کیا بھٹو کو تحریک آزادی کشمیر یاد نہ تھی

شہزاد منیر احمد

پاکستان کی تاریخ میں ستمبر 1965 کی انڈو پاک جنگ بہت بڑا واقعہ تھا۔ افواج پاکستان کے ہاتھوں ہندوستان کے چارگنا سے زائد لشکر اور بے پناہ جنگی وسائل کی دستیابی کے باوجود ان کے ہر حربے اور جارحانہ عزائم کو ناکام بنانے کا معجزہ اور قابل تحسین کامیابی تھی۔۔ یہی اس جنگ کا معجزاتی پہلو اور قابلِ ذکر کشش تھی جس نے دنیا بھر کے عسکری وقائع نگاروں کو پاکستانی قومی نغمہ” اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے” اے راہ حق کے شہیدو” تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔ ” سن کر جھومنے پر مجبور کر دیا تھا ۔

6 ستمبر 1965 کو علی الصبح ہندوستانی افواج نے گجرات کے قریب گاؤں اعوان شریف اور لاہور واہگہ بارڈر پر ہندوستانی مسلح افواج نے حملہ کر کے اعلان جنگ کر دیا۔ یہ جنگی حملہ جنگی چال کے اعتبار سے مکمل (SURPRISE) تھا۔ وہ یوں کی پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اس وقت کے صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، حکومت پاکستان اور عوام کو باقاعدہ یقین دہانیاں کرواتے رہے کہ ” ہندوستان کبھی بھی بین الاقوامی سرحد عبور نہیں کرے گا” وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ایسے بیانات کو اب کیا نام دیا جائے، بے خبری، نا اہلی، دھوکا یا پھر کچھ اور۔ مذکورہ جنگی حملے کا سن کر عوام کو پہلے تو یقین ہی نہیں آیا تھا۔ حقیقت سے آنکھ چرانے سے حقائق اور شواہد نہیں مٹتے۔

راقم کی اس تحریر کا مرکزی مقصد ہی یہ ہے کہ جب کشمیر کی آزادی کی جنگ جاری تھی، کشمیری عوام پر بہانے بہانے سے ہندوستانی حکومت ظالمانہ ہتھکنڈے آزمائے جا رہی تھی۔ نوجوان بوڑھے مردوں کا پولیس اٹھا کر نامعلوم مقامات پر غائب رکھ رہی تھی کیا پاکستان کا وزیر خارجہ ہندوستان کے ان جابرانہ اغیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام سے بے خبر تھا۔

دوسری طرف مارچ 1965 سے رن آف کچھ میں بارڈرز پر سیکورٹی فورسز کے جنگی جھڑپوں میں بھی بتدریج اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ان جھڑپوں میں دونوں طرف کے جوان مارے جارہے تھے۔۔معاملہ دونوں حکومتوں کی پہنچ سے باہر نکل کر اقوام متحدہ کے مبصرین اور نمائندوں تک چلا گیا تھا۔ایسے گھمبیر اور مہلک حالات میں بھی پاکستان کا وزیر خارجہ بھی قوم کو یہ یقین دہانیاں کرواتے نہیں تھکتا تھا کہ۔ ” ہندوستان بین الاقوامی سرحد عبور نہیں کر یگا۔”

بھٹو کی ان یقین دہانیوں کے پیچھے کیا عوامل و عناصر کار فرما تھے، آج تک حقیقت سامنے نہیں لائی گئی۔ بات بدل بدل کر غیر ضروری تفصیلات میں الجھائی جاتی رہی ہے۔ پوسٹ وار رپورٹس میں بھی اس بارے کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔ ہندوستان نے جب یہ حملہ کیا تو، اس وقت لاہور چھاؤنی میں موجود فوجی اپنی صبحِ کی۔ P.T فزیکل ٹریننگ کر کے واپس بیرکس میں جا رہے تھے۔ سر تھونپی گئی اس جنگ میں پاکستانی شہریوں نے اسے ایک خود دار اور غیور قوم کی طرح لڑا اور دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ ” پاکستان” کسی اعتبار سے بھی کوئی تر نوالہ نہیں ہے بلکہ ” لوہے کے چنوں ” کی مانند ہے”

لاہور میں تعینات میجر عزیز بھٹی نے بڑی عجلت میں اپنی کمپنی کے چند جوانوں کو فوری طور پر پیشہ ورانہ مہارت سے بارڈر پر پوزیشن POSITIONED کر کے دشمن کو اپنی دفاعی تڑتڑاہٹ کی گھن گرج سے پیغام دے دیا کہ ” اب ہم آگئے ہیں، آؤ ہم تمہارا مناسب فوجی استقبال کریں گے۔”

ہندوستانی کمانڈرز کو، پانی دفاعی جارحانہ فائرنگ سے یہ احساس ہو گیا تھا کہ پاکستان کو سرپرائز دینے کے باوجود اب انہیں مزید کوئی نقصان پہنچانا ممکن نہیں رہا۔ میجر عزیز بھٹی کی شخصی جرأت، پیشہ ورانہ مہارت اور مضبوط کردار نے صرف ایک فوجی کمپنی نے ہندوستان کو بی آر بی نہر کے اس پار خوب خوب رگیدا، دھویا پھر رگیدا اور انہیں گاڑیاں اور فوجی اسلحہ بارود چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ کمپنی کمانڈر ، میجر عزیز بھٹی نے اپنے جرأت مند آفیسرز اور جوانوں کی مدد سے ناممکن کو ممکن بنا دکھایا اور خود شہید ہو گئے۔ انا للہ و ان الیہ راجعون۔ انہوں نے محب وطن سپاہی، قابل فخر کمانڈر ہونے کا اور سر زمین پاکستان کی حفاظت کی خاطر جان تک دینے کا وعدہ نبھا کر دکھا دیا۔

یاد کرتا ہے زمانہ انہیں انسانوں کو
روک لیتے ہیں جو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو

ستمبر 1965 میں ہندوستان کی پاکستان پر ہزیمت انگیز یلغار اور پاکستان کا قابلِ فخر دفاع کی ساری سرگرمیوں کی گونج میں بھی یہی سوال نمایاں رہا کہ ” بھٹو نے یہ کیوں کہا تھا کہ ہندوستان پاکستان پر حملہ آور نہیں ہوگا” کیا انہیں واقعی رن آف کچھ کے خونیں معرکے یاد نہ رہے تھے، جہاں ا یک جھڑپ میں تو ہندوستان کے ایک میجر اور ایک کرنل رینک کے آفیسر بھی قید ہوئے تھے۔ بیسیوں فوجی مارے گئے تھے۔

پاکستان کی بارڈر فورس کے کارنامے بھی انہیں یاد ہونا چاہئیں تھے جہاں ہمارے جانبازوں نے جانیں بھی دیں اور جرأت اور بہادری کی داستانیں بھی لکھوائیں، اور دلیری کے نمونے پیش کئے۔ ایک دفاعی پیش رفت کے معرکے میں پاکستان رینجرز کے ایک انسپکٹر کو جب یہ خبر ملی کہ ایک رائفل اندھرے میں ہندوستانی علاقے میں رہ گئی ہے تو وہ سارے خطرات کو مسترد کرتے ہوئے واپس گئے اور اپنی رائفل ڈھونڈ لائے تھے۔

بھٹو کیسا وزیر خارجہ تھا کہ ان سارے حالات اور واقعات کا عینی شاہد ہونے کے باوجود یہ سمجھتا اور اعلان کرتا تھا کہ ” ہندوستان پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔ ”

میری دانست میں بھٹو کا مذکورہ کردار، اس کے سیاسی پس منظر اور محتاط ترین تجزیاتی الفاظ میں ” مشکوک، ناقابلِ بھروسہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ بھٹو نے اقتدار میں آنے کی خاطر پاکستان کے آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر اسکندر مرزا کو خوشامد میں کی سیاہی میں بھگو بھگو کر یہ جملہ ” پاکستان کی تاریخ میں آپ کا نام قائد محمد علی جناح سے اوپر لکھا جائے گا” محب وطن شہریوں کو نہیں بھولا۔ الفاظ مٹ بھی جائیں، پھر بھی مگر ان کی تاثیر نہیں مٹتی۔ اقتدار میں رہنے کی خاطر تب کے صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو DADDY کہہ کر مخاطب کرنا خوف اور خوشامد کا اظہار ہی تو تھا۔ مزید یہ کہ یونین آف سوشلسٹ سوویت آف رشیا (روسیوں) کی سربراہی میں پاکستان کے صدر اور ہندوستان کے وزیراعظم کے درمیان کرایے جانے والے جنگ بندی مذاکرات میں بھی بھٹو کا کردار مشکوک نظر آیا۔مجبور ریاستی عوام نے تو بھٹو کا کچھ نہ بگاڑا، جیسے تیسے ہوا اسے بھگتا، مگر اس کا تکبر، نخوت اور غرور اللہ الرحمٰن کو پسند نہ آیا۔ اللہ نے بھٹو کو ہٹا کر اقتدار کسی اور کو سونپ دیا گیا۔

رن آف کچھ میں لڑی جانے والی جنگ کسی بلیئرڈ کی میز پر نہیں لڑی گئی تھی۔ رن آف کچھ کی لڑائی کی صورتحال کو معمولی چھیڑ چھاڑ سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بھارتی فوج کے ڈپٹی کمانڈر انچیف میجر جنرل کمارا منگلم خود وہاں موجود تھے۔بھارتی وزیر داخلہ اگلے مورچوں کا دورہ کر رہا تھا۔ ادھر بھی فیلڈ مارشل نے اپنے ڈپٹی، جنرل محمد موسیٰ کو ان حالات میں مضبوط فوجی اقدامات کرنے کو کہہ رکھا تھا۔ میجر جنرل ٹکا خان ڈویژن کمانڈر میدان میں تھے۔ نوجوان لیفٹیننٹ نادر پرویز نے صرف ایک پلاٹون کے ساتھ انڈین چوکی پر حملہ کر کے مکمل تباہ کر دی تھی اور جتنا اسلحہ اٹھا کر لا سکتے تھے اپنے ساتھ لے آئے۔رن آف کچھ کی ایسی فوجی جھڑپوں میں انڈین میجر، کرنیل سنگھ اور لیفٹینٹ شرما اور دیگر کئی فوجیوں کو قیدی بنا لیا گیا تھا پاکستان کے رینجرز اور عسکری یونٹس کے ہاتھوں بے مثال پٹائی اور میدان اپنے قابو سے باہر ہوتے ہوئے جنگی حالات کے پیش نظر ہی بھارتی وزیراعظم شاستری نے کہا تھا کہ ” اب ہم پاکستان کے خلاف اپنی پسند کے نئے محاذ جنگ کا انتخاب خود کریں گے ” مذکورہ بالا حالات کے ہوتے ہوئے بھی بھٹو کا یہ کہنا کہ ” ہندوستان پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے بین الاقوامی سرحد عبور نہیں کرے گا” کیا حیران کن امر نہ تھا۔

یہ سوال تو بھٹو کی قبر سے بھی پوچھا جاتا رہے گا کہ جب بارڈرز پر اس قدر فضا گرم ہو چکی تھی تو اس نے یہ کیوں کہا تھا کہ ہندوستان پاکستان کی بین الاقوامی سرحد عبور نہیں کرے گا۔ حالانکہ انہیں دنوں میں وہ خود کشمیریوں کی تحریک آزادی کی کوششوں میں مدد کرنے کے لیے آزاد کشمیر کے کمانڈو مجاہدین کو کشمیر بھیجوا چکے تھے۔ ان کا یہ دہرا میعار سمجھ میں نہیں آتا تھا۔

1965 کی انڈو پاک جنگ بندی کے لیے ماسکو میں ہونے والے مذاکرات میں کئی دفعہ ایسا موڑ آیا تھا کہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے مذکرات کی میز سے اٹھ جانے کا عندیہ دیا۔ جنرل بضد تھے کہ اگر مذاکرات میں صرف جنگ بندی پر بحث اور فیصلہ کرنا ہے تو یہ انہیں منظور نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر ہی اصل مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ہم تین جنگیں لڑچکے ہیں۔ اگر کشمیر کے بارے بات چیت نہیں کرنا ہے تو ہم واپس چلے جاتے ہیں۔

مگر بھٹو انہیں یہ کہہ کر ڈراتا رہا کہ اتنی بڑی عالمی طاقت کی یوں توہین کرنا سفارتی آداب کے خلاف ھوگا جس کو رشین RUSSIANS کبھی نہیں بھولیں گے۔ مبینہ طور پر تو یہ خبر بھی گردش کرتی رہی کہ بھٹو نے انڈین وزیراعظم شاستری اور وزیر خارجہ سردار سورن سنگھ سے خفیہ ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ فیلڈ مارشل کو جب یہ پتہ چلا تو نہوں نے بھٹو سے گلو خلاصی کا فیصلہ کر لیا ۔

بھٹو کی دیدہ دلیری، ڈھٹائی اور چالاکی کی اور مثال تو تب سامنے آئی جب ماسکو سے مذاکرات ٹیم واپس پاکستان لوٹی تو ہوائی اڈے پر بھٹو فوراََاخباری نمائندوں میں گئے اور ان سے جنگ بندی پر قوم کے رد عمل کا پوچھا۔ انہیں بتایا گیا کہ آپ نے میدان میں جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار دی ہے۔ بھٹو نے فوراََپینترا بدلا اور کہا۔ ” میں جنرل کا ہاتھ پکڑ پکڑ کر معاہدہ جنگ بندی پر دستخط کرنے سے انہیں منع کرتا رہا معاہدے پر دستخط نہ کریں مگر وہ نہ مانا اور معاہدے پر دستخط کر دئیے۔” یہ تھا اس ذولفقار علی بھٹو کے کردار اور خودداری کا میعار جو جنرل ایوب خان کے آگے ڈیڈی ڈیڈی کہہ کر بچھ بچھ جاتا تھا اپنی مکاری اور ناکامی کو صدر مملکت کے نام کر دیا۔

بھٹو کے شخصی کردار کا شروع سے آخر تک یہ خاصا رہا کہ پہلے معاملات کو بڑی سازشی پردہ داری سے بگاڑتے اور پھر اسے اپنے چاپلوسوں کی مدد سے سمیٹتے اور کریڈٹ لیتے تھے۔ جیسا کہ انہوں نے پہلے مشرقی کو ہندوستانی گٹھ جوڑ سے پاکستان سے الگ کروایا، بنگلہ دیش بنوایا۔ قوم اس المناک حادثے کو نہ برداشت کر رہی تھی نہ علیحدگی کو قبول کر رہی تھی۔ بھٹو نے اسلامی اخوت کے نام پر پاکستان میں اسلامی ممالک کا اجلاس بلوا کر بنگلہ دیش کو الگ خودمختار ریاست تسلیم کروا کر اس اتحاد کی جڑ ہی کاٹ ڈالی جس کی بنیاد پر پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان REUNIONنہیں تو کم از کم CONFEDERATION ہی تشکیل پا جاتی۔

زندہ بھٹو کو صرف دو آدمیوں نے خوب جانا تھا۔ ایک مغربی پاکستان کے خان عبدلولی خان نے جنہیں بھٹو نے 1971 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کہا تھا ” خان سیاست اقتدار کا نام ہے۔ آو مل کر قوم کو بیوقوف بنائیں اور اقتدار کے مزے لیں” دوسرا شخص جو بھٹو کی شخصیت کے تار تار سے واقف تھا وہ مشرقی پاکستان کا شیخ مجیب الرحمٰن تھا۔ جب شیخ مجیب الرحمٰن پر مقدمہ چل رہا تھا، تو بھٹو شیخ صاحب سے ملا اور ان کا مقدمہ لڑنے کی پیشکش کی۔

شیخ نے بڑا سا ” NO AND NEVER ” کہہ کر بھٹو کا منہ چڑایا اور واپس بھیج دیا تھا۔

مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے میری تجویز!!!

مسلہ کشمیر کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں اور معروضی حالات کا جائزہ لیں تو لگتا ہے یہ مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید بگڑ کر طوالت پکڑے گا۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ یہ تنازعہ تب تک حل نہیں ہو سکتا جب تک، کشمیری، پاکستان اور ہندوستان تینوں فریق مل بیٹھ کر کسی متفقہ فیصلے پر نہیں پہنچتے۔ تینوں فریقوں میں صرف کشمیری فریق ہے جسے نہ اپنے موقف سے ہٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہٹانا ہی چائیے، کہ وہ تو فریق مقدمہ ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کو اپنے اپنے موقف میں تھوڑی بہت لچک نہیں بلکہ خاطر خواہ تبدیلیاں لانا پڑیں گی۔

جب بھی ہندوستان اور پاکستان اس موضوع پر مذاکرات کرتے ہیں تو وہ اپنی اپنی حکومتوں کے رد عمل سے خائف ہو کر بات کرتے ہیں۔ اپنے وفد کے موقف میں ذرا سی لچک کا اشارہ ملنے پر متعلقہ۔ملک کی اپوزیشن حکومت کے لتے لینے شروع کر دیتی ہے۔اور مسئلہ۔پھر ڈھاک کے تین پات کے مترادف لٹک جاتا ہے اور پرنالہ وہیں گرے گا کے سے انجام پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے۔

تین عشروں سے زائد جنگ آزادی لڑتے لڑتے کشمیری اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کے لیے ” جہاد کا اعلان” بہت ضروری ہے۔ جہاد کی ضرورت اور اس کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔مگر سب سے بڑا سوال پھر وہی ہے کہ جہاد کا اعلان کون سی طاقت کرے۔ بدلتے ہوئے حالات کے تحت، میری دانست میں کشمیریوں (آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر) کی اجتماعی سیاسی قیادت کو آزادی کی خاطر اپنے سارے چھوٹے بڑے سیاسی اختلافات، بدگمانیاں، گلے شکوے ختم کر کے نئے سرے سے اپنے منشور کو ترتیب دے کر اپنی جد وجہد کو آگے بڑھانا چائیے۔ اس وقت کشمیریوںکی قیادت، بالخصوص سید علی گیلانی رحمتہ اللہ کی شہادت کے بعد انتشار کا شکار ہو کر بظاہر غیر موثر ثابت ہو رہی ہے۔

شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں