کمانڈر بخت زمین خان (امیرالبدرالمجاہدین)

بشارت علی بارو

عسکریت کا گراف کم ضرور ہوا ہے لیکن ختم ہونے کا دعویٰ محض پروپیگنڈا ہے

پاکستان مسئلہ کشمیر کا فریق اور وکیل ہے ۔ پاکستان کی وکالت کا حق اقوام متحدہ نے تسلیم کر رکھا ہے

ارباب اقتدار پاکستان کی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ جنت ارضی کشمیر کودشمن کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں

امیر البدر مجاہدین پاکستان جناب بخت زمین خان کا خصوصی انٹرویو

بخت زمین خان کا تعلق ضلع دیر خیبر پختونخوا سے ہے تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ واضح اور روشن ہے کہ ان کا خاندان سترھویں صدی کے اوائل میں افغانستان سے ہجرت کرکے مقبوضہ کشمیر کے لولاب علاقے میں جاگزیں ہوا ۔پھر انیسویں صدی میں خاندان کا کچھ حصہ وہاں سے دیر خیبر پختونخوا منتقل ہوا ۔بخت زمین خان دیر میں پیدا ہوئے ۔تاریخ گواہ ہے اس وقت بھی اس خاندان سے تعلق رکھنے والے بہت سارے لوگ کشمیر کے مختلف علاقوں میں رہتے ہیں ۔شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ جناب بخت زمین کا سرزمین کشمیر کے ساتھ وہی پیار و محبت کا رشتہ ہے جو ایک اصلی و نسلی کشمیری کو ہونا چائیے ۔جماعت اسلامی پاکستان کے رکن رہ چکے ہیں ۔1980 میں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو تب سے اعلیٰ ترین جدوجہد میں مصروف عمل ہیں ۔ علامہ اقبال کے اس شعر کی “
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
کی عملی تفسیر ہیں ۔اس وقت ان کی عمر ستربرس کے قریب ہے لیکن عزم جواں ہے ۔دشمن کی آنکھوں میں کانٹوں کی طرح کھٹکتے ہیں ۔البدر مجاہدین کے سربراہ کی حیثیت سے جہاد کشمیر اورجہاد افغانستان میں ایک شاندار کردار ادا کرچکے ہیں۔ گزشتہ ماہ بشارت علی بارو نے ان کیساتھ ایک ملاقات میں تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے گفتگو کی ہے ۔پوری گفتگو قارئین کی نذر کرنے کا اعزاز حاصل کررہے ہیں ۔(ادارہ)

سوال :تحریک آزادی کشمیر کن حالات میں ہیں ۔۔۔۔ چل رہی ہے یانہیں؟

جواب:تحریک آزادی کشمیر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے چل رہی ہے البتہ حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ وادی کشمیر میں چلنے والی تحریک میں پہلے کی نسبت کمزوری آچکی ہے اور یہ کمزوری حکومت پاکستان کی کمزور پالیسی کی وجہ سے ہے۔تحریک آزادی کشمیرجاری رہنے کاثبوت یہ ہے کہ اس وقت بھارت کی نو لاکھ سے زائد افواج مقبوضہ جموںو کشمیر کے محدود علاقے میں موجود ہے اور آئے دن کارروائیاں بھی ہورہی ہیں ۔بھارتی افواج کے سربراہ خود اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ مجاہدین موجود ہیں ۔عسکریت کا گراف کم ضرور ہوا ہے لیکن ختم ہونے کا دعویٰ محض پروپیگنڈا ہے۔ اس طرح کا پروپیگنڈا بھارتی حکومتیں عرصہ دراز سے کرتی چلی آرہی ہیں۔بھارتی فوجی خودکشیاں کررہے ہیں ۔اشتعال ،مایوسی ،خوف اور غم وغصہ کی وجہ سے فائرنگ کرکے ایک دوسرے کوہلاک اور مجاہدین کے ہاتھوں سے بھی مررہے ہیں ۔

سوال: بھارتی حکومت اور میڈیا کادعویٰ ہے کہ عسکریت دم توڑ چکی ہے ؟

جواب: بھارتی حکومت اور میڈیا یہ پروپیگنڈا اسی وجہ سے کررہے ہیںکہ جموں وکشمیر کے عوام کو مایوس کیا جائے اور اپنی افواج اور حمایتوں کا حوصلہ بڑھائیں اور پوری دنیا کو یہ باور کرائے کہ ہم کامیاب ہوگئے ہیں۔ بھارتی میڈیا اور بھارتی حکومت بھی پروپیگنڈا کررہی ہے کہ عسکریت ختم ہوچکی ہے ہم پوچھتے ہیں کہ اگر عسکریت ختم ہوچکی ہے تو مقبوضہ وادی کشمیر اور صوبہ جموں میں اتنی بڑی تعداد میں بھارتی افواج کیا پتھروں او ردرختوں سے لڑرہی ہے ۔آج بھی وادی کشمیر میں شہادتیں ہورہی ہیں ،بھارتی فوجی مجاہدین کے ہاتھوں واصل جہنم ہورہے ہیں ،وہ آئے روزخودکشیاں کررہے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے ہی سرکاری اسلحہ سے فائرنگ کرکے ہلاک کررہے ہیں ،سوال یہ ہے کہ اگر تحریک ختم ہوچکی ہے تویہ سب کیونکر ہورہا ہے ؟

سوال: پاکستان مسئلہ کشمیر کا فریق او روکیل ہے۔آپ اس سے کس قسم کا تعاون چاہتے ہیں؟

جواب:پاکستان کوموثر طریقے سے مسئلہ کشمیر کے فریق اور وکیل کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے نائن الیون 2001 کے بعدبھارت کو موقع ملاکہ وہ کنٹرول لائن کے طویل علاقے جو کہ پہاڑی دروں،ڈھلوانوںاور ٹیکریوںپر مشتمل ہے کے اوپر باڑ بندی کرکے اپنی چیک پوسٹوں میں اضافہ کرکے مجاہدین کاراستہ روکیں۔ حکومت پاکستان نے اپنے بنیادی حق سے پیچھے ہٹ کر اس وقت امریکہ اور بھارت کو خوش کرنے کوشش کی۔ اس پالیسی نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری تحریک مزاحمت پر بڑے مضر اثرات بھی مرتب کیے ۔پاکستان مسئلہ کشمیر کا بنیادی فریق اور وکیل ہے ۔ پاکستان کی وکالت کا حق اقوام متحدہ نے تسلیم کر رکھا ہے ۔ تقسیم برصغیر کے وقت 19 جولائی 1947 ء میںمسلم کانفرنس نے سرینگر میںسردار ابراہیم خان کے گھر پر متفقہ طور پر الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کی تھی۔بھارتی ظلم وجبر کے ستائے لاکھوں کشمیری پاکستان میںمقیم ہیںاس بناء پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کوشش کرنا پاکستان پر لازم اورفرض ہے۔ ہمیں یہ بات دکھ سے کہنا پڑتی ہے کہ پاکستان کے ارباب اقتدارنے ہر دور میں کمزوری دکھائی، دوسری طرف مشرقی پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مشرقی بازو مسلمہ طور پر پاکستان کا حصہ تھا اور ہرگز متنازعہ نہ تھا لیکن ہم دیکھتے ہیںکہ بھارت نے مشرقی پاکستان میں لسانیت و صوبائیت کو ہوا دی،حالات کو خراب کیا اور آخر کار اپنی فوجیں عملی طور پر بنگلہ دیش میں داخل کرکے ایک حصے کو پاکستان سے الگ کردیا۔

سوال: ایک مجاہد قائد کی حیثیت سے آپ بھارت کو کس انداز میں دیکھ رہے ہیں ۔ کیا اس کیساتھ دوستی کرکے مسائل کا حل نہیں نکالا جاسکتا؟

بھارت پر مسلمانوں نے ایک ہزار سا ل کے قریب قریب حکومت کی ہے ۔ موجودہ بھارتی ریاست صرف 77برس پرانی ہے ۔لیکن یہ بات بھی ہم جانتے اور سمجھتے ہیں کہ بھارتی چانکیائی نظریات کا حامل برہمن طبقہ کبھی مسلمانوں کا دوست نہ تھا نہ ہے اور نہ ہوگا ۔بد قسمتی یہ ہے کہ یہی چانکیائی نظریات کا حامل ٹولہ ان 77برسوں سے بھارت پر قابض ہے ۔اس لیے اس برہمنی سماج والے بھارت سے کسی دوستی یا انسانیت کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔یہ ٹولہ ہمارے ساتھ مستقل دشمنی رکھتا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ گردانتا ہے اور وہاں اس کی سفاک ا فواج نے ظلم و تشدد کا بازار گرم کررکھا ہے ۔ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں ،بزرگوںاورخواتین کو بھارتی جیلوں میں پابند سلاسل کررکھا ہے ۔ اس عرصے میں پانچ لاکھ کے قریب لوگ شہید ہوچکے ہیں۔آئے دن شہداء کی اجتماعی قبریں دریافت ہورہی ہیں۔سینکڑوں کی تعداد میںنوجوان گمشدہ ہیں۔ہزاروں خواتین کی آبروریزی ہوچکی ہے ۔اس وقت اس ٹولے کی نولاکھ سے زائد افواج مقبوضہ جموں وکشمیر میںموجود ہے آئے دن وہاں فوجی چھائونیوں کی تعدادبڑھائی جا رہی ہے ۔ہمارے دریائوں پر ڈیم تعمیر کررہا ہے۔ مقبوضہ جموںوکشمیر پر دن بدن اپنے قبضے کو مضبوط کررہا ہے ،جموں و کشمیر کے اربوں روپے کے جنگلات کو فروخت اور نقصان پہنچا رہا ہے ۔ ان حالات میںہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی حکمرانوں کو ان سے دوستی کے بجائے بین الاقوامی فورمز پر ان کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنا چاہیے ۔ جس نے جموں و کشمیر کے عوام پر ظلم و بربریت کے ذریعے ان کے بنیادی حقوق اور آزادی کو سلب کیا ہے ۔پاکستانی سفارتخانوں کو بیرون ممالک مقبوضہ جموںو کشمیر کے اندر بھارتی مظالم سے دنیا کو آگاہ رکھنا چاہے اور اپنے بنیادی موقف پر ڈٹے رہنا چاہے ۔ کشمیری اور پاکستانی عوام کبھی بھی یہ نہیں چاہتے کہ مقبوضہ جموںو کشمیر پر بھارت کا قبضہ رہے اور پاکستانی حکومت پسپائی اختیار کر کے بھارت سے تعلقات بڑھائے ۔ ہم یہ کبھی نہیں چاہیں گے۔بالکل ہم اس دوستی کو اپنوں کیساتھ دشمنی سمجھتے ہیں۔

سوال : مقبوضہ جموںوکشمیر کو بھارت کے شکنجے سے چھڑانے کیلئے آپ کی نظر میں کیا طریقہ ہے ؟

جواب:۔ گزشتہ 77 برسوں سے کشمیر ی مسلمان دنیا کے ہر فورم پر اپنا احتجاج ریکارڈ کر ا چکے ہیں لیکن بھارت نے اپنا قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے ہم یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ لاتوںکے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ جموں و کشمیر کے حریت پسند مسلمانوں اور پاکستانی او آزاد کشمیر کے سینکڑوں نو جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے بھارت پر یہ واضح کر دیا ہے کہ ہم کسی صورت کشمیری مسلمانوں کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے ہم سمجھتے ہیں کہ جموںو کشمیر صرف اور صرف جہادکے ذریعے ہی آزاد ہو گا ۔ جو کہ گزشتہ77 برسوں سے مسلمان کر رہے ہیں اور دنیا پر اپنے عزم سے واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بھارت کیساتھ کسی صورت نہیں رہنا چاہتے۔اور وہ بار بار اس کا عملی مظاہرہ کرچکے ہیں ،جبکہ بھارتی حکمران بھی اہل کشمیر کے اس اٹل موقف سے آگاہ ہیں۔

سوال : آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت مجاہدین کے حوالے سے تذبذب کا شکار کیوں ہے ؟

جواب : ۔ آزاد جموں وکشمیر کی حکومت آزاد کشمیر کے مسلمانوں اور مجاہدین کی ترجمانی کی بجائے اپنے مفادات کی ترجمانی کر کے تحریک آزادی کیساتھ بے وفائی کر رہی ہے ۔ اس سے بانی پاکستان قائد اعظم ؒ محمد علی جناح کے فرمان کے مطابق مقبوضہ جموںو کشمیر کی آزادی کیلئے ایک بیس کیمپ کی حیثیت سے کردار ادا کرنا چائیے ،جو وہ نہیں ادا کررہی ۔

سوال: 5 اگست 2019 ء کو جو کالا قانون بھارت نے کشمیریوں پر لاگو کیا ہے آپ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

جواب:اس گھمبیر اور انسانیت سوز صورت حال پر عالمی طاقتوں اور اداروں کی جانبدارانہ اور مجرمانہ خاموشی بہت ہی تکلیف دہ اور قابل افسوس ہے۔ یہ ارباب اقتدار پاکستان کی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اقتدار کی موجودہ رسہ کشی سے ذرافراغت پاکر اس جنت ارضی کشمیر کو آخری تباہی سے بچانے کی فکر کریںجس کو آج تک شہہ رگ کہتے کہتے چلے آرہے ہیں۔کشمیر ی عوام کی نسل کشی اور زمین و جائیداد سے جابرانہ بے دخلی روکنے کے لیے بھر پور سفارتی مہم جوئی کے ذریعے عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کی فوری ضرورت ہے اس میں ذرا بھی کوتاہی خودکشی کے مترادف ہوگی۔

سوال:البدر مجاہدین کی آج کل کیا سرگرمیاں ہیں ؟

جواب:البدر مجاہدین مظلوم کشمیر ی بھائیوں کو حق خودارادیت دلانے کیلئے گزشتہ چونتیس برسوں سے جد وجہد کررہے ہیں جس کا مقصد آزادی کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بقاء او ر سالمیت کی حفاظت بھی ہے اسی مقصد کوپورا کرنے کیلئے البدر مجاہدین نے ہزاروں قربانیاں پیش کیں اور آج بھی دے رہے ہیں۔

سوال:بخت زمین صاحب کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کشمیر آزاد ہوگا؟

جواب:میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کشمیر پر ظالمانہ قبضہ زیادہ دیر برقرار نہیں رکھ سکتا۔کشمیری اب زیادہ دیر فوجی محاصرے کو بھی برداشت نہیں کریں گے۔آزادی کشمیری عوام کا مقدر ہے جسے ہر حال میں حاصل کرکے ہی رہیں گے۔ مقبوضہ جموں اورکشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے جسے دشمن نے دبوچ رکھا ہے جب تک یہ علاقہ آزاد نہیں ہوتا ہماری جد وجہد اور تحریک جاری رہے گی۔

سوال : ماہنامہ کشمیر الیوم کے نام آپ کا کوئی پیغام؟

جواب:کشمیر الیوم کے قارئین کے لیے میرا پیغام ہے کہ ہمیں اپنی جد وجہد کوجاری رکھنا چاہیے۔ ہمیں صرف ریاست جموں وکشمیر کی سیاسی و حریت پسند جماعتوں کی حمایت کرنی چاہیے اور اپنی آواز کو پُر اثر بنانے میں کردار ادا کرنا چائیے ۔ ان شاء اللہ کشمیری تارکین وطن اپنے مادر وطن کو بیرونی تسلط سے آزاد کروانے ،متحد ہونے اور فوجی انخلاء کو یقینی بنا نے میں اپنی سیاسی و سفارتی کوششوں کو جاری رکھیں گے۔ایک اصول کو ہمیشہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ آزادی دی نہیں جاتی چھین کر لی جاتی ہے۔