کشمیر کی تاریخی خودمختاری اور جدوجہد آزادی

1254 میں کشمیریوں نے منگولوں کے خلاف بغاوت کر دی، جو منگولوں نے کچل دی

تیرھویں صدی عیسوی میں مسلمان تاجر، سوداگر اور مبلغین کشمیر میں وارد ہوئے

چودھویں صدی عیسوی میں مسلم فاتحین کشمیر میں داخل ہو گئی

سلطان شہاب الدین نے اپنی فتوحات سے کشمیر کو ایک طاقتور سلطنت کی شکل دے دی

سلطان زین العابدین نے ملک بھر میں صنعت و حرفت کو فروغ دیا اور مذہبی آزادی اور رواداری کی تعلیمات کو عام کیا

1846 میں انگریزوں نے یہ خطہ ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کو 75 لاکھ نانک شاہی سکوں میں فروخت کر ڈالا

78سال ہونے کو آئے ہیں اور حق خود ارادیت کا مقدمہ اقوام متحدہ میں لٹکا ہوا ہے

شہزاد منیر احمد

خطہ کشمیر کی منفرد اور مکمل خودمختار ریاست کی حیثیت، شکل و صورت اور جغرافیہ کی شہادت تاریخ کے اوراق میں زندہ امانت کے روپ میں موجود ہے۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جو صدیوں سے آباد اور قائم ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بلند و بالااور خوبصورت پہاڑوں میں گھرے ہوئے اس خطۂ زمین پر مقامی باشندوں کی اپنی اپنی علاقائی حکومتیں تھیں، جو بعد میں ایک ہی مرکزی حکومت کی صورت اختیار کر گئیں۔ ریاست کشمیر اپنی سیاسی شناخت میں اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ وہ پہاڑوں سے نکل کر پنجاب اور سندھ تک اپنی حیثیت منوانے لگی تھی۔ جب منگولوں کی عالم گیر سفاکیت اور یلغاریں ریاستوں کو روندتی اور عالمی امن کو پامال کرتی بڑھتی چلی جا رہی تھیں، تو منگولوں نے اس خوبصورت خطے کا بھی رخ کیا۔1235 میں وہ بارہ مولاسے ریاست کشمیر میں داخل ہو گئے اور ایک عرصے تک انہوں نے وہاں اپنا انتظامی گورنر مقرر کر کے حکمرانی کی۔
1241 میں منگولوں نے سندھ پر حملہ کیا اور لاہور کا محاصرہ کر لیا۔1251 میں منگ کے خان نے اپنے جرنیل بدھ لیڈر اتوچی کو کشمیر کا گورنر نامزد کیا، تو سری نگر کے بادشاہ نے اتوچی کو قتل کر دیا (طاقت اور فیصلہ سازی میں شراکت برداشت نہیں ہوا کرتی)۔ سالی نامی منگول جرنیل نے سری نگر کے بادشاہ کو قتل کر دیا اور اس قضیے کو ختم کر ڈالا۔ پھر کئی سالوں تک خطہ کشمیر منگولوں کے تابع رہا۔ 1254 میں کشمیریوں نے منگولوں کے خلاف بغاوت کر دی، جو منگولوں نے کچل دی۔ ریاست کشمیر میں منگولوں کی حکومت ہندو راج کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ حسن جمال رہتا ہے ہوس پرستوں کے نشانے پر اور حسن وطن و جغرافیہ توپ و تفنگ کے تابع۔ تاریخی اعتبار سے تیرھویں صدی عیسوی میں مسلمان تاجر، سوداگر اور مبلغین کشمیر میں وارد ہوئے۔ وہ کامیاب غیر سرکاری سفیر بھی ثابت ہوئے۔ چودھویں صدی عیسوی میں مسلم فاتحین کشمیر میں داخل ہو گئے۔
جب دین اسلام پھیلا، تو نور ہدایت کی روشن کرنوں نے کشمیر کے بے دین علاقے کو بھی منور کر دیا۔ لوگ جوق در جوق تعلیمات قرآن اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیضیاب ہوتے گئے۔ خطے میں اسلام کی جڑیں عوام میں گہری ہو چکی تھیں۔ شاہ میری خاندان کا دور کشمیر کے امن و استحکام کا زمانہ تھا۔ سلطان شہاب الدین نے اپنی فتوحات سے کشمیر کو ایک طاقتور سلطنت کی شکل دے دی۔ اسی خاندان کے سلطان زین العابدین نے ملک بھر میں صنعت و حرفت کو فروغ دیا اور مذہبی آزادی اور رواداری کی تعلیمات کو عام کیا۔ سلطان نے ملک سے جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع کر دیا۔1587 کے بعد مغل بادشاہ اکبر اور دیگر مغل حکمرانوں نے کشمیر کے قدرتی حسن کے مطابق یہاں باغات لگوائے اور کشمیر کو جنت نظیر بنا دیا۔
سولھویں اور سترھویں صدی میں برصغیر دنیا بھر کے ممالک میں ہمہ گیر پیداواری صلاحیت کے حوالے سے امیر ترین خطہ تھا۔ دنیا بھر کے سوداگروں نے ہندوستان سے تجارتی روابط بڑھانا چاہے، مگر کامیابی صرف برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کو ملی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک معمولی کلرک کلائیو (بعد میں لارڈ کلائیو بنا) نے اپنی سازشی چالوں، رشوت، دھونس، دھاندلی، لالچ اور طوائفوں کے تعاون سے بنگال کے ٹیپو سلطان کو میر جعفر و صادق غداروں کی مدد سے شکست دے کر ہندوستان میں بڑی تیزی سے حکومتی اداروں پر قابض ہو گیا۔ 1857 میں بغاوت ہوئی، تو برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ حکومت برطانیہ نے اقتدار سنبھالا۔ ہندوستان کے چالاک ہندوؤں نے 1857 کی بغاوت کا سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈال کر خود حکومت برطانیہ کے حمایتی بن گئے۔
1752 میں مغلوں کے زوال کے بعد افغان حکمرانوں اور گورنروں کے67 سالہ ظالمانہ نظام حکومت اور بعد ازاں سکھا شاہی کے مذہبی تعصب اور سیاسی استبداد نے کشمیریوں کو پامال کر دیا۔ ایران کے حکمران نادر شاہ افشار نے دہلی پر حملہ کر کے اس کو تاراج کیا اور واپسی پر کشمیر کو راجہ رنجیت سنگھ کو اس کی خدمات کے عوض بطور عطیہ دے دیا۔ 1820 میں ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کو جموں کا علاقہ بطور جاگیر بخش دیا گیا۔ اس طرح کی متعصبانہ اور آمرانہ شخصی نظام حکمرانی میں کشمیر میں اسلام کے پھیلاؤ کو دھچکا پہنچا۔
1846 میں انگریزوں نے یہ خطہ ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کو 75 لاکھ نانک شاہی سکوں میں فروخت کر ڈالا۔ جتنے بیرونی ممالک کے حملہ آور غاصب حکمران اپنی کشور کشائی کی خاطر ہندوستان کو فتح کر کے مسلط ہوئے، انہوں نے ہندوستان کے عوام کو غلام، اس کے وسائل اور مال و دولت کو مال غنیمت سمجھ کر ہی استعمال کیا۔ اس کی زمینوں اور وسائل کو اپنے من پسند لوگوں کو رشوت، انعام، تحفہ، سوغات اور بخشیش کے طور پر بانٹا۔ انگریزوں نے اسے 75 لاکھ نانک شاہی سکوں ہی میں بیچ کر شہرت پائی۔

ریاست کشمیر اور حق خودارادیت

ہندوستان پر برطانوی غاصبانہ قبضے سے آزاد ہونے کی جدوجہد آزادی، ہندوستان میں موجود دونوں بڑی قومیں، ہندو اور مسلمان اپنی اپنی بساط کے مطابق جاری رکھے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کی سیاسی جماعت، آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت محمد علی جناح کر رہے تھے۔ جب کہ آل انڈیا کانگریس کی نمائندگی موہن داس کرم چند گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو کرتے تھے۔ برسوں کی جدوجہد اور طرح طرح کے مصائب و مشکلات سے گزر کر آخر کار ہندوستان کو آزادی دینے کی پیش کش کر دی گئی۔ دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ اپنی شکست کو بھانپتے ہوئے آزادی طلب جماعتوں سے اس معاہدے پر پہنچا کہ جنگ عظیم دوم ختم ہونے پر ہندوستان کو آزادی دے دی جائے گی۔ جنگ عظیم دوم 1945 میں ختم ہو گئی، تو سب سے پہلے برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کے وزیر اعظم چرچل نے فیصلہ کیا کہ 3 جون 1948 کو ہندوستان اور پاکستان کو آزادی دے دی جائے گی۔ ساتھ ہی ہندوستان کی پرنسلی اسٹیٹس (خودمختار ریاستوں) کو بھی یہ حق ہو گا کہ وہ اپنی مرضی سے دونوں نئی آزاد ریاستوں، ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکیں گی۔ بعد میں لیبر پارٹی کی حکومت نے وائسرائے ہند لارڈ ویول کو واپس لندن بلا لیا اور ان کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو نیا وائسرائے ہند مقرر کر دیا، جس نے ہندوستان کی تقسیم کا اپنا فارمولہ اور تاریخ مقرر کی۔ ہندوستان کی آزادی کا اعلان برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ رچرڈ ایٹلی نے مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا تھا۔
برطانوی حکومت نے 3 جون 1947 کو ایک منصوبہ پیش کیا، جس میں درج ذیل اصول شامل تھے: ہندوستان کی تقسیم کا اصول برطانوی حکومت نے تسلیم کر لیا۔ دونوں ممالک کو خودمختاری اور خود ارادیت دی جائے گی۔ دونوں ممالک اپنا آئین خود بنا سکتے ہیں۔ نیم و خودمختار ریاستوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ یا تو ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہو سکیں، بغیر کسی آزاد رہنے کے اختیار کے، جو کہ دو اہم عوامل پر مبنی تھا: جغرافیائی قربت اور عوام کی خواہش۔ آزادی کے اس اعلان میںذرا(جغرافیائی مطابقت) پر غور کر لینے سے خودمختار کا سارا بھرم کھل جاتا ہے، جو اس لفظ کی قباحتوں اور پیچیدگیوں میں کشمیریوں کی قسمت کو بھنور کی طرح لپیٹ دیا گیا ہے۔ یہ جغرافیائی مطابقت وہ مطابقت ہے جو برطانیہ کو منظور تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 78سال ہونے کو آئے ہیں (آغاز 1948 سے) اور حق خود ارادیت کا مقدمہ اقوام متحدہ میں لٹکا ہوا ہے۔

کشمیر کو حق خودارادیت کیوں نہیں دیا جاتا

عدل و انصاف، قانون اور اخلاق کا تقاضا ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت کی خاطر جانیں قربان کرنے اور ہندوستانی بربریت کا شکار ہونے کی بجائے ان کے مقدمے کا فیصلہ جلد از جلد کیا جائے۔ ایسا مگر ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ کیونکہ 1947 میں کشمیر کی Tragedy (سانحہ) کا اصل کردار تب کے ہندوستان میں گورنر جنرل تھے، جو لارڈ ماؤنٹ بیٹن تھے۔ مشہور برطانوی سوانح نگار Philip Kyle Deglar (فلپ کیلے ڈیگلر) اپنی کتاب’’ Mountbatten‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اگر ماؤنٹ بیٹن نے اپنے وزیر اعظم کے ارادے کی گہرائی اور جذبے کو سمجھ لیا ہوتا، تو وہ معاملات کے ساتھ مختلف طریقے سے پیش آتا۔ جب کہ صورتحال یہ تھی کہ اس کے ہتھکنڈوں میں حکومت ہند کے ان عناصر کو لامحدود امداد پہنچانا مقصود تھا، جو یہ چاہتے تھے کہ آنے والے برسوں میں کشمیر کو اپنے پاس ہی رکھا جائے۔ ماؤنٹ بیٹن نے زور دیا تھا کہ ہندوستان کی فوجی امداد سے پہلے کشمیر کو ہندوستان سے الحاق کر لینا چاہیے۔ چنانچہ اس نے وی پی مینن کو مہاراجا کے نام یہ الٹی میٹم دے کر واپس بھیجا کہ الحاق کرو اور ریسکیو کی کارروائیاں چند گھنٹوں میں ہوں گی۔ ہچکچاہٹ کی صورت میں سب کچھ ضائع ہو جائے گا۔

وی پی مینن کون تھا

وی پی مینن کا نام ویپلا پنگونی مینن تھا۔ وہ انڈین سول سرونٹ تھا۔ وہ ہندوستان میں تین برطانوی وائسراوں کے ساتھ بطور سیکرٹری اور سیاسی ایڈوائزر کام کر چکا تھا۔ مذکورہ بالاآزادی کا ڈرافٹ اسی نے تیار کیا تھا، جس میں اس نے چانکیہ فلسفہ سیاست سے اخذ کردہ شریر و غلیظ الفاظ’’ Dominion‘‘ اور’’Geographical contiguity‘‘ شامل کیے تھے۔ وی پی مینن اس وقت پٹیل (جو کہ ہندوستان میں نہرو عبوری حکومت میں نائب وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور وزارت اطلاعات کا بھی منسٹر تھا) کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بد دیانتی پر مبنی مذکورہ جلد بازی پر ہندوستان میں کینیڈین سفیر ایسکارٹ ریڈ نے بھی یہ کہا کہ یہ سمجھنا بڑا مشکل ہے کہ ماؤنٹ بیٹن نے اس فوری الحاق کرنے پر کیوں ضد کی، جب کہ ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی یہ اس کا کام تھا۔ مصنف فلپ ڈیگلر کا کہنا ہے کہ وی پی مینن کو خوف زدہ مہاراجا کے دستخط لینے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ اس پلاننگ کا آغاز 25 اکتوبر 1947 کو ہوا۔ دوسرے دن گرین سگنل دے دیا گیا۔ مینن 26 اکتوبر کی شام تک واپس دہلی پہنچا، اور حکومت ہند کی الحاق منظور کرنے کی رسمی کارروائی بھی پھرتی سے انجام پائی۔ جب ایک بار مداخلت کا فیصلہ ہو گیا، ماؤنٹ بیٹن اس کو موثر بنانے کے لیے ذاتی حد تک ملوث ہو گیا۔ اب اس نے گورنر جنرل کا اپنا پیرہن اتار دیا اور سپریم کمانڈر کا جامہ پہن لیا۔ 27 اکتوبر 1947 کو صبح سویرے ہندوستانی فوجیں فضا میں تھیں۔ چند گھنٹوں میں سری نگر ائیر پورٹ پر قبضہ ہو گیا۔ بے شک یہ کارروائی اس قدر خوبی سے انجام پائی کہ مشاہدین یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے کہ ایسا کام آخری لمحے منظم نہیں کیا جا سکتا۔ یقین ہے کہ یہ منصوبہ بہت پہلے تیار کیا جا چکا تھا۔ مصنف فلپ ڈیگلر، برطانوی ائیر مارشل آرتھر کوننگھم (Arthur Coningham) کی ڈائری کا حوالہ دیتے لکھتے ہیں کہ پاکستان کے پہلے کمانڈر ان چیف جنرل فرینک مسروے نے راولپنڈی سے دہلی کے دو روزہ دورے کے درمیان اس بات کی تصدیق کرتے اپنی حیرت کا اظہار کیا کہ ماؤنٹ بیٹن دہلی سے کشمیر میں ملٹری آپریشن کی ڈائریکشن دے رہا تھا۔ پاکستانی ذرائع کا بھی دعویٰ ہے کہ ماؤنٹ بیٹن کو سو سے زائد جہازوں پر فوجوں اور اسلحہ بارود چڑھاتے دیکھا گیا۔

تحریک خود ارادیت کشمیر کی تاریخ کو بغور پڑھا جائے، تو حقیقت نمایاں لفظوں میں سامنے آتی ہے کہ:اگر وائسرائے لارڈ ویول اور وزیر اعظم چرچل کے تقسیم ہندوستان پر عمل ہوتا، تو دونوں ممالک سے آبادی کے ہجرتی عمل میں قتل و غارتگری بہت کم ہوتی۔اگر پہلے UNCIP کے چیئرمین، یوگوسلاویہ کے قانون دان جوزف کاربیل کا تجویز کردہ فارمولے پر عمل ہو جاتا، تو کشمیر کا یہ مسئلہ کب کا بہترین طریقے سے اچھے انجام کو پہنچتا۔اگر سر اوون ڈکسن نے پوری ریاست کو چھوڑ کر صرف وادی کشمیر میں رائے شماری کرانے کی تجویز پیش کی تھی۔ اگر اسے ہی ہندوستان تسلیم کر لیتا، تو معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو جاتا۔چونکہ مذکورہ بالاساری تجاویز پاکستان نے تو خوش دلی اور سنجیدگی سے مانیں، مگر ہندوستان ’’میں نہ مانوں‘‘ پر قائم رہا۔ اس کی وجہ صرف برطانوی حکومت اور دیگر پاکستان مخالف قوتوں کی پشت پناہی رہی ہے۔کشمیری تحریک حق خود ارادیت کی قیادت سے مجھے اتنا ضرور عرض کرنا ہے کہ اپنی تحریک کی شب و روز جدوجہد اور بے شمار قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دینا۔ باوجود اس کے کہ ابھی تک کامیابی نصیب نہیں ہوئی، ہمت اور حوصلہ نہ ہارنا اور نہ مایوس ہونا۔ اس پہلو پر انتہائی صدق دل اور غیر جانبداری سے جائزہ لیں کہ تحریک کے کمزور پہلو کیا کیا ہیں اور ان کا موثر علاج کیا ہے۔
یہ یاد رکھیں کہ دنیا طاقتوروں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے، بے وسیلہ جماعت کے ساتھ نہیں۔ تحریک حق خود ارادیت میں کامیابی کے سارے عناصر موجود ہیں۔ اگر ریاست کشمیر کسی دوسری حریف ریاست سے جنگ لڑ رہی ہوتی، تو نتیجہ اور ہوتا۔ یہ تو کشمیری عوام پر انہی کی طاقتور حکومت جبر و ستم سے انہیں غلامی و محکومی کی زندگی قبول کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ ساتھ بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمان ریاستوں میں نہ وہ قوت عمل موجود ہے اور نہ ہی وہ عزم و حوصلہ جو کسی بھی انقلاب کے لیے مددگار ثابت ہو سکے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، جیسے یہود و نصاریٰ آپس میں دوست ہیں۔
جو لوگ اللہ کے احکامات اور تعلیمات رسول کی پرواہ نہیں کرتے اور یہود و نصاریٰ کو دوست بنا رہے ہیں، ان سے مدد و تعاون کی امید نہ رکھیں۔ اور سب سے بڑی مؤدبانہ گزارش اور اپیل ہے کہ، جیسا تیسا بھی ہو، مقبوضہ کشمیر کی قیادت کو قائل کر کے اپنے ساتھ ضرور ملائیں اور آگے بڑھیں۔ اللہ پر توکل کریں، اپنی جدوجہد پر امید اور یقین کی تعبیر پانے پر ایمان رکھیں۔ہم کشمیری یقیناً حق و باطل کی جنگ لڑ رہے ہیں، اس لیے اللہ کی ساری نصرتیں ہمارے ساتھ ہیں۔ نصر من اللہ و فتح قریب۔ انشاء اللہ۔

***

جناب شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں