا تو وہ ایک جھٹکے میں ہر کشمیری مسلمان کو گرفتار کر لیتا، پوری قوم کو کسی دھماکے سے جوڑ کر جیلوں میں ڈال دیتا اور ساری آبادی کو ایک ہیڈلائن کا توسیعی حصہ بنا دیتا۔ ابھی تک اسے روکے ہوئے صرف عالمی سطح پر جمہوریت کا چربہ برقرار رکھنے کی مجبوری ہے۔بھارتی عوام سے توقع رکھنا کہ وہ تاریخ سمجھیں گے اور اپنے تعصب سے باہر نکلیں گے، ایں خیال است و محال است و جنوں است۔ وہ نادان جنونی جو بھارتی مسلمانوں کو محض فریج میں گوشت رکھنے کے شبہ میں بے دردی سے قتل کر دیتے ہیں اور کھلم کھلا ان کے قتل عام کا مطالبہ کرتے ہیں، ان سے یہ توقع بے کار ہے۔دنیا کو جاگنا ہو گا کہ ایک اور بڑا قتل عام کو روکنا ہو گا۔ بھارت چاہتا ہے کہ عالمی برادری کشمیریوں کو ولن، دہشت گرد اور انتہا پسند سمجھ لے تاکہ جب اگلی بڑی بے دخلی یا قتلِ عام ہو تو دنیا کندھے اچکائے یا، اس سے بھی برا کوئی طریقہ اختیار کر کے، متاثرین کو ہی قصوروار ٹھہرائے۔ اسلامی دنیا کو بالخصوص اس صورت حال کو دیکھنا ہو گا اور بروقت اقدامات اٹھانے پڑیں گے ورنہ ایک اور جموں جیسا قتل عام اور سپین جیسا منظر نامہ بالکل سامنے نظر آ رہا ہے۔ اللہ رحم فرمائے
OOO






