
راجہ ذاکر خان
ہندوستان کے اندر آج بھی زمانے جاہلیت سے بھی بدترین ذات پات کا نظام راج ہے ،چھوٹی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے کروڑ وں انسان شدید مشکلات کا شکار ہیں،ہندوستان کی آبادی کا چند فیصد برہمنوںنے پورے ہندوستان پر قبضہ کیاہوا ہے ،جس کی وجہ سے چھوٹی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے انسانوں کی زندگیوں کو اجیرن بنادیاگیاہے ۔ہندوستان کے اندر چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والوں کو بنیادی انسانی حقوق تک بھی حاصل نہیںہیں،سول سروس میں اہم عہدوں پر برہمن فوج کے اہم عہدوںپر برہمن ،لوک سبھا میں برہمن، عدالتوں کے اندر برہمن، پولیس میں برہمن، دیگر اہم جگہوں پر برہمن ،ہندوستان کے اندر اپنے ہی مذہب سے تعلق رکھنے والے دیگر لوگوں کے ساتھ یہ سلوک برہمن روارکھے ہوئے ہیں۔دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ تو اول روزسے برہمنوں کی کھلی دشمنی چلی آرہی ہے۔ہندوستان کا سماج ریت کی دیوار ہے۔ کسی بھی بڑے جھٹکے سے زمین بوس ہوجائے گا۔جس سماج میں تہذیب یافتہ دور کے اندر بھی اس حد تک تفریق ہواس سماج کا انجام اظہر من الشمس ہے۔برہمنوں نے انگریزوں کے دور میںبھی ان سے ساز باز کرکے عہدے حاصل کیے اور چھوٹی ذاتوںکواقتدار کے قریب نہیں آنے دیا۔محرومیوں اور مایوسیوں کی گہری کھائی میں گرتا دیکھ کر چھوٹی ذاتوں اورریاستوں نے علم بغاوت بلند کیا اور ان کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں اوراپناحق ما نگ رہے ہیں۔اقتدارکو اپنی ذاتی جاگیر باقیوںکو صرف خدمت گزاری کے قابل سمجھنے والے برہمن طاقت کی بنیادپر ان تحریکوں کو کچلنے کی سازش کررہے ہیںجو ان کے لیے اور خطرناک بنتی جارہی ہیں۔
ہندوستان کا سماج پہلے ہی آگ میں جل رہاتھا اوپر سے نریندرمودی نے جلتی پر تیل ڈال دیا۔نریندرمودی نے ہندوتوا اور آر ایس ایس کے ایجنڈے کو سرکاری پرستی میں آگے بڑھانے کا اعلان کردیا اور کہاکہ ہندوستان کے اندر تمام اقلیتوں کوہندو بنایا جائے گا اور ہندوستان کے اندرمساجد ،عیسائیوں کے مقدس مقامات سمیت تمام مذاہب کے مقدس مقامات کو گراکر ان کی جگہ مندر تعمیر کیے جائیںگے۔اسطرح کی پالیسی اور سوچ نے ہندوستان کو ہندوتوا کی بجائے ہندوستان کو گرم تو ا بنادیا۔
ہندوستان میں گئی ریاستیں ایسی ہیں جن پر ہندوستان نے تقسیم کے فوری بعدجبری فوجی قبضہ کرکے انہیں’’انڈین یونین‘‘ میں ضم کیا اور پھر ان ریاستوں میں ہندوتوا نظریے اور آر ایس ایس کے ایجنڈے کے مطابق اپنی تہذیب،کلچر،ماحول، تمدن،سوچ و فکر،لٹریچر اور آرٹ و زبان کا نفاذ کرنا چاہا جب کہ ان ریاستوں کی اپنی ایک تہذیب ہے‘ثقافت ہے، ادب ہے اور زبان و طرزِ معاشرت ہے۔وہ انتہاپسندہندوںکے ان رویوںسے سخت نالاں ہیں،ہند،ہندی ہندوستان کے نظریے کے مطابق ہر کسی کو ہندو بنانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا گیا اور کیاجارہاہے۔جس نے ہندوستا ن کو بارود کے ڈھیرپر لاکھڑاکردیاہے۔
47ء میںبر صغیر کی تقسیم کے بعدہندوستان پر برسرقتدارآنے والی قیادت نے اورسرکار نے وہی سلوک روارکھا جس سے وہ ڈر رہے تھے اور اس سلوک کی وجہ سے ان ریاستوں کے اندر لاوا پکتارہاہے اورحالات کے جبر سے مجبورہوکر وہاں کے غیور لوگوںنے ہتھیار اٹھالیے اور آج تک وہ ہندوستان کے خلاف لڑرہے ہیں اور ان انھوںنے عہد کیاہے کہ وہ اپنی آزادی تک لڑتے رہے ہیںگے۔
نریندرمودی کے متعصبانہ اقدامات ا علانات کی وجہ سے ہندوستان پہلے ہی گرم تو ابناہواتھا ،ساتھ بی جے پی کے سینئر رہنما نے بنی ﷺ کی شان میں گستاخی کرکے ایک اور نیا محاذ کھول دیا۔نبی ﷺ کی شان میں گستاخی پر سوا ارب مسلمانوں سراپا احتجاج بنائے ہوئے تھے خاص کر عرب ممالک میں اس کا شدید ردعمل ہوا اور پورے عر ب ممالک سے ہندوستان کی ایشیا اسٹور وں سے نکال کر باہر پھینک دی گئیں۔پورے عرب اوردیگر اسلامی ممالک میں ہندوستان کی ایشیا کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی جس سے ہندوستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔

ہندوستان کے ناروارویے کی وجہ سے ریاست تامل ناڈو کی تامل علیحدگی پسند تحریک اور سکھوں کی’’اکالی دل‘‘اور ’’خالصتان‘‘ نامی تحریکیں ہندوستان کو سبق سکھارہی ہیں۔خالصتان تحریک کو دبانے کے لئے ہندوستانی فوج کے مظالم نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ سکھوں کی آبادیوں پرٹینک چڑھا دیئے گئے،‘ خالصتان تحریک کے رہنماؤں کے گھروں اور دفتروں پر چھاپے مارے گئے، انہیں پابند سلاسل کیا گیا، ان کا قتل عام کیا گیااور آخر کار سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل کومسمار کر دیا گیا‘اگرچہ ہندوستان یہ دعویٰ کررہاہے کہ اس نے قتل عام کرکے خالصتان کی تحریک کو دبادیاہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ۔آزاد خالصتان کا نظریہ آج بھی زندہ ہے، ان کی جلاوطن حکومت قائم ہے اس کے باقاعدہ اجلاس ہوتے ہیں،مزاحمت جاری ہے اور لاواپک رہاہے جس سے ہندو ذہن خائف ہے کہ یہ تحریک کسی بھی وقت شعلہ جوالہ بن کر تختِ دلی کو ہلا سکتی ہے۔ ہندوستان میں 70کے قریب علیحدگی پسند تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ان تحریکوں کے پیچھے وہ مظالم اور انسان کش پالیسیاں ہیں جو ہندوستان جاری رکھے ہوئے ہے ، ریاستی تنگ نظری‘فکری گراوٹ‘بے حسی اور متعصبانہ رویوں کی وجہ سے ہندوستان انجام کی طرف گامزن ہے۔
ہندوستان کے اپنے میڈیا رپورٹس کے مطابق صرف آسام میں 34باغی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جو ملک کے 162اضلاع پر مکمل کنٹرول رکھتی ہیں۔ شمال مشرقی ہندوستان کی سیون سسٹرز (سات بہنیں)کہلا نے والی سات ریاستیںآسام، تریپورہ، ہماچل پردیش، میزورام،منی پور، میگھالیہ اور ناگالینڈ باغی تحریکوں کا مرکز ہیں۔ اس کے علاوہ بہار، جھاڑ کھنڈ، چھتیس گڑھ، مغربی بنگال، اڑیسہ،مدھیا پردیش، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش میں بھی علیحدگی پسند گروپ سرگرم ہیں لیکن ناگالینڈ کے ناگا باغی اورنکسل باڑیوں کی تحریک بھارتی وجود کے لئے حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔یہ علیحدگی پسند تنظیمیں جن میں زیادہ تر مسلح تنظیمیں ہیں،جو ہندوستان کے ساتھ کسی قیمت پر رہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

نکسل تحریک مغربی بنگال کے ایک گاؤں نیکسل باڑی سے شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک بڑے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔چونکہ یہ باغی چین کے عظیم انقلابی رہنما ماؤزے تنگ کے نظریات سے متاثر ہیں اس لئے انہیں ماؤسٹ یا ماؤ باغی بھی کہا جاتا ہے۔ اب تک ہزاروں ماؤ باغی‘عام شہری اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے اہلکار اس تحریک کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے ہزا روں فوجی مارے جا چکے ہیںان کو کچلنے کے لیےGreen Hunt کے نام سے آپریشن شروع کیاگیاجو ناکامی سے دوچار ہوا اور ماؤ بغاوت کوختم نہ کیا جا سکا۔ ایک بھارتی ادارے ’’انسٹی ٹیوٹ آف کونفیلکٹ مینیجمنٹ‘‘سمیت دیگر اداروں او رتجزیہ کاروں کے مطابق ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں میں ماؤ باغی اپنی قوت بڑھانے میں کامیاب ہوئے ہیں اوروہ خودکو مزید طاقتور بنانے کے لئے جہاں شمال مشرقی ریاستوں میں کئی علیحدگی پسند تنظیموں کو اپنے ساتھ ملا رہے ہیں وہیں پورے ملک کے آزادی پسندوں کے ساتھ بھی تعاون کر کے اپنا دائرہ اثر وسیع کررہے ہیں۔ 70کے قریب ان علیحدگی پسند تحریکوں میں مندرجہ ذیل زیادہ منظم سمجھی جاتی ہیں۔ریاست آسام میں یونائٹیڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ برچھا کمانڈوز، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا،مسلم ٹائیگر فورس، آدم سینا،، گورکھا ٹائیگر فورس اور پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ قابل ذکرہیں۔ پنجاب میں ببر خالصہ انٹر نیشنل،خالصتان زندہ باد فورس، خالصتان کمانڈوز، بھنڈرانوالہ ٹائیگرز، خالصتان لبریشن فرنٹ، خالصتان نیشنل آرمی اور ریاست منی پورمیں پیپلز لبریشن آرمی، منی پور لبریشن ٹائیگر فورس، نیشنل ایسٹ مائنارٹی فرنٹ،کوکی نیشنل آرمی، کوکی ڈیفنس فورس اور ناگالینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل اور تری پورہ میں آل تری پورہ ٹائیگر فوس، تری پورہ آرمڈ ٹرائبل والنٹیئر فورس، تری پورہ مکتی کمانڈوز،بنگالی رجمنٹ اور میز و رام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ سمیت کئی تنظیمیں ہندوستان پر قابض برہمنوں کو سبق سیکھارہی ہیں آسام میں آزادی تحریک کی بنیاد ’’یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام‘‘نے ڈالی اور مسلح جدو جہد کا راستہ اختیار کیا جبکہ بعد میں مزید علیحدگی پسند جماعتیں بھی سامنے آئیں۔(جاری)
جناب راجہ ذاکر خان آزاد کشمیر کے معروف صحافی، محقق اور دانشور ہیں ۔جماعت اسلامی آزاد جموں کشمیر وگلگت بلتستان کے سیکرٹری اطلاعات ہیں ۔کشمیر الیوم کیلئے کبھی کبھار لکھتے ہیں اور بہت خوب لکھتے ہیں