کیا ہیں ان کے منصوبے؟

سال 2022گزر گیا۔2023کا آغاز ہوا۔پوری ریاست جموں و کشمیرحسب معمول بھارتی ظلم و جبر کے سائے میں ہی دن گذارتی رہی اور نہیں معلوم کہ کب تک آلام و آزمائش کا یہ دور چلتا رہے گا۔ویسے کوئی گھر اورکوئی خاندان ایسا نظر نہیں آئیگا جو قابض فورسز کے ظلم وستم سے محفوظ رہا ہو۔ دنیاخاموش ہے ایک تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے۔ ایک سکو ت ہے اور اس سکوت سے فائدہ اٹھاکر بھارتی قابض حکمران ہر ممکنہ فائدہ اٹھاکر،ریاست کے با شندوں پرظلم و جبرکا بازار گرم کرکے رکھے ہوئے ہیں۔نہ صرف ان کی عزت و عصمت پر حملہ آور ہور ہے ہیں بلکہ ان کے اکثریتی کردار کو اقلیت میں بدلنے کی کوششیں بھی کررہے ہیں۔لاکھوں کنال زرعی، باغاتی، جنگلاتی زمین فوج کی تحویل میں تھی ہی اب2019ء سے مزید زرعی زمین اور جنگلاتی زمین کو دفاع کے نام پر قبضے میں لیا جارہا ہے۔اطلاعات کے مطابق پانچ ملین بھارتی شہریوں کو ریاست کی سٹیٹ سبجیکٹ جاری کی جاچکی ہیں اور مزید جاری کرنے کے فرمان جاری ہورہے ہیں،ہر اہم منصب پر غیر ریاستی افسر تعینات ہے اس لئے بلا کسی رکاوٹ کے وہ سب کچھ کیا جارہا ہے جو فلسطین میں صیہونی کررہے ہیں۔کشمیریوں کو ڈرانے دھمکانے کیلئے 10لاکھ سے زائد فوجیوں، انتظامیہ، پارلیمنٹ، تحقیقاتی اداروں، خفیہ ایجنسیوں، فرقہ پرست میڈیا اور متعصب عدلیہ کو استعمال کیا جارہا ہے۔ ماورائے عدالت قتل، تشدد، املاک کو نذر آتش کرنا، بلا جواز گرفتاری اور خواتین کی بے حرمتی جیسے بدترین بھارتی مظالم جاری ہیں جماعت اسلامی کے فلاحی اداروں اور امام سید علی گیلانیؒ کے گھر اور دیگر کشمیری مسلمانوں کے مکانات اور زمینوں کو ضبط کرنے کا سلسلہ دراصل بھارتی شدت پسند قیادت کامقبوضہ ریاست کے اکثریتی کردار کو ختم کرنے کی ایک منظم کوشش ہے۔

ہرروز بھارتی افواج کشمیریوں کو قتل کرتی ہے اور جواز یہ دیتی ہے کہ یہ لوگ دھشت گردی میں ملوث ہیں۔ ہزاروں نوجوانوں کو پکڑکرعقوبت خانوں میں لیا جاتا ہے اور وہاں اُن پربے انتہا تشدد کیا جاتا ہے جیلیں بھری ہوئی ہیں۔مرد و زن،خورد و کلاں۔۔۔رہنما و کارکن۔۔کوئی امتیاز نہیں۔۔یہ سلسلہ 2021میں بھی جاری تھا اور 2022میں بھی جاری رہا۔ کشمیر میڈ یا سنٹر کے اعداد شمار کے مطابق’’بھارتی خفیہ ایجنسی این آئی اے اور بھارتی فوج نے مشترکہ طورمحاصروں اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران اس سال.۔2022 میں660عام شہریوں کو گرفتار کرکے ان پر مظاہروں کو منظم کرنے،بھارتی پولیس و فوج پر پتھراؤ کرنے اور شہداء کے جنازوں میں شرکت کرنے اور اس موقعہ پر اسلام او آزادی کے حق میں اور بھارت مخالف نعرے لگانے کے الزامات عائد کرکے انہیں کشمیر اور کشمیر سے باہر کی جیلوں کی زینت بنادیا۔ ان گرفتار شدگان میں بزرگ اور جوان و بچے بھی شامل ہیں۔ بھارتی فوج نے گن پاؤڈر چھڑک کر،ماٹر گولوں کی شیلنگ سے اور آگ لگا کر29مکانوں کو تباہ کرکے اربوں روپے کی مالیت کا عوام کو نقصان پہنچایا۔سرچ آپریشنز کے دوران جان بوجھ کر عوام پر اندھا دھند فائرنگ کر کے 277شہریوں کو شہید کردیا گیاجبکہ فائرنگ اور شیلنگ کر کے 122شہری زخمی کئے گئے۔اس سال وادی کے مختلف علاقوں سے 49لاشیں برآمد کرلی گئیں جن میں متعدد لاشیں گولیوں سے چھلنی ہوچکی تھیں‘‘۔ان کے قاتلوں کو نامعلوم بندوق برداروں کے کھاتے میں ڈال کر،اپنی اناکو تسکین پہنچانے کی کوشش کی گئی۔حالانکہ یہ حقیقت چوری چھپی نھیں ہے کہ یہ سرکاری بندوق بردار ہوتے ہیں اور انہیں مکمل حکومتی آشیرواد ہوتی ہے۔ اس گھمبیر اور انسانیت سوز صورت حال پر عالمی طاقتوں اور اداروں کی جانبدارانہ اور مجرمانہ خاموشی بہت ہی تکلیف دہ اور قابل افسوس ہے۔ ملت مظلومہ کشمیر کی اس تباہ کن صورتحال میں یہ ارباب اقتدار پاکستان کی آ ئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اقتدار کی موجودہ رسہ کشی سے ذرا فراغت پاکر اس جنت ارضی کو آخری تباہی سے بچانے کی فکر کریں جس کو آج تک شہ رگ کہتے کہتے چلے آرہے ہیں۔ کشمیریوں کی نسل کشی اور زمین و جائیداد سے جابرانہ بے دخلی روکنے کے لیے بھرپور سفارتی مہم جوئی کے ذریعے عالمی ضمیر کو بیدار کرنے، اداروں کو متحرک اور قوانین کو بروئے کار لانے کی فوری ضرورت ہے۔ورنہ ایسی صورتحال کے ہوتے ہوئے اس خطے میں ایک معمولی چنگاری بھی خرمن امن کو آگ لگا سکتی ہے اور جس کے نہ صرف اس خطے بلکہ پورے عالمی امن پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔

٭٭٭