
شہزاد منیر احمد
نا معلوم کے بارے جاننا ہی علم کہلاتا ہے۔۔ جس ذہن میں یہ نظریہ نقش ہو جائے تو وہ نا شرماتا ہے نہ ججھکتا ۔یہ رویہ غیر معمولی ذہین شخصیات کی نشانی ہوتی ہے
ماحول نو مولود بچوں اور آنے والے اجنبی افراد کے مزاج پر پہلا اور انمٹ اثر ڈالتے ہیں
عالمی شہرت یافتہ ڈیل کارنیگی جب زیر تعلیم تھا تو اسے اندازہ نہ تھا کہ وہ ایک دن دنیا کاسب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں کا مصنف بنے گا
ادب کی دنیا میں نوبل انعام حاصل کرنے والا جارج برنارڈ شا روایتی تعلیم کے اعتبار سے فقط پانچ جماعت پڑھا ہوا تھا
اللہ مالک ارض و سما نے ہر فرد کو بہتریں صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ علمی اعتبار سے بڑے قد آور شخصیت بن جاتے ہیں تو کچھ اسی سوسائٹی میں” بونے ” ہی رہ جاتے ہیں۔ زیر تعلم طلباء وطالبات کو تدریسی کمروں میں ایک ہی استاد و پروفیسر پڑھاتے ہیں۔ کچھ بڑے اعلی درجے میں پاس ہوتے ہیں اور کچھ فیل ہو جاتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے ” ایسا کیوں ہے ”اس سوال کا فی البدیہہ جواب تو یہی ہے کہ ” لیس للانسان الا ما سعی” انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے ۔مزید یہ کہ مستقبل کی عظمت کا حقدار وہ ہے جس نے بدلتے وقت کے ساتھ زمانہ حال کو درست رکھا اور اپنے جوہر دکھائے ہوں۔ جو خود ترقی کرنے کا خواہاں اور سخت محنت سے کام کرنے والا رہا۔ اور جو اپنے جوہر دکھانے سے محروم رہا، اس کے حصے میں تو پچھتاوا ہی ہوگا۔۔ علامہ اقبالؒ لکھتے ہیں:-
کل کے غم و عیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا
جو آج خود افروز و جگر سوز نہیں ہے
غیر معمولی ذہانت رکھنے والے طلباء وطالبات پڑھائے جاتے والے سبق سے ہٹ کر استاد سے سوال کرتے ہیں۔مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں میں ایسے سوالات پوچھنے والوںکی حوصلہ افزائی ENCOURAGE کی جاتی ھے۔ جب کہ جاہل، پسماندہ اور گنوار معاشرے میں سوال پوچھنے والے کم عمروں کو بد تمیز اور گستاخ سمجھا جاتا ہے۔
انسانی شخصیت Living Environment ، ماحولیات پر استوار ہوتی ہے ۔ جیسا ماحول ہوگا ویسی شخصیت پروان چڑھے گی۔ ماحول کا مطلب، گھر یا گرد و پیش کے ادارے ہی نہیں بلکہ وہاں کے لوگوں کا نظریہِ حیات اور ان کے رویے ہوتے ہیں۔انسانی شخصیت ماحولیات کے مختلف رنگ و اقسام کے چھوٹے چھوٹے ریشوں سے مل کر بنتی ہے ۔ ماحول نو مولود بچوں اور آنے والے اجنبی افراد کے مزاج پر پہلا اور انمٹ اثر ڈالتے ہیں۔ اسی ماحول کی بنیاد پر مقامی رسم و رواج اور ثقافتی قدریں قائم ہوتی ہیں۔ موسمی اثرات صرف عادات بدلتے ہیں نظریہ حیات نہیں بدلتے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان میں یہ بہت بڑی صلاحیت اور رجحان رکھا ہے کہ وہ کسی امر کے بارے جان کر پریشان خیالی کا شکار ہو جاتا ہے، جیسے مطالعہ انسان سے نیند چھین لیتا ہے اور وہ غور و فکر میں کھو جاتا ہے ۔ کوئی تکلیف دہ منظر دیکھ کر بے چین ہو جاتا ہے اور اس کا پس منظر یا اس کے اثرات سے متاثرہ لوگ اور حالات کا سوچنا شروع کرتا ہے انسان کا یہ رویہ ہی زمین پر قائم معاشرے کی کل متاعِ اور نصاب علم و عمل ہے ۔
تاریخ عالم کے مطالعے سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ وہیں بیٹھے بیٹھے زندگی گزار دیتے ہیں جہاں انہیں بٹھا دیا جائے، کچھ وہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنی فطری خواہشات، ضروریات یا حرص کے تابع بھی خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہلکان نظر آتے ہیں۔ ایسے متجسس ذہنوں نے ہی نئی نئی دریافتوں اور ایجادات سے انسان کی زمینی زندگی کو جنت نظیر بنا دیا ہوا ہے ۔ایسے لوگ ہی انسانی معاشرے کے محسن اور سچے خادم ہیں۔ عالمی افق پر نمایاں اور نام ور شخصیات کی ذاتی زندگی بالخصوص ابتدائی تعلیم کے سالوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ شروع ہی سے اپنے ساتھیوں سے مختلف رویے کے حامل تھے۔ مثلاََ وہ اپنی نصابی کتب کے بستے میں اپنا ضمنی نصابی کتابچہ بھی رکھا کرتے تھے۔۔جس میں ان کے کھلی آنکھوں دیکھے ہوئے خواب ہوتے تھے جن کی انہیں تعبیر تلاش کرنا ہوتی تھی۔ اس منفرد حساسیت نے انہیں زندگی بھر راہ راست سے بھٹکنے سے محفوظ رکھا۔
اس تعمیری احساس اور ماحول جو انہیں میسر آیا اس کے سحر یا اثرات نے ان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ ان کے کورے ذہن نے ایک حقیقت دیکھی تو وہ اس کے پس منظر اور پیش منظر کو جاننے کے لیے بیتاب ہو گئے۔ خود تحقیق کی تو زندگی کی شاہراہ سے ہٹ کر ایک چھوٹی سی نئی پگڈنڈی دریافت کر کے زندگی کی لیباریٹری کے ہو کر رہ گئے۔ انہیں نہ وقت کی کمی محسوس ہوتی نہ کسی اور مشغولیت نے راغب کیا۔وہی لوگ کامیاب شخصیات کی شہرت پانے والے تھے۔ مثلاً:-
عالمی شہرت یافتہ ڈیل کارنیگی جب زیر تعلیم تھا تو اسے اندازہ نہ تھا کہ وہ ایک دن دنیا کاسب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں کا مصنف بنے گا۔ مگر اس نے اپنے ہم جماعتوں اور ہم عصروں سے ہٹ کر مشاہدات میں آنے والی سرگرمیوں کا اثر لیا، تحقیق کی اور اپنا تحقیقی نتیجہ کتابی شکل میں، ” پریشان ہونا چھوڑیے جینا سیکھیے” لکھا تو وہ راتوں رات مشہور ہو گیا۔ وہ صرف غیر معمولی ذہانت نہیں بلکہ غیر معمولی سوچ رکھنے والا انسان تھا۔ دانشور کہتے ہیں انسانی شخصیت اس کے ذہن میں پلتی ہے ۔ طلباء وطالبات وہی اور ویسا ہی بنتے ہیں جو اور جیسا وہ سوچتے ہیں۔
ادب کی دنیا میں نوبل انعام حاصل کرنے والا جارج برنارڈ شا روایتی تعلیم کے اعتبار سے فقط پانچ جماعت پڑھا ہوا تھا۔ وہ اس قدر شرمیلا واقع ہوا تھا کہ وہ دوستوں سے ملنے سے بھی گھبراتا تھا۔اس کے باوجود وہ دنیا کا بہترین مقرر بن گیا۔ جارج برنارڈ شا جو 1856 میں پیدا ہوا اس نے 1946 میں جب وہ 90 سال کا تھا، اس نے اپنی ڈائری میں لکھا- وہ اس قدر مصروف ہے کہ ابھی موت کے بارے میں سوچنے کے لیے اس کے پاس وقت نہیں۔
” میں زندگی میں زندگی کی خاطر دلچسپی لیتا ہوں۔میرے لیے یہ کوئی مختصر شمع نہیں، میرے لیے یہ ایک شاندار مشعل ہے اور میرے ہاتھ میں ہے۔ اسے آئیندہ پود کے سپرد کرنے سے پہلے میں اسے زیادہ سے زیادہ روشن دیکھنا چاہتا ہوں۔
اپنے قائد اعظم محمد علی جناح کو دیکھیں۔ انہیں سکول میں داخل کروایا گیا۔ کچھ عرصہ بعد انہیں سکول پسند نہ آیا تو انہیں دوسرے سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ کچھ بڑے ہوئے تو گھریلو حالات کے پیش نظر سکول چھوڑ دیا اور والد سے کہا میں آپ کے ساتھ دفتر میں کام کروں گا۔ دو۔ اڑھائی ماہ دفتر میں کام کیا تو والد سے کہا میں پڑھنا چاہتا ہوں۔ والد نے بتایا کہ بیٹا دنیا میں جینے اور کام کرنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ تعلیم اور لوگوں کے تجربے کی بنیاد پر کام کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ اپنے مشاہدے اور تجربات کے مطابق کام کیا جائے۔ پھر محمد علی جناح کا سکول داخل کروایا بعد میں انہیں اپنی فرم کے لندن آفس میں بھیجا گیا۔ وہاں سے انہوں میں قانون پڑھا اور بیرسٹری پاس کر کے واپس وطن لوٹے۔ جب وہ پڑھ رہے تھے تو انہوں نے یہ تو نہیں سوچا تھا کہ وہ ایک آزاد ملک بنائیں گے لیکن یہ ضروری تھا کہ وہ بحیثیت طالب علم بھی مختلف سوچتے تھے اور بحیثیت وکیل بھی دوسرے کالے کوٹ والوں سے عادات اور فکر و خیال میں بہت ہی مختلف تھے۔ ان کے منفرد کردار نے اسے دنیا کا واحد سیاسی لیڈر بنا دیا جس نے دنیا کا نقشہ بدلا، ایک نئی قوم تشکیل دی اور دنیا میں پہلی اور سب سے بڑی اسلامی ریاست ( پاکستان) معرض وجود میں لائی۔
میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ مطالعہ صاحب فکر دلوں کی نیند چھین لیتا ہے ۔تب وہ مزید کتابیں پڑھنے میں عافیت پاتے ہیں۔۔ان کا علمی اضافہ ان میں بولنے اور لکھنے پر اکساتا ہے ۔بڑھتی ہوئی خوداعتمادی انہیں بے نام ججھک اور شرمیلے پن پر غالب آنے کا یقین دلاتا ہے ۔
جس طرح کارل مارکس کی کتاب سرمایہ کے مطالعہ نے جارج برنارڈ شا کی زندگی بدل ڈالی ایسے ہی محمد علی جناح کا قرآن پاک کا پڑھنا، علامہ اقبال اور مولانا شبیر عثمانی جیسے علماء اسلام کی رفاقت نے ان کے اندر سے پیسے کمانے والا وکیل نکال کراللہ تعلی پر توکل کرنے والا بندہ مومن بٹھا دیا تھا۔
تعلیمی اداروں میں تدریسی سرگرمیوں میں کوئی تسلی بخش کارکردگی Performance نہ دینے والے طلبا کے اساتذہ کا یہی تبصرہ ہوتا ہے کہ وہ لکھائی پڑھائی میں تو واجبی سی پوزیشن میں ہے لیکن شرارتوں میں کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ ماہرین نفسیات کی رائے ایسے طلباء وطالبات کے بارے مختلف ہے ۔ ان کی تحقیق کے مطابق ایسے افراد غیر معمولی ذہانت کے مالک ہوتے ہیں۔ معمول کے نصاب تعلیم اور طرز تدریس کی یکسانیت سے جلد اکتا جاتے ہیں۔ روزمرہ کے پڑھنے لکھانے کی سرگرمیوں میں۔ وہ کچھ نیا دیکھنے اور کرنے کو چاہتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کہتے ہیں جس طرح لگے بندھے قوانینِ اور ضابطوں کی پابندی میں کام کرنے والے کارخانوں کی ترقی کی رفتار وہ نہیں ہوتی، جو ان کارخانوں میں دیکھی جاتی ہے جہاں ہر ورکر کو کھل کر کارخانوں کے مسائل اور کارکردگی پر بات کرتے اور سپروائزرز کو مشورہ دینے کا ماحول ہوتا ہے ۔
یہ سارا فیض باہمی میل ملاپ اور بھائی چارے کے ماحول کو فروغ دینے اور آپس میں تبادلہ خیالات کا ہوتا ہے ۔ سنجیدگی کا مطلب گوشہ نشینی نہیں بلکہ تعمیری سوچنا ہے اور اس کے لیے مطالعہ کتب بہت ضروری ہے ۔ دیکھا جائے تو سوسائٹی میں ہر بات یا ساری سرگرمیاں مکالمے کے نتیجے میں سامنے آتی ہیں۔ کیونکہ رائج رسمیں یا قدریں بہتر شکل میں ماحول سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور ماحول باہمی اخوت، مل جل کر بیٹھنے اور مکالمے سے پنپتا ہے ۔
طلباء وطالبات میں نفاست، خودداری اور بڑاپن والدین گھروں میں ان کے ذہنوں میں ڈالتے ہیں۔ تعلیمی ادارے انہیں بالضابطہ نکھارتے ہیں۔ طلباء وطالبات فطری طور پر نئی نئی باتوں کا سیکھنا پسند کرتے ہیں۔ طلباء وطالبات کے استفادے، وقت کی ضرورت اور تعلیمی ماحول کو خوشگوار نفع بخش رکھنے کے لیے اساتذہ کی ٹیم کو طلبا کی اس علمی تشنگی اور تجسس کی تسکین اور تسلی کا سامان کرتے رہنا چاہیے۔
اپنے طلبا و طالبات کو زندگی سے محبت نہیں عشق کرنا سکھائیں تا کہ۔وہ۔ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی پائیں۔ ان پر یہ روحانی راز افشا کریں کہ جس کا نظریہ، فکر اور کام زندہ رہا وہ شخص مرنے کے بعد بھی زندہ رہا۔
٭٭٭
شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ)راولپنڈی / اسلام آباد کے معروف ادیب، شاعر،مصنف اور کالم نگار ہیں،کشمیر الیوم کے لیے مستقل بنیادوں پر بلا معاوضہ لکھتے ہیں