
سیدعارف بہار
بھارت میں جی ٹونٹی ملکوں کی کانفرنس میں بدمزگی کے صرف دوپہلو تھے ایک کانفرنس کے آغاز سے قبل تو دوسرا کانفرنس کے دوران نمایاں ہو گیا تھا ۔پہلی بد مزگی تو یہ تھی کہ روس اور چین نے اس کانفرنس میں اپنی شرکت کا درجہ گھٹا دیا تھا یعنی سربراہی کانفرنس میں صرف وزرائے خارجہ نے شرکت کی تھی ۔دوسری بدمزگی کا مظاہرہ کانفرنس کے دوران ہوتا رہا اس کا تعلق کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور نریندر مودی کے درمیان مستقل اور مسلسل کھچائو سے تھا ۔ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہوئے دونوں کی باڈی لینگوئج اور چہروں کے تاثرات ایک نیم دلانہ اور بے تاثر ملاقاتوں کو احوال سنارہی تھی اگر کہیں چہروں پر مسکراہٹ نظر بھی آتی ہے تو وہ مصنوعی اور پھیکی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت نے کانفرنس کے دوران جسٹن ٹروڈو کو نظر انداز کئے رکھا یا خود مسٹر ٹروڈو نے اپنے قدم کھینچے رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی ۔کانفرنس کے اسی ماحول کا اثر تھا کہ کانفرنس کے دوران اور اختتام پر کسی عالمی راہنما کو پریس ٹاک کا موقع فراہم نہیں کیا گیا ۔حد تو یہ ہے کہ تقریب کے دولہا امریکی صدر جوبائیڈن بھی’’ ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد ‘‘کے انداز میں بھارت میں کچھ کہے سنے بغیر ہی لوٹ کر چلے گئے اور بعد میں انہیں خیال آیا کہ بھارت میں تو انہیں انسانی حقوق اور اقلیتوں کے تحفظ پر بھی بات کرنا تھی ۔یاداشت کی بحالی کے بعد ہی انہوں نے دلی کا افسانہ تھائی لینڈ میں سنایا کہ انہوں نے نریندرمودی سے انسانی حقوق اور اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر بات کی ۔اسی دوران جسٹن ٹروڈو اور نریندرمودی کے درمیان بھی خالصتان میں ہونے والی قتل کی ورادتوں پر بات ہوتی رہی اور دونوں طرف سے اپنا اپنا موقف بیان کیا جاتا رہا ۔اس تکرار کے اثرات کانفرنس کے دوران ہی محسو س کئے جاتے رہے۔یوں کینیڈین وزیر اعظم اور نریندر مودی کے تعلقات میں ایک لاواپکتا ہو اصاف دیکھا جا رہا تھا اور یہ لاوا اب اس وقت پھٹ پڑا جب کینیڈا کی حکومت نے بھارت کے ایک اعلیٰ سفارت کار کو خالصتان نوا زسکھ رہنما اور کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے کیس میں ملک بدر کر دیا ۔

جسٹن ٹروڈونے پارلیمنٹ میں ایک زودار بیان دیتے ہوئے کہا کہ کینیڈا کے انٹیلی جنس اداروں نے سکھ رہنما کی موت اور بھارتی ریاست کے درمیان قابل اعتماد تعلق کی نشاہدہی کی ہے۔انہوں نے اسے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کہا بلکہ اسے کینیڈا کی آزادی اقتدار اعلیٰ اور خودمختار ی کو چیلنج کرنے کے مترادف قرار دیا کہ باہر سے آکر کوئی قوت کینیڈا کی سرزمین پر کسی کینیڈین شہری کو قتل کرے۔جسٹن ٹروڈ نے یہ بھی کہا کہ جی ٹونٹی کانفرنس کے دوران نریندرمودی کو براہ راست بھی کینیڈین حکومت کے تحفظات سے آگا ہ کیا تھا ۔جسٹن ٹروڈ و کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے بعد کینیڈا کے شہری بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتے جن میں کئی ارکان پارلیمنٹ بھی شامل ہیں ۔یہ کہتے ہوئے ان کا اشارہ کینیڈا کے سکھ ارکان پارلیمنٹ کی جانب تھا ۔ بھارتی حکومت نے جسٹن ٹروڈو کے پارلیمنٹ میں دئیے گئے بیان کو مسترد کیا اور ایسی کسی واردات میں ملوث ہونے کی تردید کی ۔بعد میں کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانیا جولی نے بھی ایک پریس کانفرنس میں انہی خیالات کا اظہار کیا اور بھارت کے ایک اعلیٰ سفارت کار کو ملک بدر کرنے کا اعلان بھی کیا ۔جس کے جواب میں بھارت نے بھی ایک کینیڈین سفارت کار کو ملک بدر کردیا۔ہردیپ سنگھ نجر ایک سرگرم خالصتانی رہنما تھے جو رواں برس 18 جون میں وینکوور شہر میں ایک گوردوارے کے باہر ٹارگٹ کلنگ کانشانہ بنے تھے ۔خالصتان نواز رہنما ئوں نے اس کا الزام بھارتی ایجنسی راپر عائد کیا تھا ۔کینیڈا خالصتان تحریک کے حامیوں کا مضبوط مرکز ہے ۔یہ وہ سکھ ہیں جو سن 80 کی دہائی میں اندرا گاندھی حکومت کے آپریشن بلو سٹار کے نام سے امرتسر گولڈن ٹیمپل پر ہونے والے حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے باعث سیاسی پناہ گزینوں کے طور پر مغربی ملکوں میںمنتقل ہوئے تھے ۔کینیڈا امریکہ اور برطانیہ اس دور کے نقل مکانی کرنے والوں کے بڑے مراکز ہیں ۔یہ لوگ اپنی زمین سے کٹ جانے کے باوجود اپنے نظریات سے جڑے ہوئے ہیں اور ان ملکوں کی سکھ کمونٹی میں خالصتان کی حمایت کے جذبات ابھی پوری طرح قائم ہیں۔

خالصتان کی حمایت میں سکھ کمونٹی میں ہونے والا ریفرنڈم بھی اسی سوچ کا عکاس ہے ۔بیرون ممالک میں جاری اس خالصتان تحریک کی حمایت کے اثرات سے مشرقی پنجاب بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ نتیجنا َ ان علاقوں میںبھی خالصتان کے جذبات ختم ہونے کے بجائے تقویت پکڑتے ہیں ۔اس لئے بھارت نے آسان طریقہ یہ دیکھ لیا کہ بین الاقوامی محاذ پر سرگرم خالصتان کے حامیوں کو قتل کرایا جائے۔یہ کاروائی بہت سے بااثر سکھوں کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی ہے اور کینیڈین پارلیمنٹ میں کئی سکھ ارکان بھی اس خطرے کی زد میں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کینیڈا کی حکومت نے اس مسئلے کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہوئے بھارت سے احتجاج کے انداز میں شدت پیدا کی ہے۔کینیڈین حکومت کی طرف سے بھارت کے اعلیٰ سفارت کار کی ملک بدری اس لحاظ سے ایک چونکا دینے والا واقعہ ہے کہ اس وقت مغربی ممالک محض علاقائی سیاست کی دوربین سے حالات وواقعات کو دیکھنے کی وجہ سے بھارت پر دل وجان سے فدا ہیں ۔بالخصوص امریکہ تو بھارت کی ہر کج ادائی پر بھی فریفتہ اور اسے نزاکت کا ایک انداز قراردینے کے رویے کا شکار ہے ۔ایسے میں مغرب کے اہم ملک کینیڈا کی طرف سے بھارت پر اپنی خودمختاری اور اقتدارا علیٰ کو پامال کرنے کا الزام بھارت کی مصنوعی شبیہہ کو مغرب میں متاثر کرنے کا باعث بن سکتا ہے ۔پاکستان کی طرف سے اس طرح کی باتوں کو محض روایتی الزام تراشی سمجھ کر اُڑا دیا جاتا ہے مگر کینیڈین وزیر اعظم کا پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار اپنا رنگ دکھاتا رہے گا۔یہاں پاکستان کیلئے ایک سبق اور بھی ہے کہ کینیڈا میںہردیپ سنگھ نجر کے قتل کا ایک واقعہ ہوا تو اس ملک نے اسے اپنے اقتدار اعلیٰ پر حملہ قرار دے کر تمام مصلحتوں اور تکلفات کو بالائے طاق رکھ کر اقدامات کا سلسلہ شروع کیا ۔
٭٭٭
جناب سید عارف بہار آزاد کشمیر کے معروف صحافی دانشور اور مصنف ہیں۔کئی پاکستانی اخبارات اور عالمی شہرت یافتہ جرائدمیں لکھتے ہیں۔تحریک آزادی کشمیر کی ترجمانی کا الحمد للہ پورا حق ادا کر رہے ہیں ۔کشمیر الیوم کیلئے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں