بات اتنی ہی ہوتی تو اور بات تھی

27اکتوبر مقبوضہ ریاست میں یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔اس روز یعنی 27اکتوبر1947 کو سری نگر ائر پورٹ پر بھارتی فوجی طیاروں کی مدد سے ہزاروں فوجی کشمیر میں داخل ہوگئے اور اس طرح کشمیری عوام کے خلاف باقاعدہ جنگ کا اعلان کیا گیا،جو ابھی بھی جاری ہے۔ اس جبری قبضے ا ور جارحیت کے 75سال مکمل ہو گئے ہیں ۔ان برسوں میں اقوام متحدہ کی کشمیریوں کے حق میں بھارتی حکمرانوں کی تسلیم شدہ قرادادوں جن میں کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا ہے کے باوجود بھارتی قبضہ مستحکم سے مستحکم تر کرنے کی ہر ممکنہ کوششیں جاری ہیں ۔5اگست2019سے مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام کے وہ حقوق بھی چھینے گئے جو خود بھارتی آئین نے ان کو دئیے تھے ۔دفعہ 370اور35اے کے خاتمے کی آڑ میں ،اس ریاست کے عوام کی مسلم شناخت اور کشمیری شناخت پر براہ راست حملے کئے گئے اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔حال ہی میں بھارت کی چند مقتدر شخصیات پر مشتمل ایک گروپ نے جن میں پانچ سابق سینئر جج، چار اعلیٰ افسران، جن میں سابق سیکرٹری خارجہ نروپما رائو اور چار اعلیٰ فوجی افسران، جن میں بھارتی فضائیہ کے سابق نائب سربراہ ایر وائس مارشل کپل کاک اور فوج کی شمالی کمان کے سابق سربراہ جنرل ایچ ایس پنانگ بھی شامل ہیں نے اپنی ایک رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ کشمیری عوام کی اکثریتی آبادی کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاسی طور پر بے وزن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔رپورٹ ترتیب دینے والوں نے بھارتی حکومت کی طرف سے حد بندی کمیشن رپورٹ کو اس کے ایک واضح ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے جس کے مطابق کمیشن نے ایک شخص ایک ووٹ کے اصول کی صریح نفی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مسلم اکثریتی وادی کشمیر کی آبادی 68.88 لاکھ اور ہندو اکثریتی جموں کی 53.78لاکھ ہے۔ اس کی رو سے کشمیر کو 51اور جموں کو 39سیٹیں ملنی چاہئے تھیں۔ مگر اس کمیشن نے کشمیر کو اسمبلی میں 47اورجموں کو 43سیٹیں دی ہیں۔ یعنی 56.15فیصد آبادی کو اسمبلی میں 52.2فیصد سیٹیں اور 43.84فیصد آبادی کو 47.77 فیصد سیٹیں تفویض کی گئی ہیں، جو پارلیمانی جمہوریت کے اصول کی صریح نفی ہے۔ چونکہ اس کمیشن نے الگ سے کشمیری پنڈتوں اور پاکستانی علاقوں سے 1947 میں آئے ہندو ریفوجیوں کے لئے بھی سیٹیں محفوظ رکھنے کی سفارش کی ہے اور ان کی تعداد حکومت کی صوابدید پر چھوڑی ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے اسکے اطلاق سے کشمیری مسلمان ایک طرح سے سیاسی اقلیت میں تبدیل ہو جائینگے۔ ان مقتدر شخصیات کے مطابق یہ قدم کشمیری مسلمانوں کو سیاسی طور پر بے وزن اور بے وقعت بنائے گا ۔معاملات صرف اسی حد تک محدود نہیں بلکہ ہرجگہ اور ہر مقام پر کشمیری مسلمانوں کو احساس کمتری کا شکار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اگر مقامی بیورو کریسی کا آپ جائزہ لیں تو صاف نظر آرہا ہے کہ وہاں بھی مسلم افسران کے بجائے غیر مسلم اور بھارت سے لائے گئے ہندو فرقہ پرست افسراں کو تعینات کیا جارہا ہے ۔معروف صحافی افتخار گیلانی نے حال ہی میں اپنے ایک کالم میں تازہ ترین اعداد شمار لکھ کر ہندو فرقہ پرستی کے جنونی کردار کو بے نقاب کیا ہے ۔ ان اعداد و شمار کے مطابق فی الوقت 24سیکرٹریوں میں صرف پانچ مسلمان ہیں۔ اس کے علاوہ 58 اعلیٰ سول سروس افسران میں صرف 12 مسلمان ہیں۔ یعنی 68فیصد آبادی کا تناسب اعلیٰ افسران میں محض 17.4فیصد ہے۔ دوسرے درجہ کے افسران میں کل 523میں 220ہی مسلمان ہیں۔ یعنی تناسب 42.06فیصد ہے۔ اسی طرح 66اعلیٰ پولیس افسران میں بس سات مسلمان ہیں۔ دوسرے درجہ کے 248پولیس افسران میں 108ہی مسلمان ہیں۔ اس خطے کے 20اضلاع میں صرف چھ ڈپٹی کمشنر یا ضلعی مجسٹریٹ مسلمان ہیں۔معاملہ صرف اسی حد تک محدود نہیں بلکہ مسلم اکثریتی کشمیر کو ہندو اکثریتی علا قہ بنانے کیلئے 25لاکھ غیر کشمیر ی ہندوںکو اب تک ڈومیسائل سرٹیفکیٹس جاری کئے گئے ہیں، یہ تمام اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کے علاوہ چوتھے جنیوا کنونشن کی صریحا ً خلاف ورزی ہیں۔ایک طرف یہ صورتحال تو دوسری طرف اچانک پچھلے مہینے آزاد کشمیر میں 15ھویں ترمیم کا شوشہ چھوڑا گیا جس کے مطابق آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ یا اس میں ضم کرنے کا عندیہ ملتا تھا۔یہ تاثر پختہ ہوتا گیا کہ پاکستان نے کنٹرقول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنے اور ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم کے فارمولے پر اتفاق کیا ہے ۔اس پر پورے آزاد کشمیر میں سخت احتجاج ہوا اور متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین کو یہ تک کہنا پڑا کہ لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد تسلیم کر کے ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم کی تجویز یا فارمولا زیر غور لانا تاریخ انسانی کی بڑی غداری ہو گی۔ایسی کسی بھی غداری کا انجام عبرتناک ہوگا ۔کئی دنوں تک احتجاج اور کشمیری رہنماوں کے سخت بیانات کے بعد حکام کی طرف سے کہا گیا کہ پاکستان کسی بھی صورت کنٹرول لائن کو مستقل سرحد قبول نہیں کرے گا۔