کشمیریوں کے خلاف منظم نفرت

بھارت میں کشمیریوں کے خلاف نفرت کوئی حادثاتی جذبہ نہیں بلکہ ایک طویل المدتی ریاستی و سماجی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ گزشتہ دہائی کے سیاسی منظرنامے پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت کسی شک و شبہ کے بغیر آشکار ہوتی ہے کہ کشمیریوں کے خلاف تعصب، پروپیگنڈا اور اجتماعی سزا کا عمل نہ صرف تیز ہوا ہے بلکہ یہ بھارتی قومی نفسیات کا ایک اٹوٹ حصہ بنتا جا رہا ہے۔ 2019ء کے پلوامہ واقعے کو ایک مستقل ہتھیار بنا کر جس بے دردی سے کشمیریوں کو مشکوک، مجرم اور دشمن بنا کر پیش کیا گیا اور کیا جارہا ہے، اس نے ہندوستانی معاشرے میں نفرت کے اس بیج کو مضبوط جڑوں کے ساتھ گاڑ دیا ہے ۔حالیہ دنوں میں دہلی دھماکے کے بعد جاری ہونے والی گرفتاریوں، تلاشیوں، چھاپوں اور میڈیا کی گمراہ کن مہم نے اس بات کو مزید واضح کر دیا ہے کہ بھارت کو صرف ایک بہانہ چاہیے۔کوئی بھی دھماکہ، کوئی بھی جھوٹا فلیگ آپریشن، کوئی بھی مشکوک خبر ہو تو پوری ریاستی مشینری سیکیورٹی کے نام پر کشمیریوں کے خلاف کھڑی ہو جاتی ہے۔ دہلی دھماکے کی غیر واضح صورتحال کے باوجود ہر چند گھنٹوں بعد ایک اور کشمیری گرفتارجیسے بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ کارروائیاں سچ کی تلاش سے زیادہ سیاسی نفسیات کی تشکیل سے تعلق رکھتی ہیں۔تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس مرتبہ حملہ صرف نوجوانوں، مزدوروں یا عام شہریوں پر نہیں بلکہ کشمیر کی اعلیٰ علمی شخصیات اور پروفیشنل طبقے پر ہورہا ہے۔ ڈاکٹرز، پروفیسرز، وکلاء اور محققین کو دہشت گردی جیسے من گھڑت الزامات میں گھیر کر ایک پوری قوم کے ذہین اور فعال طبقے کو مفلوج کرنے کی باقاعدہ کوشش کی جا رہی ہے۔یہ بھی ایک بنیادی سوال ہے کہ جدید ترین فرانزک سہولیات رکھنے والی دہلی اور یوپی کی لیبارٹریوں کے ہوتے ہوئے دھماکہ خیز مواد کی جانچ کشمیر کے ایک مقامی تھانے میں کیوں کی گئی؟ ایسے سوالات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ مقصد حقیقت تک پہنچنا نہیں بلکہ بیانیہ گھڑنا تھا۔کشمیر میں محاصرے، تلاشیوں اور اجتماعی گرفتاریوں کا جو سلسلہ جاری ہے، اس نے کشمیری عوام کو شدید نفسیاتی اور سماجی جبر میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ تاثر پختہ تر کیا جا رہا ہے کہ کشمیریوں کو اپنے بنیادی انسانی حقوق، اپنی شناخت اور اپنے سیاسی مؤقف سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ ان پر یہ دباو ڈالاجا رہا ہے کہ وہ اپنی مزاحمتی تحریک سے لاتعلقی اختیار کریں، حالانکہ یہ تحریک ان کی تاریخ، ان کے وجود اور ان کے اجتماعی شعور کا حصہ ہے۔دنیا کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کشمیر محض ایک علاقائی تنازعہ نہیں بلکہ انسانی حقوق کا بحران ہے۔ایک ایسا بحران جس میں لاکھوں لوگوں کی زندگیاں، عزتیں اور مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ بھارت جس شدت کے ساتھ کشمیریوں کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہا ہے، وہ ایک بڑے سانحے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔۔اسلامی دنیا، بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں کو بروقت اور مضبوط ردعمل دینا ہو گا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی عالمی برادری خاموش رہی ہے، المیے ناگزیر ہو گئے ہیں۔ آج کشمیر ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں ایک اور جموں جیسی بے دخلی یا اس سے بھی سنگین حادثے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔بھارت کا مقصد واضح ہے کہ کشمیریوں کو دہشت گرد ثابت کر کے ان کے خلاف کسی بڑے آپریشن کو عالمی سطح پر قابل قبول بنانا ہے۔ اس خطرناک کھیل کو روکنا عالمی اداروں اور مسلم امہ کی ذمہ داری ہے۔ورنہ آنے والی تاریخ ہمارے اس دور کو خاموش تماشائیوں کا دور قرار دے گی۔

ایک عہد کا خاتمہ

24نومبر2025کوماہنامہ کشمیر الیوم کے بانی مدیر، متین فکریؒ اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ان کی شخصیت محض ایک تجربہ کار صحافی یا ادارتی منتظم تک محدود نہیں تھی، وہ ایک ہمہ جہت علمی و فکری شخصیت تھے ۔ ان کی تحریروں میں جہاں تحقیق کا وقار تھا، وہاں اسلامی فکر کی لطافت بھی جھلکتی تھی۔ وہ تاریخ، اسلامی علوم، سیاست، فلسفہ اور عالمی تحریکات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ہر تحریر ایک جامع تجزیہ ہی نہیں بلکہ فکری رہنمائی کا درجہ رکھتی تھی۔ وہ ایک درد مند دل رکھنے والے عاشقِ رسول ﷺ تھے۔ وہ صحافت کو محض خبر رسانی نہیں بلکہ امر بالمعروف کا حصہ سمجھتے تھے۔ تحریک آزادی کشمیرکے ساتھ ان کا تعلق رسمی نہیں، قلبی اور ایمانی تھا۔ ماہنامہ ’’کشمیر الیوم‘‘ کے مدیر کی حیثیت سے انہوں نے اس مجلے کو صرف ایک رسالہ نہیں رہنے دیا بلکہ اسے ایک ادارہ فکر میں بدل دیا۔ ان کی سرپرستی میں یہ مجلہ کشمیر کی فکری سمت کا تعین کرنے والاایک معتبر پلیٹ فارم بن گیا۔ ان کا جانا صرف ایک فرد کا جانا نہیں، ایک فکر، ایک روایت، ایک عہد کا خاتمہ ہے۔اللہ تعلیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام پر فائز فرمائے ۔آمین