مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر اکتوبر1947سے قابض بھارتی فوجیوںکے نرغے میں ایک بڑے قید خانے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ صبح و شام گولیوں کی گن گرج، جلاو گھیراو،شہادتیں،گرفتاریاں اب عام معمول بن چکی ہیں۔ نوجوان نسل کو منصوبہ بند طریقے سے تہ تیغ کیا جا رہا ہے۔ قابض فوجیوںکے خلاف حریت پسند عوام کی آواز کو خاموش کرنے کیلئے فوجی قوت کا بے تحاشا استعمال کیا جارہا ہے۔ خونین اور افسوسناک سرکاری دہشت گردی کا کھیل پوری قوت سے جاری ہے۔ ہزاروں حریت پسند اورپُرامن شہری جن میں بزرگ، جوان، خواتین اور بچے شامل ہیں، بھارتی زندانوں اور عقوبت خانوں میں شدید مصائب و مشکلات برداشت کرتے ہوئے انتہائی کربناک زندگی گزار رہے ہیں۔اپنے ناجائز قبضے کو مستحکم کرنے کیلئے ریاست کا مسلم اکثریتی تشخص تبدیل کرنے کی منصوبہ بند کوششیں شد و مد سے جاری ہیں۔ریاستی انتظامیہ اور ایڈمنسٹریٹو سروسز سے مسلمانوں کو بتدریج بے دخل کیا جارہا ہے۔ اسوقت ریاستی انتظامیہ کے کلیدی عہدوں پر غیر ریاستی افراد براجمان ہیں۔کشمیری ملازمین کو بغیر کسی وجہ اور قانونی تقاضے پورے کئے بغیر ملازمتوں سے فارغ کیا جارہا ہے۔ تحریک آزادی کے ساتھ وابستگی کے بہانے رہائشی مکانوں اور جائیداد و املاک سے بالجبر لوگوں کو بے دخل کرکے کھلے آسماں تلے بے سروسامانی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جارہاہے۔ غیر ریاستی باشندوں کو بساکر ریاست کا مسلم اکثریتی تشخص اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ قابض بھارتی ا فواج کا معاملہ اب صرف مقبوضہ کشمیر تک محدود نہیں رہا بلکہ گزشتہ ایک برس سے اب اس کی سراغ رساں ایجنسیاں پاکستان میں آباد کشمیری مہاجرین کو بھی زندہ رہنے کے حق سے محروم کرنے کا واضح اشارہ دے چکی ہیں ۔روان برس 20فروری کو برما ٹاون راولپنڈی میں معروف حریت پسند رہنما امتیاز عالم اور 9ستمبر2023ء کو ریاض احمد المعروف ابو قاسم کوقاتلانہ حملوں کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔پاکستانی پولیس اور انٹلی جنس ذرائع کے مطابق دونوں واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ ہے ۔اخباری اطلاعات کے مطابق ریاض احمد کا قاتل کراچی ائیر پورٹ پر ملک سے فرار ہونے کی کوشش کے دوران گرفتار ہوا۔ملزم کی نشاندہی پر کچھ اور لوگ بھی پکڑے گئے ہیں اور کہا جارہا ہے یہ لوگ را کی ایما پر اپنی کارائیاں انجام دے رہے تھے ۔امتیاز عالم ؒ اور ریاض احمد ؒ کی شہادت سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ بھارتی عزائم انتہائی خوفناک ہیں ۔اکھنڈ بھارت کا جو خواب وہ دیکھ رہے ہیں لگتا ہے کہ اس کی تکمیل کیلئے انہوں نے باقاعدہ اپنی کوششوں کا آغاز کیا ہے ۔مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے معذرت خواہانہ رویے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ اب معاملات آہستہ آہستہ بے قابو ہوتے جارہے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ کشمیری پر امن قوم ہیں ۔امن چاہتے ہیں لیکن کشمیری یہ بھی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ قبرستان کی خموشی اور حقیقی امن میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔حقیقی امن جب تک قائم نہیں ہوگا ،اس خطے میں مصنوعی اقدامات کرکے امن قائم نہیں ہوسکتا بلکہ ان مصنوعی اقدامات کے نتیجے میں اکھنڈ بھارت کے نظرئیے کو فروغ ملے گا۔عالمی برادری کو بھی یہ احساس کرنا ہوگا کہ اگر مسئلہ کشمیر کو کشمیر ی عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہ کیا گیا تو پھر نہ صرف برصغیر جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کا امن خطرے میں پڑجائیگا۔جیسا کہ کینیڈا سے اس کی شروعات ہوچکی ہیں ۔طاقت کے زعم میں کینیڈاکے اندر جاکر وہاں کی سالمیت اور خودمختاری کو چیلینج کرکے خالصتان تحریک کے ایک اہم رہنما ہر دیپ سنگھ نجرکو قتل کیا جاتا ہے اور پھر بھارتی میڈیا پر سابق جرنیل کینیڈا پر ایٹمی حملہ کرنے کی دھمکی بھی دیتے ہیں ۔کینیڈا نے بظاہر سخت جواب دیا لیکن بھارتی فاشسٹ حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی ۔وہ اسے کوئی جرم نہیں سمجھتی بلکہ تاثر یہ دے رہی ہے کہ آنیوالے وقت میں اس سے بھی بڑی بڑی کاروائیاں کی جاسکتی ہیں ۔شاید بھارتی قیادت اس حد تک اپنے سامراجی عزائم ظاہر نہ کرتی لیکن عالمی امن کے ٹھیکیداروں نے اسے مقبوضہ جموںو کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر جو چھوٹ دی ہے ،یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ اب کینیڈاکی حدود میں بھی داخل ہوگئی۔ابھی وقت ہے کہ دنیا کی طاقتور اور آزاد قومیں معیشت اور تجارت کے نام پر بلیک میل نہ ہوجا ئیں ۔کیونکہ پھر نہ صرف ساو تھ ایشیا بلکہ پوری دنیا کی آزادی اور امن شدید خطرے سے دوچار ہوجائے گا۔اللہ رحم فرمائے
٭٭٭