حیدر پورہ سرینگر میں فرضی جھڑپ۔۔ انسانی ڈھال کا استعمال

غلام اللہ کیانی

حیدر پورہ، سرینگر میں بھارتی قابض فورسز نے15نومبر کی ایک سرد شام کو ایک ڈاکٹر اور ایک تاجر سمیت چار کشمیریوں کو جعلی مقابلے میں ماورائے عدالت قتل کیا۔ ان کی لاشیں ایک سو کلو میٹر دور ہندواڑہ کے جنگلوں میں زمین برد کیں۔ مگر ڈاکٹر مدثر گل اور تاجر الطاف احمد بٹ کے افراد خانہ نے مسلسل جدوجہد کی۔ تین راتیں اپنے رشتہ داروں کا ماتم کرنے کے بجائے ان کی لاشیں واپس کرنے کے لئے بھاگ دوڑ میں گزار دیں۔ شدت کی سردی میں سڑکوں پر ایسا دھرنا دیا کہ جب فورسز کے بندوق بردار اہلکار وہاں پہنچے تو ایک شہید کے والد نے اہلکار کی بندوق پکڑ لی اور کہا”آؤ دہشتگردو، مجھے گولی ماردو“، انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ مگر انہوں نے ہار نہ مانی۔ پھر چند افراد نے بھارتی فورسز کو جھکنے پر مجبور کیا۔ دو افراد کی لاشیں ان کے لواحقین کے حوالے کی گئیں اور انھوں نے رات کے اندھیرے میں انہیں آخری رسومات کے بعد دفن کر دیا۔ ان ہی اہلکاروں نے شہید کے کم سن بچے کے سوال پر کہ اس کے والد کو کس جرم میں قتل کیا گیا، اہلکار سنگ دلی اور بے دردی سے ہنستے رہے۔ جیسے کہ اس بچی نے کوئی مذاق کیا ہو یا چٹکلا سنایا ہو جس کے سر سے قابض انتہا پسندوں نے سرکاری بدترین دہشتگردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے ابو جی کا سایہ چھین لیا۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کو معصوم اور نہتے کشمیریوں کے خلاف سنگین جنگی جرائم کی لت پڑ چکی ہے۔

انڈیا آئے روز مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنی مسلح فورسز میں اضافہ کر رہا ہے اس کے ساتھ ہی قابض فورسزنے کشمیریوں کا قتل عام تیز کردیا ہے۔ سرینگر میں انٹرنیشنل ائر پورٹ کے قریب حیدر پورہ علاقہ میں قابض بھارتی فورسز نے پیر کی شام ساڑھے پانچ بجے ایک شاپنگ کمپلیکس میں گھس کر ایک ڈینٹل سرجن ڈاکٹر اور ایک تاجر سمیت چار افراد کو فرضی جھڑپ کے دوران شہید کر دیا۔ دو افراد کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے شہید کیا گیا۔ ان کی نعشیں لواحقین کو دینے کے بجائے تقریباً ایک سو کلو میٹر دور ہندواڑہ کے علاقہ میں زمین برد کی گئیں۔ کشمیر پولیس کے انسپکٹر جنرل وجے کمار من گھڑت کہانی میڈیا کو بتا کر سچائی کو چھپا رہے ہیں۔ قابض فورز کا کہنا ہے کہ عمارت میں حیدر نامی پاکستانی مجاہد اور اس کا ساتھی تھے اور دو لوگ کراس فائرنگ میں مارے گئے۔ بھارتی قابض فورسز ہمیشہ فرضی جھڑپوں کے بعد ایسے ہی دعوے کرتے ہیں۔بھارتی فورسز اور ان کے ایجنٹ ٹاسک فورسز افسران اب یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کر سکتے ہیں کہ گزشتہ دنوں میں سرینگر میں چند غیر مسلم ہلاک کئے گئے، ان ہلاکتوں میں حید ر پورہ میں قتل کے گئے لوگ ہی ملوث تھے۔فرضی جھڑپ کے دوران شہید دو شہریوں کے رشتہ دارمظاہرے کرتے رہے۔ان کا کہناتھا کہ ماورائے عدالت قتل کئے افراد کا جنگجوئیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ الطاف احمدبٹ اور مدثر گل کے اہل خانہ نے پریس کالونی میں احتجاجی مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ ان کے رشتہ داروں کی لاشوں کو مناسب تدفین کے لیے واپس کیا جائے، جنہیں پولیس کے مطابق امن و امان کی صورتحال مدنظر رکھتے ہوئے ہندواڑہ میں دفن کیا گیا۔ مدثر گل کی والدہ نے کہا کہ ان کا بیٹا مجاہدین کا بالائے زمین کارکن نہیں تھا بلکہ ایک ڈاکٹر تھا اور اس کا جنگجوؤں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔”میرا بیٹا بے قصور تھا، اسے کیوں مارا گیا؟ اس کا جرم کیا تھا؟”۔ ”ہمیں اس کی لاش دی جائے، ہمیں اب اس کی لاش کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے“۔یہ ایک والدہ کا غم ہے کہ جس کا بیٹا بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ اس کی لاش سو کلو میٹر ایک جنگل میں زمین برد کی گئی۔ لواحقین کو کفن دفن کی اجازت تک نہ دی گئی۔ پھر وہ یہ مطالبہ کرنے پر مجبور ہوئے کہ ظالمو ہمیں اپنے بچوں کی نعشیں ہی حوالے کر دو۔ حیدر پورہ میں شہید دو شہریوں میں سے ایک ڈینٹل سرجن تھا۔ ڈاکٹر مدثر گل کے بہنوئی عرفان احمد نے میڈیا کو بتایا کہ ڈاکٹرمدثر گل ساکن راولپورہ،سرینگرنے بھارتی صوبے مغربی بنگال کے شہر بنگلورو میں بی ڈی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ مختصر وقت تک اس نے جموں کشمیر سے باہر پریکٹس کی۔ واپسی پر وہ سرینگر کے علاقہ پرے پورہ سے راولپورہ منتقل ہوگئے اور ائر پورٹ روڑ پر اس نے کڈس وئر کی دکان کھولی۔ بعد میں اسے مذکورہ مکان میں ہی منتقل کردیا جہاں اس نے پراپرٹی اور کنسٹریکشن کے کاروبار سے منسلک ہونے کی وجہ سے ایک آفس کھولا تھا۔23سالہ عامر لطیف ماگرے ولد محمد لطیف ماگرے ساکن فہمروٹ سیری پورہ سنگدان گول، رام بن کو بھی اس فرضی جھڑپ میں قتل کیا گیا۔یہ مکافات عمل تھا۔ ان کے والد لطیف ماگرے کے مطابق الطاف احمد بٹ سیمنٹ و بلڈنگ میٹریل کی دکانیں چلا رہا تھا اور عامر اس کے پاس 6مہینے سے کام کررہا تھا۔ لطیف نے کہا کہ 2005میں اس نے ایک مقامی جنگجو یاسر بٹ کو مارا تھا۔جس نے مبینہ طور پر اس کے چچاذادبھائی عبدالقیوم اور بہن رفیقہ اختر کو ہلاک کیا، لطیف خود اس وقت پیٹ میں گولی لگنے سے زخمی ہوا، البتہ بچ گیا۔اس واقعہ کے بعد لطیف نے اپنے آبائی علاقے سے اودہمپور ہجرت کی اور 2011میں واپس آیا۔ابھی بھی انڈین ریزرو پولیس فورس(آئی آر پی ایف) کے اہلکار اس کے مکان کی حفاظت پر معمور ہیں۔اس نے سوال کیا کہ اس کے بیٹے کو بھی فرضی جھڑپ میں جنگجو قرار دے قتل کیا گیا۔

مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اورعمرعبداللہ کے علاوہ نیشنل کانفرنس کے اراکین پارلیمان،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیارہنمااور سجادغنی لون سمیت کئی بھارت نواز سیاستدان حیدرپورہ سانحہ کی غیرجانبدارانہ عدالتی تحقیقات کرانے کامطالبہ کر رہے ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اعتراف کیا کہ ”ماضی میں فرضی تصادم کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں اور حیدر پورہ میں ہوئے انکاونٹر کے بارے میں اٹھائے جارہے سوالات کا فوری اور قابل اعتبار انداز میں جواب دینے کی اشد ضرورت ہے“۔اس لئے معاملے کی معیاد بنداورغیرجانبدار تحقیقات ہو۔۔ٹوئٹرپر ایک صارف نے الطاف احمد کی کم سن دختر کی ویڈیوبھی شیئر کی گئی ہے۔ جس پرردعمل ظاہر کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا،”بھارتی فوج کی جانب سے معصوم شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور استعمال کرنا،اورانہیں گولیوں کے تبادلے میں ہلاک کرڈالنا اورپھرآسانی کے ساتھ انہیں جنگجوؤں کا بالائے زمین کارکن قرار دینا،اب حکومت ہند کے ضوابط کی کتاب ہے۔“بھارتی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) رہنما یوسف تاریگامی نے بھی اعتراف کیا کہ کشمیرمیں قانون کی خلاف ورزی مسلسل جاری ہے،جونہایت ہی بدقسمتی ہے۔لوگوں کی بلاجوازگرفتاریوں سے لیکرانہیں کالے قوانین کے تحت قیدکرنا اوراب شہریوں کوانسانی ڈھال کے طور استعمال کرنے سے حالات بد سے بدترین ہوتے جارہے ہیں۔

بھارت کشمیریوں کو ایسی ہی فرضی جھڑپوں میں ماورائے عدالت قتل کرنے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں تازہ دم فورسز دستے داخل کر رہا ہے۔ بھارتی فوجی کشمیریوں کا قتل عام کرتے ہیں اور ان کے خلاف سنگین جنگی جرائم کے مقدمات اور سزائیں دینے کے بجائے پرموشن کی جاتی ہے، انہیں میڈلز ملتے ہیں۔ آج تک کسی بھارتی قاتل فوجی کو سزا نہیں ملی۔ بدنام زمانہ کالے قوانین کے تحت وہ شہریوں کا قتل کر کے انہیں دہشتگرد قرار دیتے ہیں، اس کے بدلے میں تمغے، انعامات حاصل کرتے ہیں اور سزا سے بچ جاتے ہیں۔ بھارتی شہری، ان کی سول سوسائٹی، انسانہ حقوق کے کارکن قاتل فورسز کے ان کارناموں پر خاموش ہو جاتے ہیں۔ میڈیا کو سچ لکھنے اور دکھانے کی اجازت نہیں۔ عالمی آزاد میڈیا اور انسانی حقوق اداروں کا مقبوضہ کشمیر میں داخلہ منع ہے۔ ایسے میں معصوم کشمیریوں کا قتل عام جاری ہے۔ ان ہیں اب قتل ہونے والوں کا ماتم کرنے کی بھی اجازت نہیں۔

ایسا مقبوضہ کشمیر میں پہلی بار ہوا کہ فورسز جعلی جھڑپ میں قتل کرنے کے بعد انہیں دور لے جا کر زمین برد کئے گئے دو کشمیریوں کی لاشیں 76گھنٹے بعد لواحقین کو واپس کرنے پر مجبور ہوئے۔ تھوڑے سے لوگ اگر مرنے مارنے پر آ جائیں تو وہ ہر کالا قانون بدل سکنے کی سکت رکھتے ہیں۔ سرینگر کا یہ واقعہ سب کے لئے چشم کشا ہے۔ رواں سال کے شروع میں بھارتی سپریم کورٹ نریندرمودی حکومت کے تینوں کالے زرعی قوانین کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی۔سماعت کے دوران مودی حکومت کے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی سربراہی والی بنچ کے سامنے کہا کہ دلی کی سرحدوں پر کسانوں کے احتجاج میں خالصتانیوں نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔ وہ آئی بی (انٹلیجنس بیورو) کی مدد سے اس معاملے میں حلف نامہ بھی داخل کرنے کا اعلان کر رہے تھے۔اٹارنی جنرل نے کسانوں کی تحریک میں کالعدم تنظیم سکھس فار جسٹس کے ملوث ہونے کا دعویٰ کیا۔بھارت مقبوضہ کشمیر میں بھی آزادی کی تحریک میں پاکستان کے ملوث ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔یہی بات دلی اسمبلی انتخابات سے قبل ایک ریلی میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہی کہ کشمیر میں جنگجوؤں کی حمایت کرنے والے شاہین باغ میں شہریت کے ترمیمی قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔بھارتی کسانوں کی تحریک ایک سال سے چل رہی ہے اور سی اے اے کے خلاف بھی کئی مہینوں تک تحریک چلی۔ کسانوں کی تحریک میں سکھ کسانوں کی شرکت نمایاں رہی۔شہریت کے کالے قوانین سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت کرنے والوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔سکھوں کو خدشہ تھا کہ مودی حکومت کے تین نئے زرعی قوانین کے نتیجے میں فصلوں کو اونے پونے کم قیمت پر فروخت کرنا ہوگا اور مسلمانوں کو سی اے اے (سٹیزن شپ ایکٹ) اور این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) سے ڈر ہے کہ اس سے ان کی شہریت خطرے میں پڑ جائے گی۔جب خالصتانیوں نے دنیا بھر میں آزادی کے لئے ریفرنڈم مہم شروع کی تو مودی نے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کر دیا۔یہ درست ہے کہ خالصتان تحریک کے دباؤ نے مودی کو ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی نے سکھ مذہب کے بانی گرو نانک کے یوم پیدائش کے دن زرعی قوانین واپس لینے کا اعلان کیا۔ ثابت ہوا کہ اگر منظم انداز میں تحریک چلائی جائے تو کالے قوانین کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اب اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا مودی حکومت سی اے اے اور این آر سی بھی واپس لے گی؟۔زرعی قانون پر مودی حکومت جھکنے پر مجبور ہوئی۔بھارتی وزیر ذراعت نریندر سنگھ تومر کہہ رہے تھے کہ مٹھی بھر کسان ذراعت قانون کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ کسانوں کی بڑی تعداد اس کی حمایت میں ہے۔تو مٹھی بھر کسانوں نے کالے قوانین کو ایک سال بعد واپس لینے پر مودی جیسے انتہا پسند، فاشسٹ حکمران کو مجبور کیا۔ سچ یہ ہے کہ عوامی تحریکوں کو کوئی ختم نہیں کرسکتا۔ یہ کامیاب ہوتی ہیں۔ کامیابی کے لئے اپنا راستہ بناتی ہیں۔ اگر حیدر پورہ سرینگر کی فرضی جھڑپ میں قتل کئے گئے دو افراد کے مٹھی بھر لوگ عزم اور ضد کر لیں تو بھارت جیسے قابض ملک کو جھکا سکتے ہیں۔ اگر مٹھی بھر سکھ کسان عزم اور ضد کر لیں تو ان کی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے۔کسانوں کی تحریک کی کامیابی کو ہم بلا شبہ بھارتی صوبوں کے آئیندہ انتخابات سے جوڑ لیں یا کچھ بھی دلائل دیں مگر ان کی تحریک بھی سرینگر کے مٹھی بھر افراد کی یکسوئی، مسلسل کھڑے رہنا، کمزوری نہ دکھانے کی وجہ سے نتیجہ خیز ثابت ہو ئی۔ بھارتی انتہا پسند، جنونی حکومت کی کئی بڑی اور سنگین غلطیاں منظر عام پر آ رہی ہیں جن میں نوٹ بندی، جی ایس ٹی قانون کا زبردستی نفاذ، لداخ میں چینی فوج
سے شکست، شہریت کامتعصبانہ کالا قانون،لڑاکا طیاروں رافیل سودے میں بے ایمانی جیسے سانحات شامل ہیں۔اگر مٹھی بھر لوگ منظم اور یکسوہو کر مجبور کرنے کا عزم اور ضد کرلیں توبھارت مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370اور35اے بھی ختم کرنے اور کشمیر میں رائے شماری پر مجبور ہو سکتا ہے۔

٭٭٭