کے ایچ خورشید

شہزاد احمد منیر

خورشید صاحبؒ نے اپنے لیڈر محمد علی جناح کی طرح اپنے نام کے ساتھ کوئی لاحقہ استعمال نہیں کیا

خورشید فرمانبرداری اور ذہانت میں نمایاں اور قابل فخر مزاج کے مالک تھے

وقت کی پابندی اور پروٹوکول میں خورشید، ھو بہو قائد اعظم کی طرح تھے

آزاد کشمیر کی صدارت کے دوران خورشید حسن نے امانت و دیانت کا ایک اعلیٰ اور منفرد میعار قائم کر کے دکھایا

خورشید حسنؒ ساری عمر اپنا گھر نہ بنا سکے، وہ کرائے کے گھروں میں رہتے رہے

کے ایچ خورشید، 1943 سے لے کر 1947 تک بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے پرائیویٹ سیکرٹری رہے مگر انہیں اپنے لیڈر کی نماز جنازہ میں شرکت نصیب نہ ہوئی۔ایسا کیوں ہوا۔ سری نگر کا 20 سالہ نو جوان خورشید، جو 1943 میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے پرائیویٹ اسسٹنٹ بنے اور 1947 تک بے مثال عوامی لیڈر کی قیادت میں پروان چڑھے ، آزاد جموں و کشمیر کے پہلے منتخب صدر بنے اور ریاست کا آئین بنانے والے محترم جناب خورشید حسن (خورشید) کیا قابل فخر مسلمان لیڈر تھے، انہیں تاریخ عکس قائد، تصویر قائد کہہ کر یاد کرتی ہے۔ خورشید صاحب نے اپنے لیڈر محمد علی جناح کی طرح اپنے نام کے ساتھ کوئی لاحقہ استعمال نہیں کیا۔ یاد رہے کہ محمد علی جناح کو علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب ضیاء الدین صاحب نے کئی بار تحریری درخواست کی کہ یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز اور ایوارڈ کمیٹی کا متفقہ فیصلہ ہے کہ آپ (. محمد علی جناح) کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرف سے لاء ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی جائے، مگر مسٹر جناح نے یہ درخواست منظور نہ کی۔ جواب میں لکھا” میں زندگی بھر صرف محمد علی جناح بن کر رہا ہوں اور میں اس میں کسی طرح کا لاحقہ( Prefix or suffix) پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح کے ایچ خورشید بھی اپنے نظریہ حیات اور عمل میں جناب خورشید حسن خورشید ساری عمر صرف خورشید ہی کہلواتے تھے۔ عادات و اطوار میں وہ اپنے لیڈر محمد علی جناح سے بہت مطابقت رکھتے تھے۔ معروف صحافی جناب ضیاء شاہد صاحب نے اپنی کتاب میں خورشید صاحب کو ” قائد کی تصویر” لکھا ہے خورشید حسن خورشید 1924 میں سری نگر، (اب مقبوضہ کشمیر) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی محمد حسن ایک سکول ٹیچر تھے۔ اس گھر کا ماحول کیسا نفیس اور باوقار ہوگا جہاں بیٹے کی بنیادی تعلیم اور ابتدائی تربیت کے لیے ایک دیندار مولوی باپ پیشے کے اعتبار سے بھی استاد موجود تھا ۔وہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ خورشید فرمانبرداری اور ذہانت میں نمایاں اور قابل فخر مزاج کے مالک تھے۔

انہوں نے کالج کے زمانے میں ہی کشمیر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ حالانکہ ان کی عمر اس وقت 19 برس کی تھی۔ پھر انہوں نے طلباء کے وفد کے ساتھ جالندھر میں جا کر ایک تقریب میں قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کی۔ قائد اعظم نے انہیں ”پاکستان ” کا جھنڈا عطا کیا۔خورشید نے جس عہد، جذبے اورذمہ داری سے اس جھنڈے کو تھاما، عہد کی پاسبانی کر کے دکھائی اس کی مثال بہت کم لوگوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ خورشید حسن خورشید نے امرسنگھ کالج سے بی اے کیا۔ ریاضی اور اکنامکس ان کے خاص مضامین تھے۔

قائدِ اعظم 1943 میں جب تیسرے دورے پر سری نگر پہنچے تو محترمہ فاطمہ جناح بھی ان کے ساتھ تھیں۔ انہوں نے موٹر بوٹ میں قیام کیا تھا۔ خورشید حسن انہیں روزانہ بحیثیت طلباء راہنما اپنا عقیدت بھرا سلام پیش کرنے موٹر بوٹ میں پہنچ جاتے تھے۔

سری نگر میں اورینٹ پریس آف انڈیا مسلمانوں کی واحد ایجنسی تھی۔ اسماعیل ساغر سری نگر میں ان کے واحد نمائندہ تھے جو انگریزی زبان پر خاصی دسترس نہیں رکھتے تھے۔ قائد اعظم کی بیشتر تقاریر انگریزی زبان میں ہوتی تھیں۔ ان تقاریرکا اردو ترجمہ کرنے کا کوئی مناسب اور موثر بندوبست نہیں تھا۔اسماعیل ساغر کی وساطت سے خورشید کو اورینٹ پریس آف انڈیا کی سری نگر میں نمایندگی مل گئی اور وہ قائد اعظم کی انگریزی تقاریر کا اردو ترجمہ کر کے پریس میں بھیجوا دیتے۔۔ یوں خورشید قائد اعظم کے اور بھی قریب ہوتے چلے گئے۔

قائد اعظم کے اس وقت کے سیکرٹری ” مسٹر لوبو” تھے جو کہ بھی اردو زبان پر کوئی زیادہ عبور نہیں رکھتے تھے۔ قائد اعظم کو جب اپنے خطوط اُردو میں لکھوانا ہوتے تو خورشید کو بلوا لیا جاتا تھا۔ بعد میں قائد اعظم کے کہنے پر خورشید کو روزانہ بلوا لیا جاتا تھا اور خورشید بصد خوشی حاضر ہو جاتے اور جیسا انہیں کام دیا جاتا وہ مکمل کر دیتے۔

جولائی 1944 میں، قائد اعظم نے خورشید حسن سے کہا ” تم میرے پاس آ جاؤ اور میرے ساتھ کام کرو” خورشید کا دل یہ سن کر ہی بلیوں اچھلنے لگا۔ خورشید والدین کی تربیت اور قائد اعظم کی رفاقت میں رہ کر تعلیم کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہونے کے باعث بڑی دل جمعی سے پڑھائی بھی کر رہے تھے۔ انہیں علامہ اقبال کا یہ شعر بھی یاد تھا:-

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر

سوچ سمجھ کر ادب سے جواب دیا کہ ” جناب میں تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔بی اے کا امتحان دینا ہے۔ مزید یہ کہ والدین سے مشورہ کر کے بتا سکتا ہوں”

انہوں نے والدین سے مشورہ کیا اور یہ سوچتے ہوئے کہ تعلیم بھی جاری رکھی جا سکتی یا پھر بعد میں تعلیم مکمل ہو سکتی ہے لیکن اس عظیم قائد کی صحبت میں کام کرنے کا شایددوبارہ موقع نہ ملے، بہر کیف، خورشید حسن قائد اعظم کے ساتھ کام کرنے لگ گئے۔ پہلے ان کے سیکرٹری ” مسٹر لوبو” کے ساتھ خورشید نے کام کیا اور مسٹر لوبو کے چلے جانے کے بعد خورشید حسن صاحب نے قائدِ اعظم کے ساتھ پاکستان بننے تک کام کیا۔ فاطمہ جناح بھی ان کے ساتھ باہر سے آنے والے خطوط کھولتی تھیں اور ان کی مدد کیا کرتی تھیں۔ پاکستان بن گیا تو خورشید بھی قائد اعظم کے ساتھ کراچی اگئے۔ قائد اعظم کو کشمیر کی فکر لاحق تھی۔ انہوں نے خورشید صاحب کے کشمیری خاندانی پس منظر اور بھروسے کا آدمی ہونے کے باعث انہیں اکتوبر 1947 میں نیشنل کانفرنس کے لیڈر شیخ عبداللہ کے نام ایک خصوصی خط دے کر سری نگر بھیجا۔ جنہیں کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت نے یہ جان کر کہ وہ قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری ہیں گرفتار کرلیا اور تفتیش کرتے رہے کہ وہ کس مقصد کے لیے کشمیر آئے ہیں۔

قائد اعظم نے ہندوستان کے وزیراعظم مسٹر نہرو کو بھی خورشید کی رہائی کے بارے خط لکھا تھا مگر انہوں نے بھی کوئی توجہ نہ دی۔۔ انہیں 13 ماہ تک قید تنہائی کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں۔ اسی دوران ان کے محسن قائد اعظم 11 ستمبر 1948 کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے، کیا یہ کسی المیہ سے کم ہے کہ چار سال تک قائد اعظم کے شانہ بہ شانہ کام کرنے والے پرائیویٹ سیکرٹری خورشید حسن خورشید کو ان کی نماز جنازہ میں شرکت بھی نصیب نہ ہوئی۔

1949 میں قیدیوں کے تبادلے میں خورشید حسن صاحب کے بدلے پاکستان کو ہندوستانی قیدی جنرل گھنسار سنگھ کو رہا کرنا پڑا اور خورشید صاحب پاکستان کو واپس ملے ۔خورشید حسن واپس پاکستان پہنچے تو بڑے دل گرفتہ تھے، قائد اعظم فوت ہو چکے تھے۔ سیاست سے دل اُچاٹ ہو چکا تھا۔فاطمہ جناح نے ان کی ڈھارس بندھائی، حوصلہ دیا اور آہستہ آہستہ وہ نارمل ہوتے چلے گئے۔ ایک دوست سے مل کر ” گارڈیئن ” اخبار نکالا تو وہ کئی وجوہات پر بند ہو گیا۔ مادر ملت فاطمہ جناح نے انہیں کراچی بلا بھیجا تو وہ فلیگ ہاؤس میں رہنے لگے۔ فاطمہ جناح کو یاد تھا کہ قائد اعظم نے خورشید حسن کے والد کے ساتھ خورشید کو پڑھنے کے لیے لندن بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔ مادر ملت نے اپنے بھائی محمد علی جناح کے وعدے کے مطابق خورشید کو اپنے ذاتی خرچے پر لندن اسی درسگاہ میں داخل کروایا جہاں سے قائد اعظم محمد علی جناح نے بیرسٹری پاس کی تھی۔ اس درسگاہ کا نام لنکنز ان ہے۔ خورشید بار ایٹ لاء کی ڈگری لے کر 1954 میں واپس پاکستان لوٹے۔اور وکالت شروع کی۔ 1959 میں جنرل ایوب خان نے خورشید حسن کو آزاد کشمیر کی صدارت کی پیشکش کی۔وہ یہ آفر قبول نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مادر ملت نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ کو یہ عہدہ قبول کر لینا چاہیے۔ ممکن ہے آپ کو کشمیر کے بارے بہتر خدمت انجام دینے کے مواقع میسر آئیں۔ مادر ملت کی ھدایت پر خورشید حسن آزاد کشمیر کے صدر بننے پر راضی ہو گئے۔ انہوں نے آزاد کشمیر میں صدارت کے الیکشن کروائے جو وہ جیت گئے۔ اس لیے انہیں آزاد کشمیر کا پہلا منتخب صدر لکھا جاتا ہے۔

جب فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑا تو خورشید مادر ملت کے پولیٹکل ایجنٹ تھے۔ انہوں ان الیکشنز میں بڑی محنت کی۔ فاطمہ جناح مشرقی پاکستان میں جیت گئیں مگر مغربی پاکستان میں ایوب جیت کر صدر مملکت بن گئے۔ ریاستی امور کی انجام دہی، سیاستدانوں اور دیگر سرکاری مہمانوں سے ملنے میں وقت کی پابندی اور پروٹوکول میں خورشید، ھو بہو قائد اعظم کی طرح تھے۔ ان میں وہ قائد اعظم جیسی وقت کی پابندی، اصول پسندی، دیانت داری سے فیصلے کرنے کے عادی اور عزت نفس کے مالک تھے۔ کام کام اور بس کام ہی ان کا بھی مشن رہا۔ پاکستان کے حکمرانوں کو خورشید حسن کی یہ خودداری، خود گیری، خود مختاری اور امانت و دیانت کا رویہ ہضم نہیں ہوتا تھا۔ وہ خواہ مخواہ کشمیری معاملات میں نامناسب اور بلاوجہ مداخلت کرتے۔۔ کبھی کبھی تو فضول بدمزگی پیدا ہو جاتی۔

خورشید 1964 میں آزاد کشمیر کی صدارت سے مستعفی ہوگئے۔ تحریک پاکستان کے آخری چار سال تک قائد اعظم کے ساتھ رہنے والے خورشید بڑے خود دار اور Self composed شخصیت تھے۔ انہوں نے کبھی بڑھ ہانکی نہ بڑے بڑے دعوے کیے۔آزاد کشمیر کی صدارت کے دوران خورشید حسن نے امانت و دیانت کا ایک اعلیٰ اور منفرد میعار قائم کر کے دکھایا۔ سرکاری اخراجات کو بڑی حد تک محدود کر دیا تھا۔ اپنے دفتر کے ملازمین کی تعداد نصف کر دی۔ صدر کے ساتھ کام کرنے والا سٹاف بھی بہت کم کر دیا تھا۔ ایک دفعہ ان کی اہلیہ نے اپنی پانچ سالہ بیٹی کو سرکاری گاڑی میں سکول بھیجوا دیا۔ خورشید حسن سخت ناراض ہوئے اور آئندہ ایسا کرنے سے منع کر دیا۔۔انہوں نے ساری عمر اپنے بیٹوں کو سیاست سے دور رکھا، یہاں تک کہ انہیں بہت کم سرکاری فنکشنز میں لے کر جایا کرتے۔ ان کا چھوٹا بیٹا خرم راولپنڈی میں لیکچرار تھا، جب کہ فیملی لاہور میں تھی۔ بیگم خورشید نے بیٹے کی ٹرانسفر لاہور کروانے کے لیے سفارش کی تو جواب ملا میں اپنی سرکاری حیثیت سے کوئی ناجائز فائدہ نہیں لینا چاہتا۔ خورشید حسن اپنے بچوں سے بہت پیار کرنے والے شفیق باپ تھے۔ خوش مزاج، خوش طبع اور خوش پوش انسان تھے۔جمہوریت کی پرستش کرنے والے تھے۔ قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری رہنے کی وجہ سے وہ بے شمار مقتدر شخصیات کو جاننے اور ملنے والے تھے مگر انہوں نے کسی کے آگے مدد چاہنے کے لیے دست سوال نہیں بڑھایا، عزت نفس اور وقار سے جیئے۔جس دن آزاد کشمیر کی صدارت سے مستعفی ہوئے تو صرف وہی رات وہ سرکاری گھر میں رکے دوسرے دن وہ خود کراچی چلے گئے اور ان کی اہلیہ بچوں سمیت سیالکوٹ اپنے والدین کے ہاں جا ٹھہریں۔ حالانکہ وہ تین ماہ تک اس رہائش گاہ میں رہ سکتے تھے۔خورشید حسن ساری عمر اپنا گھر نہ بنا سکے، وہ کرائے کے گھروں میں رہتے رہے۔ امانت و دیانت داری کی زندگی گزارنا اتنا آسان نہیں ۔ چونکہ ان کی تربیت قائد اعظم کے ہاتھوں ہوئی تھی لہٰذاانہوں نے اپنے قائد کے اصولوں کو اپنا کر دلی راحت بھی پائی اور دنیا والوں سے عزت بھی۔خورشید حسن خورشید کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات و اسباب کا بغور جائزہ لیا جائے تو یقین آتا ہے کہ جن لوگوں سے اللہ تعالیٰ نے کام لینا ہوتا ہے وہ خود انہیں منتخب کرتا اور انہیں مختلف وسیلوں کی سان پر چڑھا کر نکھار لیتا ہے۔ بقول علامہ اقبال

مِری مشّاطگی کی کیا ضرورت حْسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حِنابندی

مظفر آباد سے ویگن میں لاہور آ رہے تھے کہ ویگن حادثے کا شکار ہو گئی جس میں خورشید صاحب شہادت سے سرفرازہو گئے۔

انا للہ وانا الیہ راجعون

اللہ تعلی سے دعا ہے کہ انہیں اپنے مقرب و ابرار لوگوں میں شمار فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطاء فرمائے آمین۔
٭٭٭