خورشید ندیم
وہ دبستانِ مودودی کا اثاثہ تھے۔ ان کا کردار مگر اسی دائرے تک محدود نہیں تھا۔ وہ پاکستانی قوم اور مسلم ملت کا سرمایہ تھے۔
انگریزی خواں طبقے کو مولانا مودودی کے افکار سے روشناس کرانے میں بھی وہ سب سے نمایاں تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید ؒ انہیں بہت عزیز رکھتے تھے۔ ان کے نام مولانا مودودی کے خطوط سے یہ تعلقِ خاطر اور قرب صاف جھلکتا دکھائی دیتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی موجودگی نے پارلیمان کے وقار میں اضافہ کیا۔۔ وہ اراکینِ پارلیمان کے لیے ایک رول ماڈل تھے اور اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں ہو گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ حسنِ خلق کے ساتھ حسنِ کردار کا بھی نمونہ تھے۔ ایسے لوگوں کا خیر صرف ایک دائرے تک محدود نہیں ہوتا۔ وہ ایک معاشرے اور عہدکو متاثر کرتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو آدمی محض پانچ منٹ کا قیلولہ کرکے ایک بار پھرکام پر لگ جائے اس سے زیادہ بامعانی زندگی کس کی ہو گی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اپنے رب کی رحمت سے پوری امید ہے کہ فرشتوں نے ان کا استقبال ایک خصوصی مہمان کے طور پر کیا ہو گا جسے قرآن مجید نے ‘نفس مطمٔنہ‘ کہا ہے
پروفیسر خورشید احمد کی طبعی عمر تمام ہوئی اور وہ اپنے پروردگار کے حضور میں پہنچ گئے۔ کوئی شبہ نہیں کہ ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ وہ دبستانِ مودودی کا اثاثہ تھے۔ ان کا کردار مگر اسی دائرے تک محدود نہیں تھا۔ وہ پاکستانی قوم اور مسلم ملت کا سرمایہ تھے۔
برصغیر میں مسلمانوں کے کئی دبستانِ فکر وجود میں آئے۔ اطلاق اور تفصیل میں فرق کے ساتھ‘ اصلاً یہ تین ہی ہیں۔ دبستانِ روایت‘ دبستانِ سر سید اور دبستانِ شبلی۔ دبستانِ روایت میں وہ افراد اور گروہ شامل ہیں جنہوں نے دین کے روایتی فہم کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔ تقلید کو ہم اس گروہ کا امتیازی وصف کہہ سکتے ہیں۔ دبستانِ سر سید کا تعارف یہ ہے کہ اس نے اپنے عہد کے علم کو معیار مانتے ہوئے دین کو اس سے ہم آہنگ ثابت کرنے کی سعی کی۔ دبستانِ شبلی سے مراد وہ طبقہ ہے جس نے دین کے بنیادی ستون اور روایت کو سامنے رکھتے ہوئے فکری آزادی کا علم اٹھایا اور امام مالکؒ کے اس قول کا مصداق بنا کہ اللہ کے آخری رسولﷺ کے استثنا کے ساتھ ہر کسی کے فہم کو قرآن مجید اور سنت کے ترازو میں تولنے کے بعد اس کی قبولیت یا عدم قبولیت کا فیصلہ کیا جائے گا۔

پہلے طبقے کی اگر ہم مزید گروہ بندی کریں تو انہیں دیو بندی‘ بریلوی‘ اہلِ حدیث وغیرہ کے عنوانات کے تحت منقسم کر سکتے ہیں۔ دوسرا طبقہ اپنی محدود رسائی کے باعث کسی ارتقا کا مظاہرہ کر سکا اور نہ وسعت کا۔ اس لیے تاریخی تسلسل میں اس کے ہاں گروہ بندی نہیں ہے۔ تیسرے دبستان کا امتیازی وصف چونکہ فکری آزادی ہے اس لیے یہ وسعت اور گروہ سازی کے امکانات سے مملو ہے۔ اسی وجہ سے اس کے ہاں کئی ضمنی دبستان وجود میں آئے۔ انہی میں ایک دبستانِ مودودی بھی ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ہاں سوچ کاجو زاویہ ایک مستقل نظامِ فکر میں ڈھلا اس کی پہلی کونپل مولانا ابو الکلام آزاد کے گلستانِ خیال میں پھوٹی۔ مولانا مودودی نے اسے دبستان میں بدل دیا۔پروفیسر خورشید احمد اس مکتبِ فکر کے سب سے بڑے شارح تھے۔ انہوں نے نہ صرف اس کی وضاحت میں مستقل لٹریچر تخلیق کیا بلکہ اس کے ساتھ مولانا کے تحریری سرمایے کو مدون اور مرتب کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس کی سب سے عمدہ مثال ‘اسلامی ریاست‘ ہے۔ ایک موضوع سے متعلق مولانا کی متفرق تحریروں کو انہوں نے اس مہارت سے جمع کیا کہ ایک مربوط تصنیف وجود میں آگئی۔ انگریزی خواں طبقے کو مولانا مودودی کے افکار سے روشناس کرانے میں بھی وہ سب سے نمایاں تھے۔ مولانا انہیں بہت عزیز رکھتے تھے۔ ان کے نام مولانا مودودی کے خطوط سے یہ تعلقِ خاطر اور قرب صاف جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔
یہ پروفیسر خورشید احمد کی زندگی کا ایک پہلو ہے جس کا تعلق فکرِ مودودی کی اشاعت سے ہے۔ یہ بھی ایک اہم خدمت ہے جو مسلم فکر کے ارتقا میں ان کی اہمیت کو بیان کرتی ہے لیکن ان کے نامہ اعمال میں صرف یہی ایک کارنامہ درج نہیں ہے۔ ان کا ایک بڑا کام پاکستانی سیاست کی تطہیر میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ ان کی موجودگی نے پارلیمان کے وقار میں اضافہ کیا۔ شائستگی کے ساتھ اختلاف کیسے کیا جاتا ہے‘ پارلیمان کے مباحث کس سنجیدگی اور غور و فکر کا تقاضا کرتے ہیں‘ پارلیمان کی رکنیت کیسے ایک ذمہ داری ہے‘ کوئی ان سوالات کے جواب تلاش کرنا چاہے تو سینیٹ میں ان کی تقاریر کو پڑھ لے۔ شاید ہی کسی رکن پارلیمنٹ نے اپنا یہ کردار اس سنجیدگی کے ساتھ نبھایا ہو۔ وہ اراکینِ پارلیمان کے لیے ایک رول ماڈل تھے اور اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں ہو گا۔ میری خواہش ہو گی کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری افیئرز (PIPS) کے تربیتی نصاب میں ان تقایر کو شامل کیا جائے تاکہ لوگ سیکھیں کہ پارلیمان کی رکنیت محض اعزاز نہیں‘ ایک سنجیدہ قومی ذمہ داری بھی ہے۔
سیاست میں ان کا کردار صرف پارلیمان تک محدود نہیں۔ ہم نے انہیں ٹی وی مذاکروں میں گفتگو کرتے ہوئے سنا۔ سیاسی مذاکرات میں حصہ لیتے ہوئے دیکھا۔ وہ اہم حکومتی منصب پر بھی فائز رہے۔ اپنے ہر کردار میں انہوں نے سیاست کے وقار میں اضافہ کیا۔ انہوں نے اپنے موقف کو دلیل سے منوایا‘ بلند آہنگی سے نہیں۔ سیاست کی خار دار وادی میں انہوں نے اپنے دامن کو جس طرح محفوظ رکھا اس سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی چاہے تو آج بھی اندھیرے میں روشنی کے چراغ جلا سکتا ہے۔ وہ حسنِ خلق کے ساتھ حسنِ کردار کا بھی نمونہ تھے۔

پروفیسر صاحب کی ایک بڑی قومی خدمت انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز (IPS) کا قیام ہے۔ ہمارے ہاں قومی معاملات پر سنجیدہ غور و فکر کی کوئی مستقل روایت موجود نہیں ہے۔ جدید دنیا میں تھنک ٹینک کا جو تصور سامنے آیا اس کو اگر کسی نے پاکستان میں مجسم کیا اور پھر اس کے استمرار کو بھی یقینی بنایا‘ ان میں خورشید صاحب اولیں لوگوں میں سے ہیں۔ انہوں نے اس ادارے میں نہ صرف پاکستان بھر سے دانش کو جمع کیا بلکہ اس کا اہتمام بھی کیا کہ اس ادارے کی معرفت اہلِ پاکستان دنیا بھر کے اہلِ علم کی تقریر و تحریر سے استفادہ کریں۔ اس کے شواہد میں ادارے کے شائع کردہ کتب اور جرائد شامل ہیں جو اَب قومی سرمایہ ہیں۔ آئی پی ایس کی سرگرمیوں کا تنوع خورشید صاحب کی وسعتِ نظر اور وژن کا اظہار ہے۔

مجھے ان کی شفقت کا براہِ راست تجربہ ہوا۔ وہ میرے ماموں ڈاکٹر ممتاز احمد مرحوم سے اپنے قلبی لگاؤ کی وجہ سے مجھے بھی عزیز رکھتے تھے اور میرے طالب علمانہ مشاغل کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ممتاز صاحب کی علمی شخصیت کی تشکیل میں پروفیسر صاحب کا کردار بنیادی ہے۔ ممتاز صاحب کو اوائلِ جوانی ہی میں انہوں نے اپنی علمی سرگرمیوں سے متعلق کر لیا جس میں ‘چراغِ راہ‘ کی مجلسِ ادارت بھی شامل تھی۔ ممتاز صاحب ہی نہیں‘ معلوم نہیں کتنے نوجوان ہیں جن کی صلاحیتوں کو انہوں نے جلا بخشی اور انہیں ایک بامقصد زندگی کا شعور دیا۔ ان کے حلقہ احباب میں خرم مراد اور ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری جیسے گلہائے رنگا رنگ تھے۔ ان سب نے ہماری تہذیب کو ثروت مند بنایا۔ اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرمائے اور ان کے حسنات کو قبول کرے۔
خورشید صاحب کا بزمِ حیات سے اُٹھ جانا جماعت اسلامی ہی کا نہیں پاکستانی قوم اور عالمی سطح پر مسلم ملت کا نقصان ہے۔ ایسے لوگوں کا خیر صرف ایک دائرے تک محدود نہیں ہوتا۔ وہ ایک معاشرے اور عہدکو متاثر کرتا ہے۔ یہ اب معاشرے کا ظرف ہے کہ اس خیر کو کتنا سمیٹ سکتا ہے۔ علامہ اقبال دنیا سے رخصت ہوئے تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے سید نذیر نیازی کو تعزیتی خط لکھا۔ اس میں انہوں نے لکھا کہ میں اس سوچ میں تھا کہ کس سے اقبال کی تعزیت کروں‘ پھر مجھے خیال ہوا کہ ہم سب ہی اس تعزیت کے مستحق ہیں۔ میں بھی سوچتا رہا کہ میں کس سے بات کروں گا۔ محترم ڈاکٹر انیس احمد صاحب سے؟ برادرم ڈاکٹر خالد رحمن صاحب؟ پھر مجھے خیال ہوا کہ اس وقت ہم سب تعزیت کے مستحق ہیں کہ یہ دکھ مشترکہ ہے۔ دل اس پر افسردہ ہے کہ ‘ترجمان القرآن‘ میں اب ان کی کوئی نئی تحریر پڑھنے کو نہیں ملے گی۔ اس دکھ کے ساتھ مگر اطمینان کا احساس بھی ہے کہ وہ ایک شاندار اور بامقصد زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ اپنی شعوری زندگی کا شاید ایک لمحہ بھی انہوں نے ضائع نہیں کیا۔ جو آدمی محض پانچ منٹ کا قیلولہ کرکے ایک بار پھرکام پر لگ جائے اس سے زیادہ بامعانی زندگی کس کی ہو گی؟ مجھے اپنے رب کی رحمت سے پوری امید ہے کہ فرشتوں نے ان کا استقبال ایک خصوصی مہمان کے طور پر کیا ہو گا جسے قرآن مجید نے ‘نفس مطمٔنہ‘ کہا ہے۔