یقیناً اللہ نہایت قابلِ تعریف اور بڑی شان والا ہے

مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے پر نہیں بڑھتے تو وہ ان سے مشتبہ ہوگیا اور دل میں ان سے خوف محسوس کرنے لگا ۔ انہوں نے کہا ’’ڈرو نہیں، ہم تو لوط ؑ کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں ‘‘۔ابراہیم ؑکی بیوی بھی کھڑی ہوئی تھی۔ وہ یہ سن کر ہنس دی۔ پھر ہم نے اس کو اسحاق ؑکی اور اسحاق ؑ کے بعد یعقوب ؑکی خوشخبری دی۔ وہ بولی ’’ ہا ئے میری کم بختی! کیا اب میرے ہاں اولاد ہوگی جبکہ میں بڑھیا بانچھ ہو گئی اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہو چکے؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے‘‘۔فرشتوں نے کہا ’’اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو ؟ ابراہیم ؑ کے گھر والو ، تم لوگوں پر تو اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں، اور یقیناً اللہ نہایت قابلِ تعریف اور بڑی شان والا ہے‘‘۔پھر جب ابراہیم کی گھبراہٹ دور ہوگئی( اور اولاد کی بشارت سے )اس کا دل خوش ہوگیا تو اس نے قوم لوط کے معاملہ میں ہم سے جھگڑا شروع کیا۔ حقیقت میں ابراہیم ؑبڑا حلیم اور نرم دل آدمی تھا اور ہر حال میں ہماری طرف رجوع کرتا تھا ۔(آخرِکار ہمارے فرشتوں نے اس سے کہا)‘‘ اے ابراہیم ؑ ، اس سے باز آجاؤ، تمہارے رب کا حکم ہوچکا ہے اور اب ان لوگوں پر وہ عذاب آکر رہے گا جو کسی کے پھیرے نہیں پھر سکتا‘‘۔اور جب ہمارے فرشتے لوط ؑکے پاس پہنچے تو ان کی آمد سے وہ بہت گھبرایا اور دل تنگ ہوا اور کہنے لگا کہ آج بڑی مصیبت کا دن ہے( ان مہمانوں کا آنا تھا )اس کی قوم کے لوگ بے اختیار اس کے گھر کی طرف ڈوڑ پڑے۔ پہلے سے وہ ایسی ہی بدکاری ریوں کے خوگر تھے ۔ لوط نے ان سے کہا بھائیوں یہ میری بیٹیاں موجو د ہیں یہ تمہارے لئے پاکیزہ تر ہیں ۔ کچھ خدا کا خوف کرو اور میرے مہمانوںکے معاملہ میں مجھے ذلیل نہ کرو ۔ کیا تم میں کوئی بھلا آدمی نہیں ؟‘‘

سورہ ہود آیت نمبر 70 تا 78 تفہیم القرآن سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ

جب اسلام کا قلادہ گردن سے نکل جائے!!!

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس سے شرم و حیاء کو نکال لیتا ہے، پھر جب حیاء اٹھ جاتی ہے تو اللہ کے قہر میں گرفتار ہو جاتا ہے، اور اس حالت میں اس کے دل سے امانت بھی چھین لی جاتی ہے، اور جب اس کے دل سے امانت چھین لی جاتی ہے تو وہ چوری اور خیانت شروع کر دیتا ہے، اور جب چوری اور خیانت شروع کر دیتا ہے تو اس کے دل سے رحمت چھین لی جاتی ہے، اور جب اس سے رحمت چھین لی جاتی ہے تو تم اسے ملعون و مردود پاؤ گے، اور جب تم ملعون و مردود دیکھو تو سمجھ لو کہ اسلام کا قلادہ اس کی گردن سے نکل چکا ہے‘‘۔ سنن ابن ماجہ

قیامت کی نشانیوں کا بیان!!!

حذیفہ بن اسید ابو سریحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن) اپنے کمرے سے جھانکا، اور ہم آپس میں قیامت کا ذکر کر رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دس نشانیاں ظاہر نہ ہوں: سورج کا پچھم سے نکلنا، دجال، دھواں، دابۃ الارض (چوپایا)، یاجوج ماجوج، عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا نزول، تین بار زمین کاخسف(دھنسنا): ایک مشرق میں، ایک مغرب میں اور ایک جزیرۃ العرب میں، ایک آگ عدن کے، ایک گاؤں ائبین کے کنویں سے ظاہر ہو گی جو لوگوں کو محشر کی جانب ہانک کر لے جائے گی ۔ سنن ابن ماجہ