طالبان کی بنیاد رکھنے والا ولی۔۔۔مرد مجاہد ملاعمرؒ

عروج آزاد

اب دنیا کی نظر افغانستان پر ہے اور ہر ملک کے صحافی،تجزیہ نگار اور مانیٹرنگ ٹیمیں حیرت انگیز طور پر یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہیں کہ کس طرح مٹھی بھر طالبان جو کہ تقریباََتیس ہزار کی تعداد میں ہیں انہوں نے کیسے ورلڈ سپر پاور امریکا کا مقابلہ کیا جس کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود افغانستان سے بیس سالوں کے بعد بھاگناپڑا۔یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان طالبان کی بنیاد رکھنے والا کون ہے؟ذرا غور کیجئے،کہ وہ مرد مجاہد،راہنما اور ولی ملا عمر ؒتھے جو تقریباََ1960 ء۔1950 ء کے درمیان افغانستان کے شہر قندھار میں پیدا ہوئے۔ملا عمر جب تین سال کے ہوئے تو آپ کے والد وفات پاگئے اور آپ کی والدہ نے آپ کے چچا سے شادی کی اور پھر یوں آپ کے چچا نے آپ کی پرورش کی۔ملا عمر کی زندگی پر لکھنے والی صحافی (Bette Dam) نے اپنی کتاب (The Secret Life of Mullah Omar) میں بیان کیاکہ کابل میں بارہ سالہ گوشہ نشینی کے دوران ملا عمر کیا کرتے رہے ہیں۔وہی انہوں نے یہ بات اخذ کی ہے کہ یہ طالبان راہنما ولی اللہ کے درجے پر فائز ہوچکے تھے۔وہ لکھتی ہیں کہ ملا عمر کبھی بھی پاکستان نہیں گئے بلکہ افغانستان میں ہی سارا وقت گزارا ہے۔بہر حال 2003ء میں جب امریکا نے افغانستان پر قبضہ کرلیا تھا تو ملا عمر کے لوگ پاکستان میں آئے تھے،ایک ٹی وی چینل سے باتیں کرتے ہوئے پاکستان کے سابقہ چیف آف آرمی سٹاف مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے کہ اس وقت جلال الدین حقانی آئے ہوئے تھے،اور میں بھی ان میں شامل تھا۔طالبان کے وفد سے باتیں کرتے ہوئے میں نے انہیں کہا کہ دیکھو تمہاری ایک نسل تباہ ہوگئی ہے روسیوں سے لڑتے ہوئے،دوسری نسل تباہ ہوئی،آپس میں لڑتے ہوئے اور تم تیسری جنگ کی تیاری کررہے ہو۔ جلال الدین حقانی نے کہا کہ اب ہم پرانے مجاہدوں سے مل کر دوبارہ جنگ کریں گے۔مرزا اسلم بیگ نے انہیں کہا کہ آپ جب واپس جائیں تو ملا عمر کومیرا پیغام دینا کہ ایک یہ بھی راستہ ہے کہ آپ امریکی ایجنڈے پر عمل کریں،جب جمہوریت ہوگی آپ اکثریت میں ہونگے اور اپنی تقدیر کا مستقبل کا فیصلہ خودکریں گے۔ دو ماہ کے بعد فیصلہ آتا ہے،جواب آیا ہے ملا عمر کہتے ہیں کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم متحد ہو کر لڑیں گے۔ان شااللہ ہم جیت جائیں گے۔اللہ کا حکم ہے کہ:”تمہارے دشمن خواہ کتنے طاقت مند ہوں، بڑے ہوں اگر تم ثابت قدم رہو تووہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے“۔

2003 ء میں کابل میں اشرف غنی کی حکومت بعض امریکی حکام اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے ملاعمر کے افغانستان میں ہونے کی شدید ناراضگی اختیار کی اور وہ بھی یہ سمجھتے تھے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ اس پر Bette Dam نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ شروع میں وہ بھی یہی سمجھتی تھی کہ ملا عمر پاکستان میں مکین ہیں لیکن ریسرچ سے حقیقت سامنے آئی۔ملا عمر کے ولی اللہ ہونے کے بارے میں اظہار خیال کے باوجود Bette Dam ان کی عقیدت مند نظر نہیں آتی بلکہ ایک موقع پر وہ ملا عمر کی دینی اور دنیاوی تعلیم پر شکوک کا اظہار بھی کرتی ہیں۔ملا عمر کی 12 سالہ گوشہ نشینی کے یہ بیشتر واقعات ان کے آخر وقت کے ساتھی عبدالجبار عمری سے Bette Damنے حاصل کی۔ عبدالجبار عمری افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے ادارے میں قید تھے۔تاہم صحافی کا یہ کہنا ہے کہ تمام تر معلومات وہ حاصل کرچکی ہیں وہ ملا عمر کی قبر کا مقام بھی جانتی ہیں لیکن انہوں نے اپنی کتاب میں نشاندہی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ ان کو یہ خدشہ تھا کہ افغان حکام ان کی قبر کی بے حرمتی کریں گے۔

Bette Damنے بتایا کی طالبان قائد ملا عمر 2001 ء کے اختتام پر ساڑھے چار برس کابل دارالحکومت کے علاقے قلات میں گزارے اور باقی ساڑھے سات برس کابل میں ہی ضلع شنگے کے علاقے سیورے میں مکین رہے۔ملا عمر کے ذاتی محافظ عبدالجبار عمری نے Bette Damکو بتایا کہ ملا عمر بہت کم بولتے ہیں،اور جب بولتے تھے تو بہت دھیمی آواز ہوتی تھی۔ عبدالجبار عمری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے پیش کش کی کہ وہ ان کے بیٹے یعقوب کو ملاقات کے لئے لاسکتے ہیں تاہم ملا عمر نے انکار کردیا۔ملا عمر کو تنہا عبادت کرنا پسند تھا اور کبھی کبھی وہ خود کھانا بناتے تھے۔ عبدالجبار سے ان کی بات صرف وقت ہوا کرتی تھی جب دونوں نماز کے لئے وضو کررہے ہوتے تھے۔

Bette Damکے مطابق ملا عمر مہندی اور نسوار طلب کرتے تھے وہ باقاعدگی سے سفید ہوئی داڑھی پر مہندی لگایا کرتے تھے۔ سیورے میں مہزبان خاندان سے ان کی بات صرف اس وقت ہوتی تھی جب اخراجات کے لئے رقم ملا عمر انہیں دیتے تھے۔ صحافی کی اس کتاب کے مطابق ملا عمر زیادہ وقت قرآن اور حدیث کے مطالعہ میں گذارتا تھا،ان کا کہنا تھا کہ ملا عمر کو اس سے مسرت ملتی ہے او روہ عبدالجبار کو قرآنی آیات یاد کراکے سنایا کرتے تھے۔ عبدالجبار کا کہنا ہے کہ قرآن و حدیث کے علاوہ ملا عمر نے کچھ نہ پڑھا اور کافی دیر تک وہ مراقبے کی حالت میں ایک ہی جگہ بیٹھتے رہتے تھے۔ عبدالجبار نے کہا کہ ایک سہ پہر انہوں نے ملا عمر کو دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے دیکھا ان کی آنکھیں بند تھیں۔عبدالجبار کو خدشہ ہوا کہ ملا عمر سو رہے ہیں اور ان کی نماز قضاء ہوجائے گی،لہٰذا انہوں نے ملا عمر کو ہلا کر جگانے کی کوشش کی،ملا عمر اس پر برہم ہوگئے۔تاہم انہوں نے اگلے کھانوں میں عبدالجبار سے معذرت کی اور بتایا کہ وہ عبادت کررہے تھے۔عبدالجبار نے یہ بھی بتایا کہ ملا عمر کے پاس ’نوکیا‘کا ایک پرانا موبائل تھا جس میں وہ سم نہیں ڈالتے تھے ملا عمر فون پر بات کرنے کے شوقین نہیں تھے وہ اپنی آواز میں قرآنی آیات کو ریکارڑ کرتے اور بعد میں سنتے تھے۔بعض اوقات وہ کلاسیک قرآنی عربی بھی بولا کرتے تھے۔Bett Dam لکھتی ہیں کہ عبدالجبار کو لگنے لگا کہ ملا عمر ولی اللہ کے درجے پر پہنچ گئے ہیں اور ان کو الہام ہوتا ہے بعض اوقات وہ ان لمحات کو تحریری شکل میں لانے کی کوشش بھی کرتے تھے او ر اس مقصد کے لئے انہوں نے اپنی ایک زبان بھی ایجاد کی۔اس زبان میں انہوں نے چار موٹی نوٹ بکس بھر دی جو ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے یعقوب کے حوالے کردی گئی۔لکھتی ہیں کہ وہ زیادہ لکھنا پڑھنانہیں جانتے تھے۔Bette Dam کا کہنا ہے کہ عام تاثر یہ بھی ہے کہ ملا عمر نے پاکستان کے مدرسہ حقانیہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ لیکن حقیقت میں صرف انہوں نے بنیاد ی تعلیم حاصل کی تھی۔ بتایا گیا کہ 2013 ء کے اوائل میں ملا عمر بیمار ہوئے،انہیں کھانسی اور قے کی شکایت تھی۔ انہوں نے عبدالجبار عمری کو بتایا کہ ان کا وقت پورا ہے، عبدالجبار نے ڈاکٹر کو بلانے کی بات کی تو انہوں نے انکار کردیا عبدالسمعد نے پاکستان میں ہسپتال لے جانے کی پیشکش کی لیکن ملاعمر نے اسے بھی انکار کردیا۔Bette Dam کے کہنے کے مطابق ملا عمر 23 اپریل 2013 ء میں انتقال کرگئے۔ عبدالجبار عمری کا کہنا ہے کہ اس دن گرم اور خشکی کے مارے افغانستان میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔اس دن شدید ژالہ باری ہوئی تھی۔Bette Damکا کہنا تھا کہ میرا خیال تھا کہ عبدالجبار بات بڑھا چڑھا کر بیان کررہے ہیں لیکن بعد میں امریکی فوج کے ایک جریدے سے پتا چلا کہ عین اسی دن یعنی 23 اپریل 2013ء Task Force Falkan کے اسی سے زائد ہیلی کاپٹروں کو اس وقت شدید نقصان ہوا جو کہ قندھار کے علاقے میں رکے ہوئے تھے۔یہ سارے برگیڈز کے ہیلی کاپٹر تھے۔Bette Damکے مطابق عبدالجبار عمری اور ان کے دو ساتھیوں نے رات کے وقت ملا عمر کی تدفین کی۔ ان کو بغیر تابوت اور بغیر کسی نشانی والی قبر میں سپرد خاک کیا گیا اور پھر عبدالجبار عمری کوئٹہ گئے اور ملا عمر کے سوتیلے بھائی عبدالمعنان اور ملاعمر کے بیٹے یعقوب کو لیکر آئے۔عبدالجبار نے تدفین کی ویڈیو بنا رکھی تھی لیکن ان کے بیٹے یعقوب نے اس پر اسرار کیا اور قبر کھود دی گئی تاکہ وہ اپنے والد کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔سترہ دن کے بعد ایک بار پھر قبر کشائی کی گئی اور ملا عمر کی لاش کو تابوت میں رکھ کر دفنائی گئی۔قصہ مختصر ملا عمر ایک ایسی شخصیت تھی کہ جس کے پیچھے ساری ٹیکنالوجی فیل ہوگئی۔کہا جاتا ہے کہ دو دفعہ کچھ لوگ ان کو پکڑنے کے لئے گئے لیکن ملا عمر کو سامنے دیکھ کر بھی نہ پہچان سکے۔یہ یقینا اللہ کے ولی ہونے کی نشانی ہے۔اللہ سے دعا ہے کہ ملا عمر کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین

٭٭٭