کمانڈرحیدر علی شہیدؒ

غازی اویس

مقبوضہ جموں و کشمیر کے بہادر جانباز اور حریت کے متوالے گزشتہ 76 برس سے آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں اِن 76 برسوں کے دوران لاکھوں کشمیریوں نے بھارتی استبداد اور سامراجیت کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے ، بھارتی فوج پولیس اور ہندؤ انتہاپسندوں نے اِس دوران ہزاروں گھروں کو جلا دیا ، ہزاروں خواتین کی آبروریزی کی گئی ، بے گناہ عورتوں ، بچوں بوڑھوں اور نوجوانوں کو شہید کردیا گیا ، ہنستی بستی ریاست جموں و کشمیر کو راکھ اور ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ، کشمیری نوجوان مسلسل تحریک آزادی کی شمع جلاے ہوئے ہیں۔ اہل جموں و کشمیر کی چار نسلیں قربان ہوچکی ہیں۔کسی کا قول ہے کہ جو لوگ اپنے اسلاف کے کارناموں کو بھول جاتے ہیں وہ زندگی میں کامیابیوں سے ہم کنار نہیں ہوسکتے۔ آج میں بحیثیت شاگرد ایک ایسے نڈر ، دلیر جماعت اسلامی کے معروف رکن ، صف اوّل کے مجاہد کمانڈر کا تذکرہ کرنے جا رہا ہوں ، جو بھارتی سنگینوں کے سائے تلے بھی ثابت قدم رہے۔ جن کی لازوال قربانی نے تحریک آزادی کو ایک نئی جلا بخشی۔ وہ ہیں ضلع کشتواڑ صوبہ جموں کے نامور کمانڈر ماسٹر مشتاق احمد گلکار عرف حیدر علی شہیدؒ۔۔۔ماسٹر غلام نبی گندنہ رح، کمانڈر مشتاق احمد گلکار کا واقعہ شہادت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ تہاڑ جیل میں کئی برس تک اُن پر وحشیانہ تشدّد کیا گیا ، مقصد یہ تھا کہ وہ بھارتی ایجنسیوں کو تنظیم کے راز بتا دیں ، قابض بھارتی انٹیلی جنس اہلکار تنظیم اور تنظیمی امور کے حوالے سے انٹروگیشن کرتے رہے۔خوفناک تشدّد کی وجہ سے وہ سخت بیمار ہوئے ، ظالموں نے کوئی طبعی سہولت بھی فراہم نہیں کی۔ یہ مرد مجاہد ظالموں کے مظالم برداشت کرتا رہا ، لیکن اُنہوں نے کبھی اپنی زبان نہیں کھولی ، مسلسل قید تنہائی میں رکھا گیا یہاں تک کہ وہ جسمانی طور پر انتہائی لاغر ہوگئے ، شہید کے لواحقین کے مطابق انہیں آخرکار زہریلا انجکشن دےکر موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا ، اہل خانہ سے ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر زبردستی دستخط کروائے گئے جس میں شہید کی موت کو طبعی قرار دیا گیا ، حالانکہ یہ ایک سفید جھوٹ تھا جس میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ قابض فورسز انہیں جان سے مارنا چاہتے تھے کیونکہ وہ شہید موصوف سے سخت نفرت کرتے تھے کیونکہ اُن کو جھکانے ، بکانے کیلئے ہر طرح کا ہتھکنڈا استعمال کیا تھا۔ لیکن حزب المجاھدین کا یہ مرد مجاہد ثابت قدم رہا۔ شہید ماسٹر حیدر علی کشتواڑیؒ جیسے مرد مجاہد کو قوم ہمیشہ یاد رکھے گی اور شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اُن کے مشن کو زندہ رکھا جائے۔اُنہوں نے جس مقصد کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں اُس مشن و مقصد کو تاحصولِ مقصد زندہ رکھا جانا چاہئے۔سنت نبویؐ سے مزین روشن اور مسکراتا چہرہ ، عقابی نگاہ ، کشادہ پیشانی اور بلند کردارمشتاق احمد گلکار عرف شہید کمانڈر حیدر علی بچپن سے جوانی اور جوانی سے شہادت تک اپنے قلم خطابات اور عمل سے جہاد اور شہادت کے جذبے عام کرتے رہے اور جب منزلِ شہادت سے ہمکنار ہوئے تو اُس وقت بھی ہزاروں دلوں میں شہادت کی تڑپ پیدا کرگئے۔ یہ غالباً 1987ء کی بات ہے جب ضلع ڈوڈہ میں اسلامی تحریک طلبہ کا صوبائی اجتماع ہونے جارہا تھا۔کشتواڑ سے کئی نوجوانوں نے اِس میں شرکت کی حامی بھرلی۔ میں قائدین جماعت کے پاس گیا اُن سے کہا کہ آنے جانے کا خرچہ کون دے گا تو ماسٹر مشتاق صاحب اُٹھے اُنہوں نے کہا کہ میں ادا کروں گا۔ ماسٹر مشتاق احمد گلکار صاحب نے مجھے کہا کہ میں آپ کو ایک تقریر لکھ کر دیتا ہوں وہ ڈوڈہ کے اجتماع میں سنانی ہے۔ ایک بڑے مجمعے میں میری یہ پہلی تقریر تھی جسم اور ہاتھ کانپ رہے تھے کہ میں کس طرح زعمائے جماعت کے سامنے بیان کروں۔ ہم نے کشتواڑ سے ڈوڈہ کی طرف رختِ سفر باندھا۔ میرے ساتھ عمار عامر بھائی کے علاوہ شہید ابوبکر اور دیگر نوجوان بھی تھے۔ ڈوڈہ پہنچ کر شہید عبدالرشید اصلاحی صاحب ، داؤد راہی کے بڑے بھائی شہید ماسٹر محمد اقبال صاحب ، شہید کمانڈر جاوید قریشی صاحبؒ اور شہید طاہر فریدیؒ نے ہمارا پُرجوش استقبال کیا۔ اجتماع کی کارروائی شروع ہوئی۔ اجتماع کی صدارت اسلامی تحریک طلبہ جموں کشمیر کے ناظم اعلیٰ عبدالحمید فیاض صاحب کر رہے تھے۔بزرگوں اور نوجوانوں نے خطابات کئے۔ جب میری باری آئی تو میں نے اپنے بزرگوں سے کہا میں دیکھ کر تقریر کروں گا کمانڈر حیدر صاحب نے کہا کہ جس طرح بھی ممکن ہو تقریر کرنی ہے۔ اجتماع ختم ہونے کے بعد واپس کشتواڑ پہنچے۔ کشتواڑ میں ہم نے اسلامی تحریک طلبہ کو نوجوانوں میں متعارف کرایا۔ اُن کا منشور اور نصب العین بتایا۔چند ماہ ہی گزرے تھے کہ جموں و کشمیر میں انتخابات منعقد ہوئے۔ مسلم متحدہ محاذ (MUF) نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ بھارت نے بدترین دھاندلی کی اور بزور طاقت انتخابی نتائج تبدیل کرکے من پسند حکومت بنائی تو نوجوانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ خفیہ طور جموں و کشمیر کے طول و عرض سے ہزاروں نوجوانوں نے بیس کیمپ کی راہ لی۔ جہادی قافلہ دن بدن بڑھتا گیا۔۔۔ جموں صوبہ سے جو پہلا قافلہ بیس کیمپ پہنچا اُس میں حیدر علی شہید شامل تھے موصوف تربیت پا کر واپس وادی پہنچے تو میری اور عمار عامر بھائی کی اُن سے ملاقات ”گڈول“ اسلام آباد کی بستی میں ہوئی۔ شہید موصوف کا خوب صورت مسکراتا ہوا پر عزم چہرہ ، میری توجہ کا مرکز بن گیا۔ دو دن ضلع ڈوڈہ اور کشتواڑ کے حالات کے متعلق گفتگو ہوتی رہی پھر میں نے اور عمارعامر بھائی نے کہا ہمارا بیس کیمپ جانے کا پروگرام ہے۔۔۔ بڑے خوش ہوئے، ہمارا حوصلہ اور جذبہ دیکھ کر خود بہ نفس نفیس اسلام آباد پہنچایا۔ ہم آرونی پہنچے تو یہاں ڈوڈہ کا ایک اور قافلہ پہنچ چکا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد ہم سوپور پہنچے۔ یہاں سے ہم نے دس دن بعد بیس کیمپ کی جانب سفر شروع کیا۔ بیس کیمپ پہنچ کر عسکری تربیت حاصل کی۔ تربیت پانے کے بعد میں واپس کشتواڑ پہنچا۔ ایک مہینے کے بعد علی عمران بھی پہنچے۔ پھر کشتواڑ میں جہادی یونٹ کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ شہید کمانڈر حیدر علی صاحب نے میرے مشورے سے علی عمران کو تحصیل کمانڈر مقّرر کیا۔ ضلع ڈوڈہ کا شاید ہی کوئی مجاہد یا نوجوان ہو ، جو شہید حیدر علیؒ سے واقف نہ ہو۔ بالخصوص اسلامی تحریک طلبہ کے نوجوان یا جماعت اسلامی کے ارکان تو شہید حیدر علیؒ کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔۔۔1989ء میں سرکاری ملازمت کو خیر باد کہہ کر مجاہدین کی صف میں شامل ہو کر اپنے پانچ ساتھیوں کے ہمراہ بیس کیمپ جا پہنچے۔ سب تحریک اسلامی کے سرگرم کارکن تھے۔ چار کا تعلق قصبہ کشتواڑ اور دو کا تعلق قصبہ ڈوڈہ سے تھا۔شہید مشتاق احمد گلکار محلہ جامع مسجد کشتواڑ میں پیدا ہوئے اُن کے والد محترم کا نام غلام محمد گلکار ہے۔ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ فریدیہ ہائی سکول سے حاصل کی اُس کے بعد ہائیر سکینڈری سکول کشتواڑ سے بارھویں جماعت پاس کی۔ ڈگری کالج بھدرواہ میں دورانِ تعلیم اُنہیں تحریک اسلامی کے لٹریچر کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا جس سے ان کے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ اپنے گھر والوں اور دوست احباب کو تحریک اسلامی کی طرف راغب کیا۔ الحمد للہ اُن کی کاوشوں سے بہت سارے نوجوان جماعت اسلامی کے رفیق بن گئے۔۔ آپ کا کردار، اخلاق اور جوش و جذبہ مثالی تھا۔ آپ کی ولولہ انگیز تقاریر سے جامع مسجد کشتواڑ کے سامعین تحریک اسلامی کی طرف کھینچتے چلے گئے۔ آپ بھارت نواز پارٹیوں نیشنل کانفرنس، کانگریس، بی جے پی کو للکارتے! تم ظالم اور جابر ہو ، تم نے 1947ء اور 1965ء کے شہیدوں کے خون کے ساتھ سودا کیا ہے جبکہ تم بھی جموں و کشمیر کے باسی ہو تم سب کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانی تھی لیکن تم چند ٹکوں کے عوض بکے ہوئے ہو، شہید ماسٹر حیدر علی جماعت اسلامی کا کوئی پروگرام منعقد کرتے تو آپ کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایاجاتا۔۔۔ وجہ صرف یہ تھی کہ آپ جوانوں کو درس حریت دیتے تھے۔ آپ کی حق گوئی و بیباکی بھارت کے زر خرید ایجنٹوں کو پسند نہیں آتی بلکہ ناگوار گزرتی تھی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ محکمہ تعلیم میں بحیثیت استاد مقرر ہوئے۔ ملازمت کے دوران بھی آپ مسلم اور غیر مسلم طلبہ کو دین اسلام کی دعوت دیتے۔ تحریکِ آزادی میں شمولیت سے قبل آپ کو کئی بار دعوتی سرگرمیوں کی وجہ سے نیشنل کانفرنس حکومت نے گرفتار کروایا مگر آپ کے پایہ استقلال میں ذرا بھر لغزش نہ آئی۔ جماعت اسلامی کے صوبائی، ضلعی یا ریاستی سطح کے اجتماعات میں آپ بھرپور رول ادا کرتے۔ آپ اپنی مصروفیات میں سرگرم تھے کہ یکایک مقبوضہ جموں و کشمیر میں 1988ء میں مسلح تحریک زیر زمین شروع ہو گئی۔ آپ ملازمت بھی کرتے رہے اور ساتھ ساتھ زیر زمین وادی کشمیر کے حریت پسندوں سے بھی رابطے میں رہے۔ پھر وہ وقت بھی آن پہنچا جب آپ ماہ نومبر 1989ء میں پانچ نوجوانوں کے ساتھ وادئ کشمیر جاپہنچے اور یہاں سے بغرض عسکری تربیت بیس کیمپ روانہ ہوئے۔ جہادی تربیت چار ماہ میں مکمل کی۔۔ افغان جہاد میں روس کے خلاف بھی لڑے ، اُس کے بعد نظم کی جانب سے حکم ملا کہ آپ صوبہ جموں میں تحریکِ آزادی کو فعال کریں۔ اِس طرح آپ چار ساتھیوں کے ہمراہ واپس وادئ کشمیر پہنچے۔۔۔ آپ نے مئی 1990ء میں صوبہ جموں کے مُختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران آپ نے جموں کے مسلم علاقوں میں مضبوط نیٹ ورک قائم کیا۔ آپ نے ضلع بھدرواہ کے لئے ڈسٹرکٹ کمانڈر احسان بھدرواہی اور ضلع ڈوڈہ کے لئے ڈسٹرکٹ کمانڈر جاوید قریشی مقرر کئے۔ جبکہ جموں کے باقی اضلاع پونچھ، راجوری، اُدھم پور اور جموں میں زیر زمین نیٹ ورک قائم کیا۔شہید حیدر علی صوبہ جموں کے دوسرے رکن جماعت ہیں جو مجاہد کمانڈر بنے، جیل کاٹی اور دورانِ قید ہی شہید بھی ہوئے۔ آپ نے پہلی کارروائی اسلام آباد کی تحصیل کوکرناگ کے وائیلو گاؤں میں سی آر پی ایف کے کیمپ پر کی اُس کاروائی میں آپ کے ساتھ شہید کمانڈر جاوید قریشی شہید کمانڈر طاہر فریدی، فردوس بھائی اور داؤد بھائی نے حصہ لیا۔ آپ نے گرینیڈوں اور راکٹ لانچروں سے حملہ کیا۔ اس کارروائی میں بھارتی فورسز کے سات اہلکار انجام کو پہنچے۔شہید موصوف جہاد کے میدان میں بھی لوگوں کو دعوت حق دیتے رہے۔ جہاد اور شہادت کی فضیلت بھی بتاتے رہتے۔ اِس طرح آپ کی کاوشوں سے سینکڑوں نوجوان راہِ جہاد میں شامل ہوئے ، کئی شہید ہوئے اور کئی گرفتار اور کئی اِس وقت بھی سرگرم عمل ہیں ۔۔۔ صوبہ جموں میں مسلح جہاد شروع کرنے کا کریڈٹ بانہال کے شہید مولوی حسین، ماسٹر شہید حیدر علیؒ اور شہید اصلاحی صاحب کو جاتا ہے۔ شہید کمانڈر فنانشل چیف حیدر علی داعی بھی تھے اور میدانِ جہاد کے شہسوار بھی۔ آپ کئی بار بھارتی افواج کے گھیرے میں بھی آئے مگر آپ اور آپ کے جانباز ساتھی بھارتی فوج کو منہ توڑ جواب دیتے اور گھیرے سے نکلنے میں اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے کامیاب ہو جاتے۔ شہید موصوف کی قیادت میں کشتواڑ ڈوڈہ، بھدرواہ اور گندو بھلیسہ میں بھارتی فوج کی گشتی پارٹیوں، کیمپوں پر آئے روز زور دار حملے ہوتے رہے۔ آپ کے صف شکن مجاہدوں نے آپ سے یہی درس سیکھا تھا کہ بھارت اور اُس کی افواج دہشت گرد اور مکاّر ہیں۔شہید حیدر علی کی خاص خوبی یہ تھی کہ آپ مجاہدین کے ساتھ کمین گاہوں میں رہتے یہاں تک کہ مجاہدین کو کھانا بنا کر دیتے، خدمت اور تیمارداری کرتے اور اخلاق سے پیش آتے کوئی بھی مجاہد تھوڑی سی غلطی کرتا فوراً اسے ٹوکتے اور سمجھاتے کہ مجاہد کا مقام کیا ہے اور ہمارا رویہ ، ہمارا کردار عام لوگوں سے نمایاں ہونا چاہیے۔ سات آٹھ سال بحثیت ڈویژنل کمانڈر ڈوڈہ تن من دھن سے کام کیا ، آپ کے کام اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے بالائی نظم نے فنانشل چیف بنایا جبکہ چیف آپریشنل کمانڈر شہید علی محمد ڈار عرف برہان الدین حجازی تھے۔ آپ یہ زمہ داری نبھا ہی رہے تھے کہ آپ گرفتار ہوئے۔

اگست 1998ء سے ماہ ستمبر 2003ء تک شہید حیدر علی مختلف انٹروگیشن سینٹروں اور جیلوں میں اذیتیں برداشت کرتے رہے۔۔۔ دشمن نے آپ سے راز اگلوانے کی بہت کوشش کی مگر آپ نے حزبُ المجاہدین کی اعلیٰ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اُس کے نیٹ ورک کو افشاء نہیں کیا بلکہ آپ نے اپنی جان اسلام کی سربلندی اور مظلوم قوم کی آزادی کی خاطر قربان کر دی۔ آپ نہ جھکے، نہ بکے، نہ بھارتی ایجنٹوں یا فوج کے بہکاوے میں آئے۔ بھارتی تعذیب خانوں اور زندانوں میں آپ پر شدید مظالم ڈھائے گئے جس سے آپ شدید بیمار ہوئے۔ علاج معالجہ کی کوئی سہولت فراہم نہ ہونے، مسلسل ذہنی اور جسمانی ٹارچر کی وجہ سے آپ ہندوستان کی بدنامِ زمانہ تہاڑ جیل میں شہادت کے مقام پر فائز ہو ئے۔ اِنّا لِلّٰلہِ وَاِناَّ اِلَیہِ رَاجِعون

۔17 ستمبر 2003ء کو آپ کے گھر والوں نے آپ کا جسد خاکی اپنے آبائی علاقے کشتواڑ پہنچایا۔ آزادی اور اسلام کے فلک شگاف نعروں کی گونج میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔ جلوس کے شرکاء سے قیم جماعت اسلامی ضلع ڈوڈہ جناب غلام نبی ناطق صاحب، جموں و کشمیر فریڈم مومنٹ کے راہنما محمد اقبال اگو صاحب، قاضی غلام نبی صاحب اور جامع مسجد کشتواڑ کے امام مولوی فاروق کچلو صاحب و دیگر زعماء کرام نے پُر جوش خطابات کئے۔ جنازے میں لگ بھگ ایک لاکھ کے جم غفیر نے شرکت کی۔ تاریخ کشتواڑ میں کبھی اتنا بڑا جنازہ نہیں دیکھا جتنا شہید موصوف کا تھا مرد و زن بچے، بوڑھے بھارتی پیراملٹری فورسز اور شیوسینا غنڈوں کے سامنے پاکستان زندہ باد، بھارت مردہ باد، بھارتی کتو واپس جاؤ، ظالمو جابرو کشمیر ہمارا چھوڑ دو کے نعرے بلندکرتے رہے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے شہید موصوف کی شہادت کی خبر کو بھر پور کوریج دی۔ اِس موقع پر کشتواڑ کے معروف راہنما جماعت اسلامی کے امیر ضلع ماسٹر غلام نبی گندنہ صاحب نے شہید موصوف کو اِن الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا!عظمت کے کوہِ گراں شہید ماسٹر مشتاق احمد گلکار صاحب کی شہادت پوری ریاست کے لئے بالعموم اور ضلع ڈوڈہ کیلئے بالخصوص ایک عظیم سانحہ ہے۔ عام رائے تھی کہ مرحوم حیدر علی شہید رواں ماہ ستمبر 2003ء کے وسط میں تہاڑ جیل سے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ رہائی پا کر وطن مولوف کو لوٹ جائیں گے۔ مگر ظالموں نے مرحوم شہید کو تہاڑ جیل دہلی سے باہر قدم رکھنے نہ دیا۔ اپنی دانست میں بڑا کارنامہ انجام دیا، مگر مرتبہ شہادت کی اُنہیں کیا خبر”یہ رتبہ ملا جس کو مل گیاہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاشہادت ہے مطلوب و مقصود مومننہ مال غنیمت نہ کشور کشائیشہادت کے ایک ہفتہ بعد شہید موصوف کی تدفین ہوئی۔ اُن کا بیٹا ارشد جمیل، بھائی انجینئر محمد اشرف صاحب اور برادرِ نسبتی ماسٹر محمد عباس دہلی پہنچے تو ظالموں نے پہلے تو شہید کمانڈر حیدر علی کی میت دینے سے انکار کر دیا پھر بڑی لیت و لعل کے بعد اِس شرط پر شہید کا لاشہ اُن کے سپرد کرنے پر راضی ہوئے کہ لواحقین اِس بات کی جھوٹی گواہی دیں کہ مرحوم طبعی موت مرے۔یہ شرط کتنی مضحکہ خیز ہے اُس کا مطالبہ خود ظالموں کے ظلم کو آشکار کرتاہے۔۔۔ شہید مشتاق احمد میرے شاگرد اور رفیق رہے ہیں اور میرے بچوں کے شفیق و کریم استاد بھی۔اوائل عمری میں ہی تحریکِ اسلامی کے گرویدہ تھے۔ بے پناہ صلاحیتوں سے قرآن کریم اور حدیث کو حفظ کرنے میں زیادہ وقت گزارتے تھے۔ تقاریر و خطابات میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ جیل میں مدتِ اسیری کے دوران قرآن حفظ کرچکے تھے اور احادیث کا ایک بڑا حصہ ازبر تھا۔ اُن کے خطوط اُن کی اچھوتی تمناؤں اور آرزوؤں کے آئینہ دار تھے۔ ضلع کشتواڑ کے ارکان مشتاق صاحب کی رہائی کا بے تابی سے انتظار کرتے رہے۔ اُن کے معمر والدین اُس کی دھڑکنوں کو اپنے سینوں کے اندر سن رہے تھے مگر اے بسا خاک شد! غم و اندوہ کے سمندر میں غوطہ زن ہیں اُن کے لواحقین نے بڑی مشکلات کے بعد جسد خاکی کو کشتواڑ پہنچایا تو سارا شہر ہی نہیں بلکہ دیہاتوں سے مرد و زن بچے بوڑھے ماتم کناں ہوئے کہ اِس قسم کا منظر کشتواڑ میں کبھی نہ دیکھا تھا نہ سنا تھا، ہر شخص ماسٹر مشتاق احمد گلکار صاحب کو بیٹا، بھائی، بابا کہہ کر رو رہا تھا۔۔۔ اُس کے علاوہ قائد حریت محترم سیّد علی شاہ گیلانی صاحب اور جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے امیر نذیر کاشانی صاحب، حزب المجاہدین کے امیر اور متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سیّد صلاح الدین صاحب، چیف آپریشنل کمانڈر غازی نصیرالدین صاحب، ڈوڈہ کے ڈویژنل کمانڈر جمشید مارکر، چناب ڈویژن کے ڈویژنل کمانڈر خطیب انصاری اور پیرپنجال ڈویژن کے ڈویژنل کمانڈر شاہ نواز نے پر زور الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا اور اِس عزم کو دہرایا کہ شہید کمانڈر حیدر علی کا چھوڑا ہوا مشن پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ اِن شا اللہ اِس وقت صوبہ جموں میں جو مجاہدین سرگرم عمل ہیں، شہید کمانڈر حیدر علی، اصلاحی صاحب اور آپ کے پیشرو شہداء کا اِس میں خاص کردار ہے۔ اس لئے کہ آپ ہی لوگوں نے اِن مجاہدین کو جہاد کے راستے پر کھڑا کیا جس میں سے اکثر ساتھی شہادت کا مقام پانے میں کامیاب ہوگئے اور بعض اپنی جہادی سرگرمیاں بفضلِ تعالیٰ جاری رکھے ہوئے ہیں۔زندگانی تھی تیری مہتاب سے تابندہ تر خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو تیرانور سے معمور یہ خالی شبستاں ہو تیرا آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزۂ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرےشہید حیدر علی کے متعلق مجاہد جنت گُل بلوچی کی یادیں۔۔۔۔۔۔۔ اسیر ساتھی غازی جنت گُل جو چند سال قبل بھارتی جیل سے سزا کاٹ کر آئے ہیں جنہوں نے بھارتی زندانوں میں کئی سال گزارے صبر و استقامت کے پہاڑ ثابت ہوئے۔ وہ بتا رہے تھے کہ کئی برسوں سے ہم بھارت اور مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی مختلف جیلوں، انٹرو گیشن سنٹروں، اذیت خانوں اور ٹارچر سیلوں میں تکالیف برداشت کرتے رہے۔ آزادی مانگنے کے جرم میں کئی بے گناہ کشمیری اور پاکستانی نوجوان آج بھی بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ اُنہیں ناقص غذا اور خصوصاََ نشہ آور دوائیں دی جاتی ہیں۔کئی ایسے نوجوان بھی تھے جن کو ہم سے جدا کرکے یا تو شہید کردیا گیا یا لاپتہ کیا گیا۔ آج تک اُن کے والدین عزیز و اقارب کو اُن کا کوئی سراغ نہیں مل پا رہا ہے۔ بہت سارے ساتھیوں کے علاوہ حزبُ المجاہدین کے ایک نامور کمانڈر شہید مشتاق احمد گلکار عرف حیدر علی کا خصوصی تذکرہ کیا۔ راقم سے کہنے لگا آپ کمانڈر ماسٹر مشتاق احمد گلکار کے رشتہ دار تو نہیں؟ وہ تہاڑ جیل میں میرے ساتھ قید تھے۔ میں نے کہا ہاں! وہ میرے استاد اور پڑوسی ہیں اور میدانِ کارزار میں اُن کے ساتھ کام کیا ہے۔ جنت گل مزید گویا ہوئے وہ جیل میں سخت بیمار ہوئے تھے کئی سال سے اُنہیں معدے کی تکلیف تھی اور بہت ہی نحیف ہوچکے تھے۔ اُنہوں نے بیماری کی حالت میں بھی ہماری ہمت بندہائی، ہمارا خاص خیال رکھتے تھے۔۔ہماری حتی المقدور ہر حوالے سے خدمت کرتے ، اُس کے ساتھ ساتھ ہماری ذہنی اور روحانی تربیت بھی کرتے رہے۔ اُنہیں علاج و معالجہ کی سہولت نہ ہونے کے برابر تھی۔ بالآخر اُنہیں زہر یلا ٹیکہ لگا کر شہید کردیا گیا۔ جب ہم نے مشتاق صاحب کی شہادت کی خبر سنی تو سارے ساتھی افسردہ اور پریشان ہوئے اِس لئے کہ اُن کا استاد بچھڑ گیا تھا جو اُن کی دینی تربیت کرتا اور اُن کے دکھ درد کا خیال رکھتا تھا۔ اُن کی شہادت سے قبل یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ اُن کی سزا پوری ہوچکی ہے اب اُن کو رہا کیا جائے گا عدالت نے بھی اُن کی رہائی کے احکامات صادر کئے تھے۔ مگر بھارتی خفیہ اداروں اور ان کی بزدل فوج نے اُنہیں ایک شیطانی منصوبے کے تحت علاج معالجے کے بہانے جیل سے باہر نکالا اور زہریلا ٹیکہ لگا کر شہید کردیا۔دارصل بھارتی درندہ صفت فوج نے اُنہیں اپنے راستے سے ہٹانے کا کئی مہینے پیشتر منصوبہ بندی کررکھی تھی۔ اُن ظالموں کو معلوم تھا کہ یہ شخص تحریکِ آزادی میں شمولیت سے قبل بھی مساجد، چوراہوں، اجتماعات اور جلسوں میں اسلام اور آزادی کی باتیں کیا کرتا تھا لہذا اُنہیں رہائی ملنے سے قبل ہی شہید کر دیا گیا۔