ہم سید علی گیلانی ؒکے مقروض ہیں

بڑی تمنا تھی کبھی ان سے ملوں، عقیدت سے ان کے ہاتھ تھام لوں

ان کے بزرگانہ لمس کو محسوس کروں ، اپنی محبت اور عقیدت کے اظہار کے لئے ان ہاتھوں پہ بوسہ دوں

ان کا موقف انتہائی جاندار، دوٹوک اور واضح تھا، وہ کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتے تھے

ہم سید علی گیلانیؒ کے مقروض ہیں ۔ہم ان سے وفا نہ کرسکے

حمید اللہ عابد

سید علی گیلانی ؒسے میری کبھی ملاقات نہ ہو سکی۔ نوے کی دہائی میں بس فون پر بات ہوئی یا ٹیلی فونک پریس کانفرنس میں سوال جواب ہوئے ۔ بڑی تمنا تھی کبھی ان سے ملوں، عقیدت سے ان کے ہاتھ تھام لوں اور ان کے بزرگانہ لمس کو محسوس کروں ، ان سے اپنی محبت اور عقیدت کے اظہار کے لئے ان ہاتھوں پہ بوسہ دوںاور موقع ملے تو ان سے انٹرویو بھی کروں ۔یہ ارمان دل میں لئے جولائی 2001ء کے وسط میں دلی گیا ۔ جنرل پرویز مشرف ہندوستان یاترا پر تھے ۔صحافیوں کی بڑی تعداد اس سرکاری دورے میں ان کے ساتھ تھی مگر ہم نے اپنے خرچ پر جانے کا فیصلہ کیا ۔دلی میں مختصر قیام کے دوران ہم ایک ایک لمحہ گن گن کر گزار رہے تھے کہ شاید سید سے ملاقات کا اعزاز حاصل ہو۔
پس منظر یہ تھا کہ جنرل صاحب نے خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ حریت کانفرنس کے لیڈروں سے ملنا چاہتے ہیں ۔ بھارت کا اصرار تھا کہ اس ملاقات سے گریز کیا جائے ۔ رستہ نکالا گیا کہ پاکستان کا ہائی کمیشن ایک عصرانہ دے گا جس میں حریت کے تمام لیڈروں کو مدعو کیا جائے ۔ سفارتی آداب کے تناظر میں بھارت نے پاکستان کو منع کیا کہ ایسا نہ کریں لیکن جنرل پرویز مشرف کے اصرار پر پاکستانی ہائی کمیشن نے حریت کے لیڈروں کو مدعو کر لیا ۔ جوں جوں پیش رفت ہو رہی تھی دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں ۔ دورے کے پہلے مرحلے میں ہی بدمزگی پیدا ہو گئی تھی ۔ بھارت ایک ایسے جنرل کا استقبال کر رہا تھا جس نے کارگل کی جنگ چھیڑی تھی ۔اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے اس جنگ میں پاکستان کے بھاری نقصان پر تحقیقاتی کمیشن کے قیام کی کوشش کی تھی ان کی اپوزیشن سڑکوں پر ملین مارچ کر رہی تھی کہ وزیراعظم کو اس معاملے سے روکا جائے ایسے میںآرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم کو برطرف کیا پھر گرفتار کیا اور جیل میں ڈال دیا تھا۔ اب وہ وزیراعظم جس نے واجپائی کو امن مذاکرات کے لئے لاہور بلایا تھا جلاوطن تھا اور جنرل صاحب بھارت یاترا پر تھے ۔ ظاہر ہے ہندوستانی قیادت میں بے چینی تھی اور وہ کشمیری حریت پسند لیڈروں سے مشرف کی ملاقات کو روکنا چاہتے تھے ۔ سفارتی دبائو میں آکر بھارت کشمیری لیڈروں کوبلانے پر رضامند ہو گیا۔سید علی گیلانی نے سری نگر میں اخبارنویسوں سے کہا وہ دلی جائیں گے اور ملاقات میں شریک ہوں گے ۔

چودہ جولائی 2001ء کو اس عصرانے سے کچھ پہلے پاکستان ہائی کمیشن کے ایک کمرے میں جنرل پرویز مشرف اور حریت لیڈر پہلی بار ملے ۔ پچیس تیس منٹ کی یہ ملاقات خفیہ رکھی گئی ۔ عبدالغنی لون، پروفیسرعبدالغنی بھٹ اور میر واعظ مولوی عمر فاروق اس ملاقات میں شریک تھے ۔ لبریشن فرنٹ نے بائیکاٹ کیا تھا ۔ادھر عصرانے میں تمام مہمان منتظر تھے کہ جنرل پرویز مشرف کب تشریف لاتے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ ہندوستانی اخبارات میں اگلے روز اس بے ادبی پر کافی تنقید ہوئی کہ وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی عصرانے میں وقت پر پہنچ گئے تھے اور اور انہیں جنرل پرویز مشرف کا انتظار کرنا پڑا تھا جو کشمیری لیڈروں سے تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ کیا اس ملاقات میں سید علی گیلانی شریک تھے ؟ اس بارے میں پاکستان کا کہنا تھا کہ بھارت نے انہیں اجازت نہیں دی تھی البتہ دلی کی جامع مسجد کے شاہی امام نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ سیدعلی گیلانیؒ کے ہمراہ اس عصرانے میں شریک تھے ۔ میں پاکستانی اخبارنویسوں کے ساتھ اس عصرانے میں شریک تھالیکن سید علی گیلانی سے ہماری ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔ پاکستانی ہائی کمیشن کے اس بڑے کمرے میں مہمانوں کی تعداد گنجائش سے بہت زیادہ تھی اور ہم ایک کونے میں محصور رہے باوجود کوشش کے ہم اس طرف نہیں جا سکے جہاں دونوں ملکوں کے سربراہان اور خاص مہمان موجود تھے۔

ہم دلی سے آگرہ چلے گئے اور واپس دلی آکر میں نے مزید قیام کیا تاکہ سید سے ملاقات کا کوئی رستہ نکل سکے لیکن کشمیری قیادت کو زیادہ دن دلی میں نہیں رہنے دیا گیا تھا اور واپس بھیج دیا گیا تھا۔ ہم ایک روز دلی کے بس اڈے جا نکلے جہاں ایک کنڈکٹر جموں جموں کی آوازیں لگا رہا تھا ۔ میں اس کے پاس گیا دھیرے سے کان میں کہا ــــــــــ سرینگر لے جا سکتے ہو؟ کنڈکٹر نے اوپر سے نیچے تک میرا جائزہ لیا پھر پوچھا کہاں سے ہو ، میں نے کہا پاکستان سے آیا ہوں ۔سرگوشی میں بولا جموں تک خود لے جائوں گا وہاں سے سری نگر بس پر بھجوا دوں گا لیکن آگے تم خود ذمہ دار ہوںگے۔ ہمارے ویزے پر صرف دلی آگرہ کی اجازت تھی لیکن کچھ احباب چپکے سے پنجاب کھسک گئے تھے جہاں انہوں نے اپنے آبائی علاقوں میں ملاقاتیں بھی کی تھیں اس لئے امکان موجود تھا کہ ہم بھی سری نگر جا سکیں ۔ باہم صلاح ومشورے کے دوران زیادہ تجربہ کا ر دوستوں نے ایسا رسک لینے سے منع کیا۔ یوں سید سے ملاقات کی خواہش تو پوری نہ ہو سکی لیکن دو ملکوں کے سربراہان کے درمیان آگرہ ملاقات کے پس منظر میں یہ تو واضح ہو گیا تھا کہ سیدعلی شاہ گیلانی سب سے قدآور حریت لیڈر تھے۔ واجپائی اور مشرف سے بڑے لیڈر۔پورا ہندوستانی میڈیا انہیں موضوع بنائے ہوئے تھا اورٹی وی ٹاک شو میں یہی موضوع سرفہرست تھا ۔

1991ء میں جب پہلی بار سیدصاحب کو سنا تھا تو میں ششدر رہ گیا تھا ۔آواز میں ایسی کڑک رعب اور دبدبہ کہ ہندوستانی قیادت کو للکارتے تو ایک سماں باندھ دیتے ۔ اپنوں سے بات کرتے تو دل موہ لیتے ۔ اس بڑھاپے میں بھی جذبے جواں تھے ۔ قید وبند کی صعوبتوں نے ان کی کمر میں خم پیدا نہیں کیا تھا۔ اس دور میں مولوی عمرفاروق اور یٰسین ملک جیسے نوجوان موجود تھے شبیر شاہ عبدالغنی لون اور عبدالغنی بھٹ جیسے ادھیڑ عمر لیڈر بھی موجود تھے لیکن سیدعلی گیلانی ؒان نوجوانوں کی موجودگی میں بھی اپنی ولولہ انگیز قیادت کے سبب زیادہ مقبول تھے۔ ان کا موقف انتہائی جاندار دوٹوک اور واضح تھا وہ کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتے تھے اس لئے جب بھی کشمیریوں سے مخاطب ہوئے ، ہندوستانی قیادت سری نگر جموں سے لے دلی تک سخت جزبز ہوتی۔

مجھے ذاتی طور پر مشاہدہ ہوا کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو سیدعلی گیلانیؒ کا نام آتے ہی انتہائی مودبانہ رویہ اختیار کرتے ۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں ان کے قریبی حلقے بتاتے ہیں کہ سیدگیلانیؒ کی رائے پر وہ کوئی بحث نہیں کرتے تھے اور بات سمیٹ دیتے تھے کہ اس معاملے میں گیلانی صاحب کی رائے کو مقدم رکھا جائے ۔اتنی عزت وقار اور احترام وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو نڈر بے باک اور کمٹمنٹ کے پکے ہوتے ہیں اور پوری زندگی کبھی اپنے موقف سے انحراف نہیں کرتے ۔
ہم سید علی گیلانیؒ کے مقروض ہیں ۔ہم ان سے وفا نہ کرسکے لیکن ہم بے بس اور مجبور پاکستانی اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہیں کہ وہ انکے درجات بلند کرے اور انہوں نے جس مقصد کے لئے پوری زندگی قربان کی یعنی ہندوستان سے آزادی ۔۔ہم اس منزل تک پہنچ سکیں اور سیدعلی گیلانی کے اس خواب کو تعبیر دے سکیں ۔ آمین