ہر سال 14 اگست کو پاکستان اپنا یومِ آزادی مناتا ہے، اور اگلے ہی دن 15 اگست کو بھارت اپنی آزادی کا جشن مناتا ہے۔ ان دو تاریخوں کے درمیان ایک ایسی سرزمین ہے جو کبھی اپنی خودمختاری، اپنی منفرد شناخت اور اپنے وجود کی مالک تھی۔جموں و کشمیر آج یہ خطہ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت میں جبر و استبداد کے سائے تلے دب کر رہ گیا ہے۔ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت، جعلی الحاقِ ہند کی دستاویز کے ذریعے بھارت نے کشمیر پر قبضہ کرکے ایک ایسا جرم کیا جس کے بھیانک نتائج نہ صرف کشمیری عوام بلکہ پاکستان اور بھارت کے عوام بھی بھگت رہے ہیں۔ ایک تاریخی ریاست دو حصوں میں تقسیم ہوئی، اور اس تقسیم نے خطے کے امن کو ہمیشہ کے لیے خطرے میں ڈال دیا۔اقوامِ متحدہ نے 1948 میں استصوابِ رائے کے ذریعے کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کیا، لیکن یہ قرارداد اور اس جیسی درجنوں دیگر قراردادیں آج تک کاغذی دستاویزات سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ کشمیری عوام نے اس جبری تقسیم کو کبھی قبول نہیں کیا اور پہلے دن سے بھارت کے خلاف مزاحمت شروع کی۔ 1980 کی دہائی سے اس تحریک نے زور پکڑا، جسے دبانے کے لیے بھارتی فوج نے تشدد، جبری گمشدگیوں، اور ماورائے عدالت قتل جیسے غیر انسانی ہتھکنڈوں کا سہارا لیا۔ لاکھوں کشمیری اپنی شناخت اور آزادی کے لیے شہید ہوئے، لیکن ان کا خواب آج بھی ادھورا ہے۔بھارتی قیادت نے ظلم و جبر کی ہر حد پار کی۔ وقت کے ساتھ ظلم کی نوعیت بدلتی رہی، اور 5 اگست 2019 کو مودی حکومت نے رہی سہی نیم خودمختاری بھی چھین لی۔ دفعہ 370 اور 35A کو یکطرفہ طور پر ختم کرکے جموں و کشمیر کو دو یونین ٹیریٹریز میں تقسیم کردیا گیا۔ اب اسرائیلی طرز پر اس مسلم اکثریتی ریاست کی شناخت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی منظم کوششیں جاری ہیں۔آج جب بھارت اور پاکستان میں آزادی کے جشن منائے جا رہے ہیں، کشمیری اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن، پیلٹ گنز، گرفتاریاں، اور انسانی حقوق کی پامالیاں اس وادی کو قید خانہ بنائے ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں دونوں ممالک نے کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو تسلیم کیا، وعدے کیے، قراردادیں منظور کیں، لیکن بھارت کے ظالمانہ رویے نے ان سب کو محض کاغذی کارروائی بنا کر رکھ دیا۔ عالمی طاقتیں اور اقوامِ متحدہ اس خطے میں تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ انہیں نہ کشمیریوں کی قربانیاں نظر آتی ہیں، نہ انسانی حقوق کی پامالیاں۔ ان کی نظروں میں صرف اپنے مفادات، اسلحے کی تجارت، اور سیاسی ایجنڈوں کی بساط ہے۔کشمیر کا حل طلب مسئلہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کسی بھی وقت جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسی جنگ جو نہ صرف کشمیر بلکہ پورے جنوبی ایشیا کو تباہی سے دوچار کرسکتی ہے۔ مئی میں دونوں ممالک کے درمیان مختصر دورانیے کی کشیدگی نے شاید یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ کشمیر کا مسئلہ ایک چھوٹی سی چنگاری سے شعلہ بن کر عالمی امن کو خاکستر کرسکتا ہے۔ لیکن عالمی ضمیر اب بھی سو رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ کشمیری کیا کریں؟ کب تک ظلم سہتے رہیں؟ کب تک ان کے شہدا کا لہو رائیگاں جاتا رہے؟ کب تک عالمی ادارے اپنی بے بسی کا رونا روتے رہیں گے؟ تاریخ گواہ ہے کہ غلامی ہمیشہ نہیں رہتی، اور آزادی کبھی مفت نہیں ملتی۔ کشمیریوں کے پاس اب ایک ہی راستہ ہے: استقامت کے ساتھ مزاحمت کا۔ انہیں اللہ پر بھروسہ رکھنا ہوگا۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں ہوں یا انسانی حقوق کی تنظیمیں، سب اپنی جگہ، لیکن کشمیریوں کو اپنی آزادی کا سفر خود طے کرنا ہوگا۔جب برصغیر میں آزادی کے نغمے گونج رہے ہیں، کشمیر کی فضاؤں میں صرف ایک ہی صدا گونجنی چاہیےہم کیا چاہتے؟ آزادی! آزادی کا مطلب کیا لااِلٰہ الا اللہ
یہ آزادی اللہ کی وحدانیت کے عظیم نعرے لااِلٰہ الا اللہُ سے جڑی ہے، جو ظلم کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے کی عظیم طاقت رکھتا ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد اسی کلمے کی روح سے جڑی ہے، اور یہی ان کی فتح کی نوید ہے۔