
حامد میر
بہت سال پہلے سیّد علی گیلانی صاحب کی جیل میں لکھی گئی کتاب رُودادِ قفس میں بھگت سنگھ کا ذکر پڑھ کر میں چونک گیا تھا۔ گیلانی صاحب نے لکھا تھا کہ اگر فرنگی سامراج کے خلاف بھگت سنگھ، راج گرو، سکھ دیو اور اشفاق اللہ کی مسلح جدوجہد درست تھی تو پھر جموں و کشمیر میں بھارتی استبداد کے خلاف کشمیریوں کی مسلح جدوجہد غلط کیوں قرار پاتی ہے؟ رُودادِ قفس غالباً 1996ء میں جناب پروفیسر خورشیداحمد کے ذریعے مجھ تک پہنچی تھی کیونکہ اسے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے شائع کیا تھا۔1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اس فوجی بغاوت کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ نواز شریف اور اٹل بہاری واجپائی مل کر مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکالنا چاہتے تھے لیکن پاکستانی فوج نے یہ کوشش ناکام بنادی۔ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ جنرل پرویز مشرف کا مسئلہ۔۔ کشمیر نہیں تھا بلکہ آرمی چیف کا عہدہ تھا۔ اُنھوں نے اپنا عہدہ بچانے کے لیے پاکستان میں جمہوریت کو قربان کردیا۔ پرویز مشرف کے ساتھ میرا اختلاف اُس وقت شروع ہوا جب مجھے پتہ چلا کہ وہ نواز شریف کو پی آئی اے کا طیارہ ہائی جیک کرنے کے الزام میں پھانسی پر لٹکانا چاہتے تھے۔ میری اُن سے واقفیت اُس وقت سے تھی جب وہ کور کمانڈر منگلا تھے۔ جنوری 1999ء میں اُنھوں نے مجھے اور کچھ دیگر صحافیوں کو کارگل آپریشن کے بارے میں بریف بھی کیا تھا۔ جس دن اُنھوں نے حکومت پر قبضہ کیا۔ اُسی صبح نواز شریف حکومت کے احتساب بیورو کے سربراہ سینیٹر سیف الرحمٰن مجھے گرفتاری کی دھمکی دے چکے تھے۔ مشرف صاحب جانتے تھے کہ میں نواز شریف کے پسندیدہ صحافیوں کی فہرست میں شامل نہیں تھا، لہٰذا اُنھوں نے مجھے آرمی ہائوس بلایا اور پوچھا کہ آپ نواز شریف کو پھانسی دینے کے مخالف کیوں ہیں؟ میں نے بتایا کہ آپ میرا کالم پڑھ لیں۔ میں نے یہ دلیل دی ہے کہ کسی سیاست دان کو پھانسی دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا مزید بگڑ جاتا ہے۔ مشرف صاحب نے بڑے تجاہلِ عارفانہ سے بتایا کہ وہ اُردو نہیں پڑھ سکتے البتہ اُنھوں نے میرے کالم کی سمری پڑھ لی ہے۔ اسی ملاقات میں اُنھوں نے اشارہ دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتے ہیں اور بہت جلد مجھے ایک مشاورتی مجلس میں بلائیں گے۔ کچھ عرصے کے بعد پتاچلا کہ وہ بھارتی حکومت سے مذاکرات کے لیے آگرہ جارہے ہیں۔ میں روزنامہ اوصاف کا ایڈیٹر تھا۔ حمید ہارون، نسیم زہرہ اور بہت سے دیگر صحافیوں کے ہمراہ میں بھی آگرہ پہنچ گیا۔

جب ہم آگرہ سے دہلی آئے تو یہاں میری سیّد علی گیلانی صاحب سے دوملاقاتیں ہوئیں۔ وہ مجھے غائبانہ طور پر اچھی طرح جانتے تھے اس لیے انھوں نے مجھے واضح الفاظ میں کہا کہ جنرل مشرف پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ جنرل مشرف اور گیلانی صاحب کے درمیان جب بھی کوئی ملاقات ہوتی تو اُس میں اختلاف رائے تلخ جملوں میں بدل جاتا اور مشرف نے پاکستان میں گیلانی صاحب کے بارے میں انتہائی گستاخانہ جملے بھی کہے۔ گیلانی صاحب کی زندگی کا واحد مقصد جموں و کشمیر کی آزادی تھا اور وہ پاکستان سے الحاق کے حامی تھے لیکن جنرل مشرف سے اُن کے اختلاف نے یہ ثابت کردیا کہ وہ حکومت پاکستان کی خوشنودی کے لیے الحاق پاکستان کا نعرہ نہیں لگاتے تھے بلکہ یہ اُن کے دل کی آواز تھی۔ آج میں جنرل مشرف اور سیّد علی گیلانی کے اختلافات کے ایک عینی شاہد کی گواہی آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ آنے والی نسلوں کو پتہ چلے کہ سیّد علی گیلانی صرف بھارتی حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق نہیں کہتے تھے بلکہ پاکستان کے حکمرانوں کو بھی حق و انصاف کی غیر مبہم اور دوٹوخ انداز میں کرتے تھے۔۔ بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سیّد منظور حسین گیلانی کئی سال تک خاموشی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک ڈور ڈپلومیسی میں شامل رہے۔ جسٹس گیلانی صاحب نے سرینگر میں اپنی وکالت کا آغاز کیا اس لیے وہ سیّد علی گیلانی کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ 1976ء میں وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور پھر آزاد کشمیر ہائی کورٹ سے ہوتے ہوئے سپریم کورٹ تک پہنچ گئے۔ اُنھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی آپ بیتی ’’میزانِ زیست‘ کے نام سے لکھی ہے۔ اس کتاب میں اُنھوں نے لکھا ہے کہ 2004میں وہ سری نگر جانے سے پہلے جنرل مشرف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ملے۔ مشر ف نے گیلانی صاحب کے لیے پیغام دیا کہ قبائلی علاقوں میں جو آپریشن چل رہا ہے اُس میں دخل نہ دو اور اپنے کام سے کام رکھو۔ جسٹس منظور گیلانی نے یہ پیغام سیّدعلی گیلانی کو پہنچایا تو اُنھوں نے جواب میں کہا کہ اگر جنرل مشرف کی بات مان لی جائے تو اُن کو بھی ہمارے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ سیّد علی گیلانی نے کہا: ’’تحریک قوم کی امانت ہوتی ہے جس کو دیانت داری سے چلنا چاہیے اور جب تک اس میں دیانت موجود رہے گی اُس کی کامیابی کی منزل قریب سے قریب تر ہوتی جائے گی‘‘۔ سیّد منظور گیلانی نے پوچھا کہ آپ کے بعد کیا ہوگا؟ سیّد علی گیلانی نے جواب میں کہا: ’’میں بھی تحریک اور قوم کی امانت ہوں لیکن ناگزیر نہیں ہوں۔ ہم نے اپنے لوگوں کی تربیت کی ہوئی ہے لیڈرشپ کا خلا کبھی نہیں ہوگا‘‘۔ سیّد علی گیلانی نے جنرل مشرف کے پیامبر سے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا عملی حل سلامتی کونسل کی قراردادوں میں ہی ہے اور اگر اس کے قریب کوئی اور حل ہے تو وہ یہ کہ پتنی ٹاپ سے مغرب کی طرف کا علاقہ پاکستان کو دیا جائے تو تقسیم بھی منظور ہے اور اگر یہی علاقہ بشمول آزاد کشمیر ایک آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر وجود میں آجاتاہے تو اس میں بھی کوئی بُرائی نہیں کیونکہ جس علاقے میں بھارتی فوج نہیں ہوگی وہ پاکستان ہی ہوگا۔ سیّد علی گیلانی کا خیال تھا کہ یہ فارمولا بھارت کی طرف سے آنا چاہیے۔ ہمیں یہ فارمولا لے کر بھارت کے پاس نہیں جانا چاہیے۔ سیّد منظور گیلانی نے 2005 ، 2010ء،2012ء اور 2015ء میں بھی سرینگر کا دورہ کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ بعد کے اَدوار میں بھی بیک ڈور چینل کا حصہ رہے کیونکہ وہ صرف سیّد علی گیلانی کو نہیں بلکہ حُریت کانفرنسوں کے دیگر قائدین کے علاوہ محبوبہ مفتی اور عمرعبداللہ کو بھی ملتے رہے اور اُنھیں پاکستان لاتے رہے۔ سیّد منظور گیلانی اگر کسی کو پاکستان نہیں لاسکے تو وہ سیّدعلی گیلانی تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب کے ص389 پر لکھا ہے کہ ’’کشمیر کی تحریک سے اگر سیّدعلی گیلانی کو الگ کردیا جائے تو وہ خاک کا ڈھیرہے‘‘۔
سیّد علی گیلانی پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں فوجی آپریشنوں کی مذمت کیوں کرتے تھے؟ اس لیے کہ وہ پاکستان سے محبت کرتے تھے۔ کشمیری نوجوان اُن سے پوچھتے تھے کہ آپ ہمیں جس پاکستان کا حصہ بنانا چاہتے ہیں وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیوں ہوتی ہیں؟ پاکستانی حکمرانوں کی غلطیاں سیّدعلی گیلانی کی کمزوریاں بن جاتی تھیں۔ وہ ان کمزوریوں سے نجات چاہتے تھے۔ وہ پاکستان سے زیادہ بڑے پاکستانی تھے۔ اُن کی محبت پاکستان اور پاکستانیوں سے تھی جو لوگ بار بار انھی پاکستانیوں کو فتح کرلیتے ہیں۔ سیّد علی گیلانی اُن سے اتنے ہی بیزار تھے جتنے عام پاکستانی ان سے بیزار ہیں۔