شیخ محمدامین
پاکستان اور کشمیر کے عوام کا رشتہ کسی تعارف یا کسی تقریب کا محتاج نہیں ہے۔ تاہم ۵ فروری کو منایا جانے والا یوم یکجہتی کشمیر پاکستان کے عوام کے دلوں میں موجزن کشمیریوں کی محبت کا ایک ولولہ انگیز اظہار ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ جموں کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازعہ کا معاملہ نہیں،یہ ایک کروڑ چا لیس لاکھ لوگوں کے مستقبل اور آزادی کا معا ملہ ہے۔ فروری مہینے کی اپنی اہمیت ہے۔اس مہینے کی ۱۱ تاریخ سال ۱۹۸۴ میں ترہگام کپواڑہ کشمیر کے سپوت محمد مقبول بٹ ؒ کو تہاڑ جیل کے اندرآزادی مانگنے کے جرم میں پھانسی دی گئی اور پھر انہیں وہیں جیل میں ہی دفنادیا گیا۔۹فروری۲۰۱۳کو دوآب گاہ بارہمولہ کے محمد افضل گورو کو اسی جیل میں جرم بے گناہی کی پاداش میں تختہ دار پر لٹکایا گیا اور محمد مقبول بٹ ؒ کی طرح ورثاء کے حوالے کرنے کے بجائے اسی جیل میں سپرد خاک کیا گیا۔یوم یکجہتی کا اس مہینے میں انتخاب کرنا اس حقیقت سے پردہ اٹھاتا ہے کہ پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد کو حق و انصاف پر مبنی قرار دیتا ہے اور بحیثیت ایک فریق کے اس کا آر پار ریاست کو ایک اکائی سمجھنا،قابل تعریف بھی ہے اور دل کی گہرائیوں سے شکریہ کی مستحق بھی۔۔۔

تاریخ گواہ ہے کہ کشمیر کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے ۱۹۴۷ء میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی بھارت کی اس وقت کی قیادت کے ساتھ پوری منصوبہ بندی کرکے،اس خطے کو ریاستی عوام کی مرضی کے خلاف بھارت کے کنٹرول میں دینے کا کردار ادا کیا اور جس میں وہ کا فی حد تک کا میاب ہوا،تاہم کشمیری عوام نے شروع دن سے بھارت کو قابض و جارح قرار دے کر،اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کا حق ما نگا،جسے نہ صرف عالمی برادری بلکہ خود بھارت کے حکمرانوں کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔لیکن تسلیم کرنے کے باوجود وہ حق ابھی تک نہیں دیا گیا۔
جموں کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تناز ع کا معاملہ نہیں بلکہ جموں کشمیر کے باشندوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بقا کی بھی جنگ ہے۔ کشمیری عوام نے ۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک پاکستان سے محبت کا اظہار ہر موقع اور ہر صورت میں کیا ہے۔پاکستانی عوام بھی کشمیریوں کے ساتھ ایسا ہی والہانہ محبت رکھتی ہے۔یوم یکجہتی کشمیر اس والہانہ محبت کا اظہار بھی ہے۔ اس روز حکومت پاکستان بھی اعلا نیہ سرکاری طور پر ملک بھر میں تقریبات کا اہتمام کرکے،یہ پیغام دینے کی کو شش کرتی ہے کہ نہ صرف پاکستانی عوام،بلکہ حکومت پاکستان بھی کشمیری عوام کے ساتھ والہانہ محبت رکھتی ہے اور کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔
تاہم یہ بھی تاریخ کا ایک سیاہ ورق ہی ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کس طرح سابق حکمران جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کی آڑ میں حکومت پاکستان اور کشمیری عوام کے درمیان ایک ایسی دراڑ پیدا کی جسے پُر کرنے میں کا فی مدت درکار ہوگی۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء میں ریاست جموں و کشمیر میں کنٹرول لائن پر یکطرفہ فائر کرکے ہندوستان کو یہ موقع فراہم کیا کہ اس نے۷۰۰کلومیٹر سے زائد کنٹرول لائن پر برقی تار نصب کرکے متنازعہ علاقہ میں کشمیریوں کی آمد ورفت کو مکمل طور پر روک لیاحالانکہ آزادانہ نقل و حمل کی اجازت اقوام متحدہ کے چارٹر میں موجود ہے۔ جنوری ۲۰۰۴ء میں سارک کانفرنس میں اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ ”اعلان اسلام آباد“ کی صورت میں ایک ایسا متنازعہ معاہدہ کیا جس میں دہلی سرکار کو یہ یقین دلایا گیا کہ آزاد کشمیر کی سرزمین تحریک آزادی کے لئے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی اور اس طرح رواں آزادی کی تحریک کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کرنے کی بھارت کی کو ششوں کو تقویت فراہم کی۔ اپنے دور اقتدار میں کبھی وہ ”یونائیٹڈاسٹیٹس آف کشمیر“ اور کبھی چارنکاتی فارمولا کے امریکی روڈ میپ پر عمل پیرا رہے۔ تحریک آزادی کشمیر رسوا ہوتی رہی،قیادت تقسیم در تقسیم ہوتی رہی،اور سابق صدر سینہ پھیلاتے ہوئے،نو بل پیس پرائز کا انتظار کرتے کرتے بالآخر قدرت کے خا موش انتقام کا شکار ہوگئے۔
۲۰۱۹ء سے مودی حکومت نے مقبوضہ ریاست کو براہ راست دلی کے کنٹرول میں لیا۔بھارتی آئین کے اندر ۳۷۰اور ۳۵۔۔اے کو ختم کرکے،ریاست کے اکثریتی تشخص کو ختم کرنے کے اقدامات شروع کئے۔اب تک اطلاعات کے مطابق ۵ملین غیر ریاستی باشندوں کو ریاست کی ڈومیسائل دی گئی ہے۔ریاستی اسمبلی کی حد بندی کی آڑ میں غیر مسلم ایریاز میں نئے اسمبلی حلقے قائم کرکے،ریاست پر آنے والے وقت میں ایک غیر مسلم وزیر اعلیٰ کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ کرفیو،لاک ڈاون اور مکمل فوجی حکمرانی ہے۔کسی بھی شخص کو چاہے وہ بھارت نواز ہی کیوں نہ ہو،مودی کے اقدامات کی تنقید کرنے کی اجازت نہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ بھارت نواز سیاست دان بھی یا تو جیلوں میں مقید ہیں یا پھر بالکل خاموش رہ کر اپنی بے بسی کا رونا رو رہے ہیں۔آزادی پسند رہنما اور عوام کی کیا صورتحال ہوگی،کن مراحل سے وہ گذر رہے ہونگے،خوب اندازہ ہوجاتا ہے۔
جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو اس کا موقف شروع سے یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں مضمر ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان اقوام متحدہ کے دربار میں اس کا اظہار کرتے رہے۔حکو مت پاکستان کے حوالے سے کشمیری قیادت اور کشمیری عوام کے جو تحفظات تھے،وہ اس ایک تقریر سے ختم تو نہیں ہوئے لیکن کسی حد تک تشفی ہوچکی تھی ۔لیکن بعد میں ایسے اشارات ملنا شروع ہوگئے،جن سے یہ خدشات دوبارہ جنم لے رہے ہیں کہ کہیں پھر مشرف دور کی رسوائیوں کا دوبارہ احیاء تو نہیں ہورہا ہے۔مثال کے طور پر سپہ سالار جب صحافیوں کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے یہ کہے کہ ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔اس خطے میں امن کی ضرورت ہے اور اب ماضی کو بھول کر مستقبل کے بارے میں سوچنا ہوگا۔صحافیوں نے پوچھا کہ کیا آپ کے بعد آنے والے فوجی کمانڈ کی بھی یہی سوچ ہے تو جناب نے فرمایا کہ جناب متفقہ سوچ ہے۔اگر چہ ذاتی حوالے سے اس کے اثرات تھوڑے خطرناک محسوس ہوتے ہیں لیکن مجبوری ہے۔۔ اب زیادہ انتظار نہیں کیا جاسکتا۔جناب سپہ سالار نے فرمایا کہ ان کے اپنے گھر والوں نے بھی اس سوچ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن ملک و قوم کیلئے اب ایسی ہی سوچ پر عمل کرنا ناگزیر ہے۔ صحافیوں کی گفتگو سامنے آنے کے بعدیہ توقع تھی کہ اس کی سختی سے تردید آئے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔چند مبہم الفاظ کہہ کے ترجمانوں نے معاملے کو گول مول کردیا۔ معاملہ اسی حد تک محدود نہیں رہا۔پچھلے مہینے(جنوری ۲۰۲۲) سو سالہ نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا اعلان کیا گیا جس میں بھارت کے حوالے سے یہ طے پایا ہے کہ سو سال تک بھارت سے جنگ نہیں کریں گے۔جہاں موجودہ حالات میں بھارت پر ہر محاذ پر زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنے کی ضرورت تھی تاکہ وہ کشمیری حریت پسند عوام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے عمل کو شرمندء تعبیر نہ کرسکے۔ایسے میں کشمیر کیلئے ہزار سال تک جنگ لڑنے والی ریاست نے اگر سو سال تک یک طرفہ غیر مشروط سیز فائر کا اعلان کیا تو تو خدارا آپ ہی سمجھائیں اس سوچ اور پالیسی کا کیا نام دیں گے۔
اگر پڑوس میں آگ لگی ہو،ہمسائے کا مال و اسباب اور متاع حیات جل رہا ہو، گھر کے افراد آگ کا ایندھن بن رہے ہوں تو پھر زبانی کلامی ہمدردی اور محض دعائیں کافی نہیں ہوتیں بلکہ عملی مدد و تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھارتی حکمران مقبوضہ وادی میں ۷۴سال سے قابض ہیں۔آئے روز وہاں معصوم انسانوں کا خون بہایا جارہا ہے۔رہائشی مکانات جلائے جارہے ہیں،جیل خانے،تعذیب خانے کشمیریوں سے بھرے پڑے ہیں۔زبان بندی ہے۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی حکمران کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کشمیریوں کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کیلئے ٹھوس مدد اور مضبوط و مستحکم کشمیر پالیسی ترتیب دیں۔معذرت خواہانہ طرز عمل ترک کر کے ایک جارحانہ اور جاندار سفارتی مہم چلا ئیں۔ ایسے اقدامات سے گریز کریں،جن سے کشمیریوں کی دل آزاری ہو۔ مشرف نے نائن الیون کی آڑ لیکر تحریک آزادی کشمیر کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا۔موجودہ حکومت معیشت اور ترقی کی آڑ لے کر،وہی عمل دہرانے سے گریز کرے۔تحریک آزادی کشمیر حصول منزل تک جاری رہے گی،لیکن یا د رہے تا ریخ گواہ ہے کشمیر اور شہداء کشمیر کے ساتھ بے وفائی کرنے والے خود اپنازوال اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور ان شا ء اللہ دیکھیں گے۔اللہ رحم فرمائے
٭٭٭