ہم بھولے ہیں

شہزاد منیر احمد

بھارت کا بٹوارہ کر کے جب اس میں سے مسلمان ریاست” پاکستان ”کا الگ سے خود مختار STATUS تسلیم کر لیا گیا تو انگریزوں کی ہر چند یہ کوشش تھی کہ بھارت اور پاکستان کا مشترکہ گورنرجنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہی کو بنایا جائے۔ اس بندوست کے تحت نو مولود ریاست پاکستان پر پڑنے والے منفی اثرات کا بخوبی ادراک صرف بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ہی کو تھا۔ لہذا انہوں نے اس تجویز کو یکسر مسترد کر دیا اور خود بجائے وزیراعظم پاکستان بننے کے گورنر جنرل پاکستان بننا پسند کیا۔ قائد اعظم کا یہ جمہوری اور اصولی فیصلہ انگریزوں کی بہت بڑی شکست اور توہین کے مترادف تھا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس بے عزتی کا بدلہ ریاست جموں و کشمیر میں اپنی خباثت کا پیچیدہ کھیل کھیل کر لیا۔ انگریز بر صغیر سے یہ بے توقیری ساتھ لے کر چلے تو گئے مگر بھولے نہیں۔قائد اعظم کی رحلت کے بعد آنے والی حکومتیں اس واقعہ کو بھولتے بھولتے بھول گئی ہیں لیکن یہود ونصاریٰ نہیں بھولے اور اپنے شیطانی رویے، دنیا بھر میں مسلم مخالفت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
لاہور میں متنازعہ جگہ پر عارضی طور پر نماز کی جگہ مختص تھی جس پر اختلاف بڑھا اور عدالت تک جا پہنچا۔ 1917 میں ایمان کی حرارت والوں نے منصوبے کے مطابق راتوں رات اس عارضی نماز گاہ کو باقاعدہ ایک مستند شکل کی مسجد میں بدل دیا۔ اسلام کی بنیاد پر متحد ہو کر دشمنوں کے خلاف میدان میں اتر کر ہر صورت کامیاب ہونے والے مسلمانوں کی طاقت اور جذبہ سے یورپ اور یورپی مذہب خوب آگاہ ہیں۔ انگریز نہیں بھولے تھے کہ مسلمان اپنے دین اسلام سے کس قدر محبت رکھتے اور کس کس طرح کی قربانی دے سکتے ہیں۔ وقت گزر گیا، مسلمان بھول گئے ہیں، مگر یہود و نصارٰی نہیں بھولے۔
پھر 26 اپریل 1929 میں لاہور کے نوجوان مسلمان لڑکے غازی علم دین شہید نے ایک پبلشر شاتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، راجپال کو قتل کر دیا۔ انگریزوں کو مسلمانوں کا توہین رسالت پر شدید رد عمل بھی نہیں بھولا، البتہ مسلمان انگریزوں کی کینہ پرور فطرت کو بھول چکے ہیں، یہود نصاریٰ نہیں بھولے۔
ہمارے ایک سیاستدان نے بہت پہلے کہا تھا کہ ہاتھی چلتا آہستہ ہے لیکن سوچنے میں بہت تیز ہے اور اس کی یادداشت بھی بلا کی ہے۔ ان کا اشارہ امریکہ کی طرف تھا۔ امریکہ ایک ایسے مکار دوست کی طرح ہے جو آپ کی ہر ہاں میں ہاں ملاتا ہے مگر کرتا اپنی مرضی ہے۔ راقم کی رائے امریکہ کے بارے میں یہی ہے کہ وہ( SIR NOکہتا نہیں۔ کام کر کے دیتا نہیں۔ سوائے اسرائیل کے، دنیا بھر میں وہ کسی کے ساتھ مخلص ہو کر نہیں چلتا۔ بیرونی ممالک کی پالیسیوں میں کیڑے بتاتا ہے، بڑی چالاکی سے منصوبہ تیار کرتا اور پھر سفارت، تجارت اور حمایت کے بہانے ان ممالک میں پہنچتا ہے، اپنی خبیث ثقافت کا رنگ بڑی ہنر مندی سے استعمال کر کے وہاں کا امن و چین لوٹتا ہے۔ وہاں کے مقامی عوام اور قیادت کو آزادی سے محروم کیے رکھتا ہے۔ مسلم امہ کو نہ تووہ ترقی کی راہ پر چلنے دیتا ہے، نہ امن قائم ہونے دیتا ہے اور نہ سیاسی استحکام پیدا ہونے دیتا ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنی حیثیت اور عہد قدیم بھول چکا ہے اس لیے وہ پسماندگی اور ذلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہود ونصاریٰ مگر مسلمانوں کے ہاتھوں اٹھائی ہوئی کسی بھی ہزیمت کو نہیں بھولے۔فلسطین کی غزہ پٹی پر حالیہ جنگ اسی دیرینہ مخاصمت اور دین دشمنی کا شاخسانہ ہے۔ اقوام متحدہ میں سب سے پرانا مقدمہ مسئلہ کشمیر زندہ مثال ہے۔
1947 میں جب بھارت کی تقسیم ہوئی تو ریاست جموں و کشمیر کے حکمران مہا راجہ ہری سنگھ کا یہ ارادہ تھا کہ وہ اپنی آزاد خودمختار ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت برقرار رکھتے ہو ئے نہ بھارت سے الحاق کرے گا نہ پاکستان سے۔ لیکن لارڈ ماؤنٹ بیٹن قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں اٹھائی گئی سبکی کا بدلہ لینے کیلئے مہا راجہ ہری سنگھ کو یہ کہہ کر ڈرایا کہ بھارت بہت بڑا ملک ہے وہ خود مختار ریاست کشمیر کیلئے یا پاکستان سے الحاق کرنے کی صورت میں اس قدر مشکلات پیدا کر دے گا کہ تمہارے لیے ریاست کا وجود بر قرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ ساتھ ہی ہندوستان کو شہہ دے کر اس کی فوجیں جموںوکشمیر میں داخل کرا دیں۔ اس طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ شروع ہوگئی۔ کشمیری عوام نے اپنی آزاد ریاست پر اس غاصبانہ قبضے پر کما حقہ مسلم جذبہ حریت کے تابع شدید مزاحمتی جنگ لڑی اور بھارتی افواج کا بڑی جرات و دلیری سے مقابلہ کیا اور دشمن کو چھٹی کا دودھ یا دلا دیا۔

جنگ میں ہندوستان کی شکست دیکھتے ہوئے، ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کو مشورہ دیا کہ ہندوستان یہ جنگی معاملہ اقوام متحدہ میں لے جائے۔ چونکہ پاکستان نومولود ریاست ہونے کی وجہ سے اقوام متحدہ میں مطلوبہ حمایت حاصل نہ کر سکنے کی بنا پر مقدمہ ہار جائے گا۔ لیکن وہاں پر پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ سر محمد ظفراللہ خان نے زمینی حقائق کی بنیاد پر اس قدر بھرپور اور مدلل ثبوت کے ساتھ اور موثر انداز میں مقدمہ پیش کیا کہ اقوام متحدہ ہندوستان کی جموں وکشمیر میں جارحانہ کاروائیوں کا جاں کر دنگ رہ گئی اور مذمت کرنے پر مجبور ہو گئی۔۔ اقوام متحدہ نے اس مقدمے کو اپنے فورم سے حل کرنے کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے لی جو آج تک اقوام متحدہ میں زیر التواہے۔

پاکستان کے ساتھ کتنے ہی معاہدے کیے، (سیٹو سنٹو، جنگی طیاروں معراج اور پھر F16) کی فراہمی کے معاہدات مگر 1965 کی جنگ کے دوران عین لڑائی میں دھوکہ دے گیا اور معراج طیاروں کے ضروری Spares ضمنی اور اضافی پرزے فراہم کرنے سے مکر گیا۔ پاکستان امریکہ کی یہ خباثت و مکاری بھول چکا، مگر یہود و نصارٰی نہیں بھولے کہ” مسلمان ” ان کے دشمن ہیں اور اگر متحد ہو گئے تو وہ سب کچھ ہمارا ملیا میٹ کر دیں گے۔اسلام کی قوت سے وہ آگاہ ہیں، اسلام کا نام سن کر وہ لرزنے لگتے ہیں لیکن مسلمانوں کا رویہ اور بد مستیاں دیکھ کر وہ مطمئن ہو جاتے ہیں کہ۔ ” یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں”
پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ امریکی مداخلت اور ہمارے وہ سیاستدان ہیں جو ذاتی مفادات کی خاطر یہاںامریکہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ امریکی زبان بولتے اور ان کے نظریہ حیات و سیاست کی ترجمانی کرتے ہیں۔فلسطین اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ اسی امریکی ورلڈ آرڈر کا حصّہ ہے کہ ہر مسلمان ملک کو باری باری فلسطینی مسئلے کے بہانے سے جارحیت کا نشانہ بنا کر سبق سکھانا ہے۔امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن امریکی صدر کا خصوصی پیغام لے کر اسرائیل پہنچے اور بآواز بلند۔۔ کہا کہ امریکہ آپ کو ہر طرح کی مدد، سامان اسلحہ اور رقم فراہم کرے گا۔ آپ بے فکر ہو کر جنگ لڑیں۔ مسلم ممالک کی فکر نہ کریں انہیں ” ہم سنبھال لیں گے”
امریکہ کے اس عہد اور نظریہ کہ” وہ مسلمانوں کو سنبھال لیں گے” تسلیم کرنا پڑتاہے۔ یہود و نصارٰی کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے ملک عراق کا حشر ہمارے سامنے ہے۔کس طرح اس مکمل جھوٹے بیانیے پر ” کہ عراق کے پاس دنیا میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والا ایٹمی اسلحہ و بارود موجود ہے ” لہٰذا عراق کو اس تباہ کن منصوبے سے روکنے کیلئے اس پر حملے کی اجازت اقوام متحدہ سے حاصل کی اور عراق کو ریت کے ٹیلوں میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔ بعد میں برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے بلند آواز اور ڈھٹائی سے تسلیم کیا کہ ہمیں عراق کے بارے میں غلط اطلاعات دی گئی تھیں۔ مگر عراق کی تباہی کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کاروائی نہیںکی گئی۔ مسلمان اسے بھول گئے تو امریکہ نے اگلا ہدف افغانستان منتخب کر لیا

امریکہ میں ہونے والے/11 9کے ڈرامے میں اسامہ بن لادن کو ملوث بتا کر، جب وہ افغانستان میں موجود تھا اسے گرقتار کرنے کے بہانے سے مسلمان ریاست افغانستان پر NATO ممالک کی معاونت سے امریکہ نے افغانستان میں جنگ چھیڑ کر افغانستان کا تورا بورا بنا دیا۔ بیس سالہ جنگ میں افغانستان کی تباہی بربادی کے علاوہ پاکستان کے 80 ہزار سے زیادہ لوگ اس جنگ میں مارے گئے۔ اس قتل عام کا لہو بھی امریکہ کے سر ہے لیکن CARES.. WHO یہود و نصارٰی کے اس ظلم و بربریت کو بھی مسلمان بڑی رضامندی اور خاموشی سے پی گئے ہیں۔ لیبیا کو مسلمان ملک ہونے پر جس طرح اس کے بڑھتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کا جو حشر نشر کیا گیا اور اسے عشروں پیچھے جا دھکیلا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔۔ چونکہ مسلمان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سارے مظالم کو نظر انداز کرتے جاتے ہیں۔ اس لیے امریکہ بہادر نئی ورلڈ آرڈر کی منصوبہ بندی میں مصروف ہو جاتا ہے۔
22 مارچ 2022 میں سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نے او آئی سی کے وزرائے خارجہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” او آئی سی” فلسطین اور کشمیر کے مسائل پر ناکام ہو چکی ہے۔ ہمارے تمام ممالک کی اپنی اپنی خارجہ پالیسی ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جس طرح فلسطین میں دن دیہاڑے ڈکیتی ہو رہی ہے،اگر ہم متحد نہ ہوئے تو ہم کہیں کے نہیں رہ جائیں گے۔ ” اسلامی امہ تو اس موثر تجویز کو کہہ سن کر مطمئن ہو کر بیٹھ گئی مگر یہود و نصاری نے اسے خطرے کہ گھنٹی قرار دیتے اپنے حواریوں کو ہر جگہ چوکنا کر دیا۔

15 نومبر 2023 تک شہید ہونے والے فلسطینیوںکی تعداد 11000 سے تجاوز کر گئی ہے)۔ غزہ پٹی میں رہائشی عمارتوں بشمول ہسپتالوں کے، خوراک، گیس پانی بجلی کی مکمل نایابی پر بھی یہود نصاری اور اہل یورپ کے کلیجے ٹھنڈے نہیں ہوئے۔ فرانس کے صدر میکرون نے اسرائیلی افواج کے ہاتھوں صرف بچوں کی شہادتوں پر مذمت کی تھی کہ پورا یورپ اس کے پیچھے پڑ گیا تو میکرون کو اپنا بیان واپس لینا پڑا۔
ظلم و ستم اور انسانی جانوں کی بے مثال قتل عام پر بھی او آئی سی نے اپنا اجلاس جنگ کے 34 دنوں بعد بلایا تھا۔ اجلاس میں الجزائر نے یورپی ممالک سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی قرارداد پیش کی جسے کثرت رائے سے مستردکر دیا گیا۔ اس سے امت مسلمہ کے بے حسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایسے حالات میں مسئلہ کشمیر کی طرف کوئی مناسب و موثر ردعمل کی امید او آئی سی سے رکھنا، راقم کے قریب خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ میرے مطابق کشمیری عوام اور تحریک آزادی کشمیر کے قائدین کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے۔ انہیں اپنے اپنے چھوٹے چھوٹے نظریاتی اختلافات کو د ورکر کے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا ناگزیر ہو گیا ہے ۔تحریک آزادی کشمیر کے جانثاروں نے کوئی کم قربانیاں نہیں دی ہیں مگر ابھی تک منزل قریب نہیں آئی۔ہمارے گھر بار لٹ گئے، کاروبار تباہ ہو گئے۔ہمارے نوجوان شہید ہوئے۔ ہماری خواتین نے ظالم ہندوؤں کے ہاتھوں کیا کیا شرمناک اذیتیں نہیں جھیلیں، لیکن ہمیں آزادی کا سفر جاری رکھنا ہے۔
تحریک آزادی کشمیر کے نتیجے میںپیش آنے والے مناظر پر، کشمیری دانشور و قائد ، محمد فاروق رحمانی نے اپنی کتاب ” کشمیر کے خونچکاں ماہ و سال ” میں لکھا ھے۔
طاق میں جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں
چل دئیے بیٹے سفر پر گھر میں مائیں رہ گئیں
ہو گیا گھر ہی خالی اب ظالموں کے ظلم سے
آنگنوں میں گھومتی پھرتی ہوائیں رہ گئیں۔
میرے عزیز ہم وطنو، میری بات کو غور سے سن رکھیں کہ باعزت زندگی گزارنے کیلئے اپنی خودی میں تازہ حرارت اور تب و تاب پیدا کریں۔اسی صورت میں ہم نہ صرف یہ کہ اپنے دشمنوں اور مخالفین کو زیر کر سکیں گے بلکہ دنیا میں انقلاب برپا کر سکیں گے۔اس لیے یہ عمل ناگزیر ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد و استحکام پیدا کریں۔ باہمی نفاق سے گریز کریںاور یہ کہ احکام خداوندی کی پیروی لازمی کریں کہ یہی ہمارا اثاثہ ہے اور ہمارے لئے سربلندی و نجات کا واحد راستہ ہے۔

و ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون
تقدیر کے پابند، نباتات و جمادات
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند

شہزاد منیر احمد

شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں