شعیبؑ نے کہا بھائیو’’کیا میری برادری تم پر اللہ سے زیادہ بھاری ہے کہ تم نے ( برادری کا تو خوف کیا اور) اللہ کو بالکل پسِ پشت ڈال دیا؟ جان رکھو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ اے میری قوم کے لوگو، تم اپنے طریقے پر کام کیے جاؤ اور میں اپنے طریقے پر کرتا رہوں گا، جلدی ہی تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر ذلّت کا عذاب آتا ہے اور کون جھوٹا ہے ۔ تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ چشم براہ ہوں ۔‘‘آخرِکار جب ہمارے فیصلے کا وقت آگیا تو ہم نے اپنی رحمت سے شعیب ؑ اور اس کے ساتھی مومنوں کو بچا لیا اورجن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک سخت دھماکے نے ایسا پکڑا کہ وہ اپنی بستیوں میں بے حسّ و حرکت پڑے کے پڑے رہ گئے،گویا وہ کبھی وہاں رہے بسے ہی نہ تھے۔ سنو! مَدیَن والے بھی دور پھینک دیے گئے جس طرح ثمود پھینکے گئے تھے اور موسیٰ ؑ کو ہم نے اپنی نشانیوں اور کھلی کھلی سَنَدِ ماموریّت کے ساتھ فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت کی طرف بھیجا،مگر انہوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی حالانکہ فرعون کا حکم راستی پر نہ تھا ۔قیامت کے روز وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا اور اپنی پیشوائی میں انہیں دوزخ کی طرف لے جائے گا ۔ کیسی بدتر جائے وُرُود ہے یہ جس پر کوئی پہنچے!اور ان لوگوں پر دنیا میں بھی لعنت پڑی اور قیامت کے روز بھی پڑے گی ۔ کیسا برُا صِلہ ہے یہ جو کسی کو ملے!یہ چند بستیوں کی سرگزشت ہے جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں ۔ ان میں سے بعض اب بھی کھڑی ہیں اور بعض کی فصل کٹ چکی ہے ۔
سورہ ہود آیت نمبر 92تا 100 تفہیم القرآن سید ابُوا لاعلی ٰ مودودیؒ
ْْْقصاص احادیث کی روشنی میں
حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’کسی مسلمان کا، جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، خون حلال نہیں، مگر تین میں سے کسی ایک صورت میں (حلال ہے): شادی شدہ زنا کرنے والا، جان کے بدلے میں جان (قصاص کی صورت میں) اور اپنے دین کو چھوڑ کر جماعت سے الگ ہو جانے والا. ا’’مسلم شریف‘‘
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’کسی ذی روح (انسان) کو ظلم سے قتل نہیں کیا جاتا مگر اس کے خون (گناہ) کا ایک حصہ آدم کے پہلے بیٹے پر پڑتا ہے کیونکہ وہی سب سے پہلا شخص تھا جس نے قتل کا طریقہ نکالا ’’ مسلم شریف‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ یہود کے ایک آدمی نے انصار کی ایک لڑکی کو اس کے زیورات کی خاطر قتل کر دیا، پھر اسے کنویں میں پھینک دیا، اس نے اس کا سر پتھر سے کچل دیا تھا، اسے پکڑ لیا گیا اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے اسے مر جانے تک پتھر مارنے کا حکم دیا، چنانچہ اسے پتھر مارے گئے حتی کہ وہ مر گیا ’’ مسلم شریف ‘‘