ہنیہ کا جینا مرنا فلسطین کیلئے تھا

فلسطینی انفارمیشن سنٹر

’ہنیہ کا جینا مرنا فلسطین کیلئے تھا، ان کی شہادت کئی اور ہنیہ پیدا کرے گی

شہید اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ میں اتحاد امت مسلمہ کا مظہر

قطر میں نماز جمعہ کے بعد حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ میں شرکت کیلئے ہزاروں نمازی قطری دارالحکومت دوحہ کی امام محمد بن عبدالوہاب مسجد میں جمع ہوئے۔ یہ ایک دلفریب منظر تھا جس میں ایک طرف ریاست کے اعلیٰ حکام، امیر قطر اور حکومتی وزراء موجود تھے اور دوسری طرف عوام کا ایک جم غفیر امڈ آیا تھا۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر قضیہ فلسطین کیلئے ان کی ہمدردیوں اور اسماعیل ھنیہ کی شہادت پر صہیونی دشمن کے خلاف غم وغصے کا اظہار تھا۔شہید رہنما اسماعیل ھنیہ کا تہران میں نماز جنازہ کے بعد دوحہ میں ہونے والے جنازے کے جلوس میں مسلمانوں کے ہر مکتبہ فکرنے شرکت کرکے اتحاد ملت اسلامیہ کا واضح ثبوت پیش کیا۔
حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن خلیل الحیہ نے قطر کی سب سے بڑی مسجد میں شہید رہنما اور ان کے ساتھی شہید وسیم ابو شعبان کی نماز جنازہ کی امامت کی، جس میں عوام کی کثیر تعداد موجود تھی۔ حماس کی قیادت، فلسطینی جماعتوں کے رہنما، قطر کے امیر، وزیراعظم اور دیگر سرکاری حکام نے اسماعیل ھنیہ کو الوداع کہا۔
حماس کے خارجہ امور کے سربراہ خالد مشعل نے اس موقعے پر خطاب میں شہید رہنما کی خدمات اور ان کی قربانیوں کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسماعیل ھنیہ کی زندگی کا مشن فلسطینی قوم کیلئے لڑنا اور مرنا تھا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ حقیقی معنوں میں فلسطینی قوم کیلئے زندہ ہیں اور انہی کیلئے اپنی جان بھی دے دیں گے۔
خالد مشعل نے مزید کہا کہ ہنیہ ’’غزہ شہر کے الشاطی کیمپ میں اپنے عوام کے درمیان رہتے تھے، ان کے درد کو محسوس کرتے تھے اور ان کے دکھ سکھ میں ساتھ ہوتے تھے۔‘‘
خالدمشعل نے مزید کہا کہ ہنیہ نے ’’اپنے مقصد، اپنے عوام اوربیت المقدس کی خدمت کی۔‘‘ انہوں نے ایک مجاہد، ایک مبلغ، قرآن کریم کے حافظ، فلسطین کے وزیر اعظم اور ہر اعتبار سے فلسطینیوں کی خدمت کی۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہنیہ نے غزہ نہیں چھوڑا۔ وہ بیرون ملک بھی فلسطینی عوام کیلئے گئے تھے۔ وہ فلسطین کی آزادی کے مشن پر تھے اور بیرون ملک رہنا اس مشن کیلئے ایک ضرورت تھی۔ھنیہ کے جنازے کی تقریب میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آلثانی، والد امیر الشیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی، وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی اور دیگر حکام نے شرکت کی۔ترکیہ اور دیگر ممالک کے سرکاری وفود، فلسطینی تنظیموںکے رہنما، اداروں اور تنظیموں کے سربراہان بھی موجود تھے۔جنازے میں ایران کے نائب صدر محمد رضا عارف اور ترکیہ کے وزیر خارجہ ہاخان فیدان سمیت کئی ممالک کے سرکردہ حکام نے بھی شرکت کی۔
ترکیہ کی وزارت خارجہ نے ’ایکس‘ پلیٹ فارم پرایک پوسٹ میں کہا کہ ’’فیدان نے حماس کے پولیٹیکل بیورو کے قائم مقام سربراہ خالد مشعل سے ملاقات میں اسماعیل ھنیہ کی شہادت پر تعزیت کی‘‘۔
خالد مشعل اور ترکیہ وزیرخارجہ کے درمیان دوحہ میں ہونے والی ملاقات میں اسماعیل ھنیہ کے دو بیٹے عبدالسلام اور ھمام ھنیہ بھی موجود تھے۔
حماس کے متعدد رہنماؤں کیساتھ اسلامی جہاد کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ نے بھی شرکت کی۔ تحریک فتح کے نمائندوں کے علاوہ جماعت کے نائب صدر محمود العالول کی سربراہی میں ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد نے اسماعیل ھنیہ کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔

نماز جنازہ میں امارت اسلامیہ افغانستان کے ایک سرکاری وفد نے بھی شرکت کی۔دوحہ کی کچھ مرکزی اور ثانوی سڑکوں کو ٹریفک کیلئے بند کر دیا گیا تھا اور پولیس نے سخت حفاظتی اقدامات کیے تھے، خاص طور پر محمد بن عبدالوہاب مسجد اور اس کے اطراف میں سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے گئے تھے۔
مسجد کے قرب و جوار میں مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ وابستہ صحافیوں کی بھی بڑی تعداد میں نماز جنازہ کی کوریج دیکھنے میں آئی۔نماز کے بعد شہید قائد کے تابوت کو ان کے ساتھیوں کیساتھ لوسیل میں بانی اخوان المسلمین کے قبرستان میں پہنچایا گیا۔

سرکاری میڈیا سمیت قطر نے اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ قطر کی دولت میں شہید کمانڈر اسماعیل ہنیہ کا جسد خاکی بھی شامل ہے۔مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار نے اطلاع دی ہے کہ کئی ممالک اور اداروں کی نمائندگی کرنے والے سرکاری وفود ہنیہ کی نماز جنازہ میں شرکت کیلئے دوحہ پہنچے۔انہوں نے مزید کہا کہ جمعہ کی صبح سے ہی ہزاروں فلسطینی، عرب اور اسلامی کمیونٹی قطریوں کیساتھ امام محمد بن عبدالوہاب مسجد میں آنا شروع ہو گئے تاکہ ھنیہ کو الوداع کریں اور ان کی نماز جنازہ میں شرکت کریں۔
سینئر صحافی عبدالفتاح الفاید جو شہید اسماعیل ھنیہ کے جسد خاکی کو آخری آرام گاہ تک پہنچانے میں ساتھ رہے۔ انہوں نے کہا کہ شہید ھنیہ کا جنازہ عالم اسلام کے اتحاد کی علامت بن گیا جس میں ہر طبقہ ہائے فکر اور ہرمسلک کے مسلمانوں نے شرکت کی۔ سب کے دلوں میں ھنیہ کیلئے محبت و ہمدردی اور صہیونی مجرم کیلئے نفرت تھی۔
دوحہ میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے علاوہ عالم اسلام کے کئی ممالک میں شہید اسماعیل ھنیہ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشا، مراکش، تونس اور کئی دوسرے ممالک میں شہید قائد کی غائبانہ نماز جنازہ میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ یہ جنازے عالم اسلام کے اتحاد اور صہیونی دشمن کے جرائم کے خلاف عالم اسلام میں پائی جانے والی نفرت اور غم وغصے کا اظہار ہے۔
فلسطین کے اندر مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ کے بعد شہیداسماعیل ہنیہ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اس نماز کی امامت الشیخ عکرمہ صبری نے کی۔ مسجد اقصیٰ میں ھنیہ کی غائبانہ نماز جنازہ نے صہیونی دشمن کو مشتعل کردیا۔

٭٭٭

عبرانی زبان بولنے والے حماس کے نئے سربراہ یحییٰ السنوار کون ہیں؟

یحییٰ سنوار

اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کے پولٹ بیورو کے نئے سربراہ یحییٰ السنوار کئی مرتبہ اسرائیل کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے ہیں۔ انہیں چار مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم پھر 2011 میں قیدیوں کے تبادلے کے ایک سمجھوتے کے نتیجے میں انہیں رہائی نصیب ہوئی۔رہائی کے بعد السنوار پھر ایکبار حماس کے عسکری ونگ عز الدین القسام بریگیڈز میں سرگرم ہو گئے۔ وہ 2017 اور 2021 میں غزہ پٹی میں حماس کے سربراہ منتخب ہوئے اور اب اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد السنوار کو حماس کے سیاسی بیورو کا سربراہ چُن لیا گیا ہے۔

پیدائش اور پرورش

یحییٰ ابراہیم حسن السنوار سات اکتوبر 1962 میں غزہ پٹی کے جنوب میں واقع خان یونس پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم خان یونس اسکول میں حاصل کی اور پھر غزہ میں جامعہ اسلامیہ میں عربی زبان کے شعبے سے بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ السنوار کی شادی 21 نومبر 2011 میں ہوئی۔ ان کی اہلیہ سمر محمد ابو زمر غزہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ سمر نے جامعہ اسلامیہ میں اصول الدین کے شعبے سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ السنوار کا ایک بیٹا ہے جس کا نام ابراہیم ہے۔

سیاسی سرگرمی

جامعہ اسلامیہ میں تعلیم کے دوران یحییٰ السنوار نے نمایاں طور پر طلبہ سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ وہ ‘الکتلہ الاسلامیہ’ کے سرگرم رکن تھے جو فلسطین میں الاخوان المسلون جماعت کی طلبہ شاخ ہے۔ وہ جامعہ اسلامیہ میں طلبہ کونسل کے صدر بھی رہے۔ بعد ازاں 1986 میں السنوار نے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کی ہدایت پر خالد الہندی اور روحی مشتہی کیساتھ مل کر ”مجد” کے نام سے ایک سکیورٹی ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کا کام قابض اسرائیلی ا فواج اور حکام کیلئے کام کرنے والے ایجنٹوں اور جاسوسوں کا پتہ چلانا اور اسرائیلی انٹیلی جنس اور سکیورٹی اداروں کے آفیسران پر نظر رکھنا تھا۔

قید وبند کی صعوبتیں

یحییٰ السنوار پہلی مرتبہ 1982 میں 20 برس کی عمر میں گرفتار ہوئے۔ انہیں چار ماہ زیر حراست رکھا گیا اور رہائی کے ایک ہفتے بعد دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ اس بار وہ چھ ماہ تک عدالتی کارروائی کے بغیر جیل میں رہے۔ سال 1985 میں وہ ایک بار پھر گرفتار ہوئے اور انھیں آٹھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔جنوری 1988 میں وہ پھر سے گرفتار ہوئے اور اس بار ان پر دو اسرائیلی فوجیوں کو اغوا ،قتل کرنے اور اسرائیل کیساتھ تعاون کے شبہ میں چار فلسطینیوں کو موت کی نیند سلانے کا الزام تھا۔ السنوار کو چار بار عمر قید (426 برس کی مدت) کی سزا سنائی گئی۔ دوران گرفتاری انہوں نے حماس کے قیدیوں سے متعلق سپریم لیڈرشپ باڈی کی قیادت بھی سنبھالی۔السنوار نے دو مرتبہ جیل سے فرار ہونے کی کوششیں کیں مگر وہ ناکام رہے۔ گرفتاری کے عرصے کے دوران میں انھیں صحت سے متعلق مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ دماغ میں خون جم جانے کی وجہ سے انہیں7 گھنٹے طویل آپریشن کے مراحل سے بھی گزرنا پڑا۔

جیل میں تصنیف

یحییٰ السنوار نے جیل میں گزارے گئے 23 برس کے دوران میں مطالعہ، تعلیم و تالیف میں بھرپور وقت صرف کیا۔ اس دوران میں انہوں نے عبرانی زبان سیکھ لی اور اسرائیلی ذہنیت سمجھنے پر توجہ مرکوز کی۔ السنوار نے سیاست، سکیورٹی اور ادب کے موضوعات سے متعلق متعدد کتابیں بھی لکھیں۔

رہائی کے بعد سیاسی اور عسکری سرگرمیاں

یحییٰ السنوار 2011 میں اُن ایک ہزار سے زائدفلسطینی قیدیوں میں شامل تھے جنہیں ایک اسرائیلی فوجی ‘گیلاد شالیت’ کے بدلے رہا کیا گیا۔ اس سمجھوتے کو ”وفاء الاحرار” کا نام دیا گیا۔ جیل سے نکلنے کے بعد السنوار نے حماس کے عسکری ونگ عز الدین القسام بریگیڈز میں ذمے داری نبھائی۔ انہوں نے تنظیم کے سیاسی دفتر اور بریگیڈز کی کمان کے درمیان رابطہ کار کے فرائض انجام دیے۔
سال 2015 میں حماس نے السنوار کو تنظیم کی حراست میں موجود اسرائیلی قیدیوں کے معاملے کا ذمے دار مقرر کیا۔ انہیں اس حوالے سے اسرائیل کیساتھ مذاکرات کا کام سونپا گیا۔ اسی برس امریکا نے السنوار کو ”بین الاقوامی دہشت گردوں” کی فہرست میں شامل کر لیا۔ اسی طرح اسرائیل نے بھی السنوار کا نام اُن افراد کی فہرست میں ڈال دیا جو اسے غزہ پٹی میں قتل کرنے کیلئے مطلوب تھے۔
وہ 13 فروری 2017 میں غزہ پٹی میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ بنے۔ اس عرصے میں انہوں نے غزہ میں حماس تنظیم اور مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کی نمائندہ ’فتح‘ تحریک کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی۔ السنوار نے مصر کیساتھ تعلقات بہتر بنانے پر بھی کام کیا۔ مارچ 2021 میں وہ دوسری مرتبہ غزہ میں حماس تنظیم کے سربراہ منتخب ہوئے۔
یحییٰ السنوار کے گھر کو کئی مرتبہ بمباری کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ اس حوالے سے 2012، 2014 اور 2021 میں ان کے گھر پر حملے کیے گئے۔ السنوار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک محتاط شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ زیادہ گفتگو کرتے ہیں اور نہ علانیہ ظاہر ہوتے ہیں۔ السنوار قیادت کی اعلی صلاحیتوں کے حامل ہیں اور حماس کے ارکان پر ان کی شخصیت کا گہرا اثر ہے۔

یحییٰ السنوار اور طوفان الاقصیٰ

گذشتہ برس سات اکتوبر کو ‘طوفان الاقصیٰ’ آپریشن شروع ہونے کے بعد یحییٰ السنوار اسرائیل کو مطلوب افراد کی فہرست میں پہلے نمبر پر آ گئے۔ ان کے علاوہ القسام بریگیڈز کے کمانڈر انچیف محمد الضیف بھی مطلوب افراد میں سرفہرست ہیں۔ اسرائیلی عہدیدار السنوار کو سات اکتوبر کے حملوں کا ماسٹر مائنڈ خیال کرتے ہیں۔
نومبر 2023 میں برطانوی حکومت نے حماس کے جن رہنماؤں کے اثاثے منجمد کرنے اور ان پر سفری پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا اُن میں السنوار بھی شامل ہیں۔ اسی ماہ فرانس کے حکام نے چھ ماہ کیلئے السنوار کے اثاثے منجمد کرنے کا فیصلہ جاری کیا۔ غزہ کی جنگ کے دوران میں السنوار علانیہ طور پر ظاہر نہیں ہوئے۔ اسرائیلی اخبار ”ہآریتز” کے مطابق انھوں نے غزہ میں یرغمال بعض اسرائیلی قیدیوں سے ملاقات کی اور ان سے عبرانی زبان میں گفتگو کی۔چھ دسمبر 2023 میں اسرائیلی وزیر اعظم نے ایک اعلان میں بتایا کہ اسرائیلی فوج نے السنوار کے گھر کا محاصرہ کر لیا تاہم وہ ان تک نہ پہنچ سکی۔

گرفتاری کا وارنٹ

رواںبرس 20 مئی (2024) کو عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے پراسیکیوٹر کریم خان نے درخواست دائر کی تھی کہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام کے تحت اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو، وزیر دفاع یوآو گیلنٹ اور فلسطینی تنظیم حماس کے تین رہنماؤں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔ حماس کے ان تین رہنماؤں کے نام محمد الضیف، اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ السنوار ہیں۔

اسماعیل ہنیہ کے بعد حماس کی قیادت

گذشتہ ماہ 31 جولائی (2024) کو حماس نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل نے تنظیم کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایرانی دار الحکومت تہران میں ان کی قیام گاہ پر بم باری میں شہید کردیا۔ وہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے سلسلے میں ایک وفد کے ساتھ تہران میں موجود تھے۔
اسماعیل ہنیہ کی تدفین قطر کے دار الحکومت دوحہ میں عمل میں آئی۔ بعد ازاں چھ اگست 2024 بروز منگل حماس نے اعلان کیا کہ تنظیم کی مشاورتی کمیٹیوں نے متفقہ طور پر یحییٰ السنوار کو حماس کا نیا سربراہ چن لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ

urdu.palinfo.com
٭٭٭