ہم! سنجیدہ کب ہوں گے۔۔۔۔؟

محمد احسان مہر

بھارت جس دیدہ دلیری سے کشمیریوں کی نمائندہ تنظیموں پر پاپندی لگا رہا ہے، اور مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کر رہا ہے کیایہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے لیے نوٹس لینے کے لیے کافی ہوگا یا بھارتی اقدامات پر عالمی سطح پر کوئی روک بھی لگائی جاسکے گی،یقینا ایسا ہی ہوتا اگر ہم!! سنجیدہ ہوتے۔ مگر افسوس، ہم جس طرح قومی مسائل کو نظر انداز کر کے ذاتیات میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ کشمیریوں سے زیادہ آج ہمیں خود پر ترس آ رہا ہے، اور یہ سب کچھ 77برسوں سے کشمیریوں کے سامنے ہو رہا ہے۔
ایک قابل رحم قوم کب کسی کے دکھوں کا مداوا کر سکے گی۔؟ جو قوم اپنا مقصد حیات بھول گئی ہو وہ کسی کی منزل کی نشاندہی کیسے کر سکے گی۔۔۔؟ اک ستم رسیدہ قوم کب کسی کی سسکیوں اور آہوں کو سن سکے گی۔؟ ایسی قوم جو ہر سانحہ کے بعد بیدار ہوتی ہے اور پکار اٹھتی ہے کہ اس سانحہ نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں اور ہم آئندہ کسی ایسے سانحہ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اداروں کے اندر ادارے ، وزیروں کے نیچےمشیروں کی فوج ظفر موج کے لشکر اور کمیشن کے اندر کمیشن بنتے رہے ملک ٹو ٹتے رہے انصاف کی مسندوں پر سوال اٹھتے رہے گلے کٹتے رہے۔ ملکی اصلاح و احوال کا کام کرنے والے ادارے ہی عوامی احساسات کچلتے رہے، ترقی و خوشحالی اور روشن مستقبل کی نوید سنا کر مہنگائی، بیروزگاری اور عدم تحفظ کے اندھیرے نوجوانوں کو ڈستے رہے۔دیار غیر میں امید کی کر ن کی تلاش میں بحری بیڑے ڈوبتے رہے۔ ماؤں کے لاڈلوں کے جنازے اٹھتے رہے، روٹی، کپڑا اور مکان کی آس پر جاگیر داروں کے محل اور پلازے بنتے رہے، ماؤں کی گود میں معصوم بچے بلکتے سسکتے، تڑپتے اور مرتے رہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان استحصالی نظام کو کوستے رہے۔ کشمیر کمیٹی کے نام پر سفارتی مشن پلتے رہے۔لیکن مجال ہے کہ ارباب اقتدار کی آنکھوں میں شرمندگی کے آثار ہوں یا ماتھے پہ پسینہ۔ لیکن پھر بھی کمال ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بھارت نے ریاست جموں وکشمیر کاانتظامی آئینی اور قانونی حلیہ بگاڑ دیا اور آپ خاموش ہیں۔ آخر کیوں۔۔۔؟

چند ذاتی مفادات کے پجاریوں نے ہر دور میں قومی مسائل کے حل کو نظر انداز کر کے قوم کی اُمنگوں کا خون کیا، قوم سے ایک مرلہ زمین کی قوت خرید چھین کر کنالوں کے بنگلے اور سوسائیٹیوں کو تعمیر کیا۔ قوم کے ہاتھ میں ورلڈ بنک اور آئی، اہم،ایف کا کشکول تھما کر خود اعتمادی اور خود انحصاری کا سبق فراموش کیا۔ 77سال قوم کا معیار زندگی بہتر کرنے کے دعویداروں نے اپنی آنے والی دوسری اور تیسری نسلوں کے لیے اربوں کے اثاثے جمع کر لیے لیکن قومی مسائل کے حل کے لیے کبھی سنجیدہ نظر نہیں آئے۔ قوم کے نام نہاد لیڈر قوم کھائی کی جانب دھکیل کر خود بلند یوں کی طرف محو سفر رہے۔77 سال سے قومی سرمایہ کی لوٹ میں ملوث جن کرداروں کے پیٹ کی آگ نہ بجھ سکی۔ وہ کسی کے تن پہ لگی آگ کی حدت کیسے محسوس کریں گے۔ کشمیری قوم 77 سال سے پاکستانی حکمرانوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کی لوری سُن رہی ہے اور وہ کھلی آنکھوںسے اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی طرف دیکھ رہی ہے. اب دیکھنایہ ہے کہ بدلتی ہوئی عالمی ترجیحات کے تناظرمیں علاقائی مسائل کے حل کے لیے ہم! سنجیدہ کب ہوں گے۔۔۔۔؟

محمد احسان مہر