کم فہمی عذاب سے کم نہیں ہوتی

شہزاد منیر احمد

اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے۔ اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ کی خوبیاں نہ پڑھتی ھو۔ لیکن تم ان کا پڑھنا نہیں سمجھتے۔

(سورت بنی اسرائیل 44)

علامہ اقبال نے کیا خوب ترجمانی کرتے ہوئے کائنات اور منفرد تخلیق، حضرت انسان کی فطرت پر یہ شعر موزوں کیا ہے۔ لکھتے ہیں:-

تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں
انسان کی ہر قوت،سرگرم تقاضا ہے

انسان کے علاؤہ کسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے ” تفکر ” کا وصف اور فیصلے کرنے کا اختیار نہیں دیا۔ اس لیے ہر چیز وہی کرتی ہے جس کا اسے حکم ہے۔ جب کہ انسان کو عقل و شعور اور غور و تدبر سے تحقیق کرنے کا وصف بھی ودیعت کیا گیا ھے ”الذین یذکرون اللّٰہ قیما وقعودا و علی جنوبھم و یتفکرون فی خلق السموات و الارض ربنا ما خلقت ھذا باطلا (۔ سورت آل عمران آئیت 191)، ترجمہ ” وہ(انسان) اللّٰہ کا ذکر کرتے ہیں، کھڑیہوں، بیٹھے ہوں یا اپنی کروٹیں بدلتے ہوئے، اور آسمان و زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں تو پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے یہ سب کچھ بیکار نہیں بنایا ہے۔ ”

علم و علمیات Epestimology پر جب بھی بات ہوگی تو پرانا قول ” جتنے منہ اتنی باتیں” کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ Epestimology، پر سب سے پہلے FRIERRE JAMES E نے سترھویں صدی عیسوی میں لکھا تھا کہ کسی بات پر یقین تب تک نہ کیا جانا چاہیے جب تک خود اور خوب تحقیق نہ کر لی جائے۔ پھر ہالینڈ سے اسپینوزا بولا اور خوب بولا کہ میں سب کچھ جانتا ھوں

اس کے بعد فرانس کے ژاں پال سارترے نے یہ فیلڈ سنبھالا۔ 1964 میں نوبل انعام ملا۔ ژاں پال سارترے نے ایپسٹیمالوجی کا پلو آخری دم تک نہ چھوڑا۔ اور کہتا رہا ہے کہ کسی بات، نظریے پر تب یقین کرنا چاہیے جب اس کی حقیقت پر خود تحقیق کر لی جائے۔لوگوں کی اکثریت سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھاتی رہتی ہے جو خود فریبی ہے۔ 1986 میں ژاں پال سارترے فوت ہو گیا۔

تحقیق کے اعتبار سے افسوس مسلمانوں پر ہوتا ہے جو اپنا لازوال نظریہِ حیات، جامع تہذیب اور پر امن تمدن کو شوق جدت پسندی میں ترک کر کے تہذیب اغیار کو اپنا کر اپنی زندگی خراب کر رہے ہیں۔

تجس اور تحقیق انسانی مزاج کا حصہ ہے۔ جس نے اس پر غور کیا تو اس نے فلاح پائی۔ بعثت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کی جہالت میں لتھڑے معاشرے میں ذلتوں کا شکار ہوئے انسانوں پر اللہ کو رحم آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، خاتم النبیین کو ھدایات کے نور کا مخزن، قرآن کریم دے کر ان کی راہنمائی کے لیے انہیں مبعوث فرمایا، اور آگاہ فرما دیا کہ آج سے میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا۔ اس کے بعد نہ تو کوئی صحیفہ نازل ہو گا اور نہ کوئی نبی ہی آئے گا۔ اس لیے تم اپنے اللہ اور رسول اللہ(. محمد) کی اطاعت کرو اور فلاح پاؤ(اطیعواللہ و اطیعوالرسول)۔تاریخ عالم گواہ ہے کہ دنیائے حجاز سے وہ لوگ جو بے کس، بے بس، غلام اور غلاموں کی قابل رحم زندگی گزار رہے تھے، وہ جب فرمان الہییہ پر ایمان لائے اور اطاعتِ رسول پر قائم و دائم رہے تو انہوں نے معاشرے میں بے مثالی عروج و کمال پایا۔ تہی شکم مسلمان نان جویں کے میسر آنے پر اللہ اکبر پکارنے اور شکر اللہ کرنے والے کمزور مسلمانوں کو اللہ کل شیء قدیر رب العالمین نے دنیا میں ایک جری, لشکر ، معزز گروہ اور معتبر قوم بنا دیا۔ وہ پستیوں کی گھاٹیوں سے نکل کر شاہی محلات تک جا پہنچے دنیا میں اپنی حکمرانی کے پرچم لہراتے جدھر نکلتے کامیابی ان کا آگے بڑھ کر استقبال کرتی۔ ان کی جہالت ان کے لیے عظمت و کمال کی آخری حدوں تک لے جانے کا وسیلہ بن گئی۔ ماننے والے ہی فلاح پاتے ہیں۔ ایسے لوگ ہی یہ کہنے کے مستحق ہوتے ہیں کہ

((Ignorance is curseThe believers are winners

تاریخ شاہد ہے کہ مسلم معاشرہ یکے بعد دیگرے تب تک ترقی کی منزلیں طے کرتا چلا گیا جب تک وہ نظریہ حیات مومن (خاص ھے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی) پر کاربند رہا، کیونکہ نظریہ اسلام آفاقی نظریہِ ھے، جس میں انسانی معاشروں کی ہمہ جہت راہنمائی کے قواعد و ضوابط موجود ہیں اس لیے مسلم فلسفیوں نے معاشرتی علوم کے ہر شعبے پر توجہ دی، اس پر تحقیق کی اور ضخیم کتابیں لکھیں جن سے دنیا بھر کی ریاستوں نے، دانشوروں نے اور عوام الناس نے استفادہ کیا۔

مسلم دانشوروں نے ثابت کیا کہ، لا الہ الااللہ اور اللہ اکبر کہنے سے بندے کو حوصلہ،قوت ایمان اور صراطِ مستقیم تو ملتا ہے مگر منزل کا سفر بندوں کو اپنے پاؤں پر چل کر طے کرنا ہوتا ہے۔ یہی وہ آزمائش کا نقطئہ نظر ہے،(لیس للانسان الا ما سعی) ” جسے اللّٰہ الرحمٰن نے اپنے بندوں کے لیے قائم کر رکھا ہے، اسلامی فتوحات کے عروج کے زمانے میں علمی میدان میں کمال پانے والے مسلم دانشوروں، کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے اپنی اپنی علمی تحقیق,( نظام فلکیات، الجبرا جیومیٹری، حساب، علم طب اور سیاسیات کے علاؤہ شعر و ادب سماجیات اور روحانیات وغیرہ) پر اپنے اپنے شعبہ میں کام کر کے ناموری پائی (مثلا فارابی الکندی، ابن ماجہ، ابن اسحاق الرازی ابن سینا،ابن طفیل ابن رشد ابن خلدون ابن الخیام اور ابن عربی، کچھ دیگر فلاسفرز اور اصفیاء حضرات ) نے خوب دل جمعی سے تحقیق جاری رکھی۔یہ عروج چودھویں صدی عیسوی کے وسط تک برقرار رہا۔

پھر مسلم اکابرین کو لذت ذہن(قصے کہانیاں سننے سنانے اور خود نمائی کا شوق) اور لذت دہن (خوش خوراکی استقبالیوں، ظہرانوں، عشائیوں) کاہلی، آرام طلبی کی گرد آلود باد سموم نے اسلامی تحقیق کے پھول کو مرجھا کر اس کی رنگینی بھی چھین لی اور خوشبو بھی اور پھر، بد قسمتی سے مسلم معاشرہ تحقیقی میدان میں قحط الرجال کا شکار ہوتا چلا گیا اور سنی سنائی باتوں کو بلا تحقیق آگے پھیلاتے جانے پر ہی اکتفا کیا جانے لگا۔ ۔ جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو ہے کہ مسلم۔معاشرہ حق و حقیقت سے سرکتے سرکتے اصل مقصد و منزل سے بہت نیچے لڑھک گیا،Ignorance is curse. یعنی خوش بختی ثابت ہونے والی Ignorance اب مسلمانوں کے لیے بد بختی بن کر سامنے آگئی۔ ترک تجسس و تحقیق نے مسلمانوں کی ترقی کا پہیہ الٹا گما دیا۔

۔ بلا تحقیق و تصدیق بات کو آگے پھیلانے کے افسوس ناک رویے کا ذکر قرآن پاک، سورت النور میں درج ہے۔ جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا کا واقعہ پر اللّٰہ تعالیٰ نے لوگوں کو متنبہ کیا کہ سنی سنائی باتوں کو بلا تحقیق نہ پھیلاتے پھرو۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے

علامہ اقبال نے ایسے ناپسندیدہ رویے پر لکھا ہے۔

مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ھو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ خالق و مالک ارض و سما کی قدرت کی وسعتوں کا شمار کرنا انسانی بس میں نہیں۔۔ علمی اکائیوں (انسان، انسانی نفسیات اور معاشرتی ارتقاء، دیگر تخلیقات) پر تحقیق کرنے والے انسانوں کا علم کتنا ہی وسیع کیوں نہ ھو، بہرحال محدودات کے تابع ہوتا ہے۔۔ادھورے اور خام شعور سے اخذ کردہ۔ انسانی تصور و تخیل تھوڑی دور چل کر اپنی رائے اور راہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ مثلا:-

خالق کائنات نے تو بتایا کہ ابتدا میں زمین وآسمان ایک اکائی کی شکل میں موجود بند رکھے گئے تھے۔ نہ آسمان کا منہ کھلا تھا کہ بارش ہوتی اور نہ زمیں پر ہی کوئی روئیدگی پیدا ہوتی تھی۔ اللہنے بنی نوعِ انسان کے فائدے کے لیے دونوں کے منہ کھول دیئے۔ اوپر سے پانی کا دہانہ کھلا اور نیچے زمین کے مسام کھل گئے۔ اسی زمین میں ندی نالے دریا سمندر اور معدنیات و کانیں نکالیں۔ آسمان کو چاند ستاروں سے مزین کر کے روشن کر دیا، جن کا الگ الگ کام ہے اور جدا جدا مقام ہے۔ بحوالہ سورت الانبیاء آئیت نمبر 30.

تخلیق کائنات کے بارے مذکورہ بالا پیرے میں بیان کردہ حقیقتوں کے باوجود محققین نے ہمیں یہ بتایا کہ۔

There was a big bang.

They say that univers started with infinitely hot dense single point which inflated and stretched, first with unimaginable speed and then at more measureable rate, over the 13.7 billion years to the still expanding cosmos. billion years to the still expanding cosmos .

بگ بینگ، بڑے دھماکے سے دنیا کے وجود کو لانے والے سائنسدان ہمیں یہ بتانے سے مگر قاصر ہیں کہ وہ BANG BIGکیسے پیدا ہوگیا جب اس سے پہلے کسی چیز کا وجود ہی نہ تھا۔

From zero one gets nothing.

یہ سائنسدان محقیقین کو اپنے زیر تحقیق مضمون یا مضمون کی ذیلی شاخ کا پس منظر ضرور زیر بحث لانا چاہئیے۔ دوسرا یہ کہ:- پہلے تصور کیا جاتا تھا کہ زمین چپٹی ہے،پھر رائے بدلی، اور کہا گیا نہیں زمین گول ھے، کچھ عرصہ بعد محقیقین نے مزید اصلاح کرتے کہا کہ زمیں اپنی ہئیت میں بیضوی شکل رکھتی ہے۔۔ ہم اب اسی یقین کے ساتھ جی رہے ہیں کہ زمین بیضوی گول ہے۔

Ignorance is Blessing صرف ان لوگوں مقدر بنتی ہے جو غور و فکر کرنے کے عادی ہوں۔

دور جدید کے چند واقعات پر بات کرنا چاہوں گا۔

اسلام آباد کے ایک بڑے سوداگر جو نارووال سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے راقم کو بتایا کہ میری مفلسی میری سب سے بڑی محسن ہے۔ میں مزدوری کی تلاش میں اسلام آباد آیا تو میرے پاس نہ پیسے تھے، نہ وسیلہ نہ کوئی واقف تھا۔ آج اللہ کے فضل سے میں خوشحال ہوں اور میرے ملازمین کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ غربت اور ناقابل برداشت تنگدستی میرے لیے خود کفالت اور خوشحالی کا وسیلہ بن کر مجھے اسلام آباد لے آئی تھی۔ Ignorance is curse. Knowledge is wealth

پاکستان کے ایک بڑے بیوروکریٹ جناب عبدلکریم خالد اپنی کتاب فرد حیات میں جو لکھتے ہیں وہ انہیں کی زبانی سنیے۔

غربت اور بے بسی کا زمانہ تھا۔ زمین کی فصل ہندو بنیا اور آڑھتی اٹھا لے جاتے تھے ہمارے حصے افسوس رہ جاتا۔ مکئی باجرہ ہماری خوراک کا حصہ ہوتا۔ گندم کی روٹی کھانا ہمارے لیے بہت بڑی امارت اور عیاشی تھی زمین کا مالیہ کی ادائیگی ایک الگ مسلہ تھا۔میں نے معصومیت میں ماں سے پوچھا ہم کب غربت سے نجات پائیں گے۔ جواب ملا ” جب تم پڑھ لکھ کر بڑے افسر بنو گے” خوش بختی کے وسیلے کی نشان دہی ماں جی کی زبانی سن کر میں نے پڑھائی پر مزید توجہ اور محنت کی طرف رغبت اپنا لی۔ اور پھر اعلی تعلیم مکمل کی تو سول سروس کا امتحان پاس کر کے اسٹنٹ کمشنر بن گیا۔جناب عبدلکریم خالد صاحب پاکستان ریوینیو بورڈ کے سیکریٹری بن کے ریٹائر ہوئے تھے۔۔

امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اپنے سیکیورٹی سیکشن کو دین اسلام پر بریف Brief تیار کرنے کے لیے کہا۔ حکم کی تعمیل میں کئی صفحات پر مشتمل بریف تیار کر کے دے دیا گیا۔ صدر نے وہ طویل بریف اپنے اسپیشل ایڈوائزر جان رابرٹ گرین کو دیا اور کہا اسے ذرا مختصر کر دیں۔ رابرٹ گرین نے اب خود اسلامی لٹریچر منگوا کر پڑھا تو قرآن کریم میں درج روحانی ھدایات کے مندرجات کے مطالعہ نے اس کے دل کی دنیا بدل کر رکھ دی۔ صدر کا بریف تو مناسب تراش خراش کے بعد حسب ھدایت صدر تک پہنچا دیا گیا ۔اب مگر قرآن کریم کے مطالعہ نے رابرٹ گرین کی اندھیری دنیا میں روشن روشن انقلاب برپا کر دیا۔ اس نے اسلامی سیمینارز اور دیگر اسلامی اجتماعات میں باقاعدگی سے شرکت کرنا شروع کردی۔

رابرٹ گرین لکھتے ہیں میں نے ہارورڈ یونیورسٹی میں تین سال تک قانون پڑھا لیکن وہاں میں نے کبھی لفظ JUSTICE نہیں سنا تھا۔

رابرٹ گرین نے پھر 1981 میں دین اسلام قبول کیا اور اپنانام ” فاروق عبدلحق” رکھا. اس بے دین شخص کے لیے دین اسلام سے لا علمی Ignorance is blessing بن کر سامنے آئی۔۔۔ فاروق عبدلحق، لکھتے ہیں کہ ایک دن یہودی لیکچرار کلاس میں پڑھاتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں پر بات کرنے لگا۔ میں اسے خاموش کرانے چاہتا تھا۔ میں کہا کیا امریکی آئین میں قانون وراثت کا تذکرہ ہے۔ اس نے جواب دیا بالکل ہے۔Eight Valiums ہیں ۔ میں نے جواب دیا کہ اسلام نے اس قانون وراثت کو صرف دس سطروں میں بیان کر رکھا ہے۔ میں نے قرآن میں درج قانون وراثت والی۔سورتیں اسے پڑھوائیں تو وہ نہ صرف مان گیا بلکہ وہ مسلمان بھی ہوگیا۔ (جاری)

شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں