عروج آزاد
دنیا میں اگر اللہ تعالیٰ نے کسی میں محبت کی انتہا رکھی ہے تو وہ انسان ہے ۔ انسان ایک ایسی ہستی ہے جو کائنات میں موجود ہر شے سے پیار و محبت رکھتا ہے ہر دور میں مسلمانوں نے اپنی مذہب کے ذرےعے حسن سلوک کا درس دیا ہے ۔ بقول اقبال
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

مسلمانوں کا مذہب کا ئنات میں ہر مذہب سے افضل اور ہر مسئلے پر راہنمائی کرنے والاہے لیکن آج افسوس کے ساتھ مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہورہا کہ ایسے کام ہم کررہے ہیں اور کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ،جنہیں دیکھ کے شیطانیت بھی شرمارہی ہوگی ، ایسا ہی ایک دلوں کو دہلادینے والا واقعہ سیالکوٹ میں پیش آیا ۔ سری لنکن منیجر پرنتھاکمارا کو پہلے انتہائی تشدد سے مارا گیا اور اس پر ستم یہ کہ لاش کو آگ لگا دی گئی ۔ کہا گیا ہے کہ پرنتھاکمار نے دیوار پر لگے اسلامی سٹیکرز ا تار کر اسلام کی توہین کی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ پرنتھاکمارا دین اسلام کی توہین کا مرتکب ہوا تھا لہذا وہ مسلمانوں کے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مارا گیا مگر میں حیران ہوں کہ میں آج تک مشتعل ہجوم سے کیونکر بچی ہوئی ہوں جبکہ سٹیکر اتار کر اسلام کی جتنی توہین پرنتھاکمارا نے کی تھی اس سے کہیں زیادہ دوسرے بہت سے بچوں کی طرح میرے بچپن کے دنوں میں میرے ہاتھوں سرزد ہوچکی ہیں ۔ میرے خیال میں پرنتھاکمارا غیر مسلم ہونے کے باعث کس قدر رعاےت کا مستحق تھا کےونکہ اس کو عذاب الٰہی سے ڈرانے والا کوئی نہ تھا جبکہ میرے پاس تو کشوری بیگم جیسی راسخ العقیدہ خوف خدا رکھنے والی اور عشق رسول میں پور پور ڈوبی ہوئی استاد موجود تھیں مگر اس کے باوجود مجھ سے دین اسلام کی شان میں گستاخی! جیسا سنگین گناہ ایک بار نہیں کئی بار سرزد ہوا آج سے کافی عرصہ قبل جب میری عمر بمشکل پانچ سال تھی، میں محلے کے ایک گھر میں ایک عمر رسیدہ خاتون سے سپارہ پڑھنے جایا کرتی تھی، یہ خاتون حافظ قرآن اور صوم و صلوٰۃ کی پابند تھیں ۔ ہمیشہ سفید چوڑی دار پاجامے اور پھول دار قمیض اور سفید چادر میں ملبوس رہا کرتی تھیں اور محلے کے بچوں کو مفت قرآن کی تعلیم دیتی تھیں ۔ انہیں مدےنے سے عشق تھا اور ان کی شدید خواہش تھی کہ انہیں گنبد خضرا کی زےارت نصیب ہو ۔ کشوری بیگم کے مالی حالات چونکہ اچھے نہ تھے، خود بیوہ تھی اور اکلوتا بیٹا سبزیوں کا ٹھیلہ لگایا کرتا تھا لہٰذا گنبدخضرا کی زےارت کی آرزو دل میں لئے اس جہاں فانی سے کوچ کرگئی مگر بلاوا نہ آسکا ۔ کشوری بیگم ہمیشہ ناظرہ پڑھانے کے ساتھ ساتھ مشہور و معروف مذہبی شخصیات سے منصوب معجزات کے قصے اور مذہب اسلام کی توہین کا ارتکاب کرنے والے کافروں ، مرتددوں ، نافرمانوں اور گستاخوں کے عبرت ناک قصے کچھ اس انداز میں سناتی تھیں کہ ہمارے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے، مثال کے طور پر ان کے مطابق ایک شخص نے خانہ کعبہ کے نزدیک جھوٹی قسم کھائی اور و ہ دیکھتے دیکھتے سانپ میں تبدیل ہوگیا، ایک ڈاکو جو قربانی کا جانور خریدنے کے ارادے سے آنے والے شخص کو لوٹ کر فرار ہوادیکھتے دیکھتے وہ کالے کتے میں تبدیل ہوگیا اور ایک ٹرک تلے کچل کر مارا گیا ۔ ایک لڑکی جس نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی تھی وہ بندریا میں تبدیل ہوگئی ۔ یہ تمام قصے اس قدر دل کو دہلانے والے تھے کہ اگر بھولے بھٹکے بھی کبھی کوئی ایسا فعل سرزد ہوجاتا جس میں خدا کی ناراضگی کا رتی بھر امکان ہوتا تو کہیں کہیں دن دل میں عذاب الٰہی کا خوف نہ جاتا ۔ کشوری بیگم کا اصول تھا کہ وہ بچوں کو ابتدائی پارے قرآن سے نہیں پڑھاتی تھی بلکہ پہلے پارے ےعنی الم سے لے کر پانچ پارے ےعنی والمحصنت تک علٰیحدہ علٰیحدہ سپاروں میں پڑھایا کرتی اور جب کوئی بچہ پانچ سپارے مکمل کرلیتا تو چھٹا سپارہ ےعنی لا یحب اللہ باقاعدہ قرآن سے پڑھاتی ۔ جب میں نے پہلا سپارہ مکمل کر لیا تو امی نے نزدیکی بک سٹال سے مجھے دوسرا سپارہ منگواکر دیا جس کے صفحات کو جوڑنے والی پن (;80;in ) اتفاق سے بہت ڈھیلی تھی اسی وجہ سے چند دن بعد سپارے کے تمام صفحات کچھ اس طرح علیحدہ علیحدہ ہوگئے کہ انہیں سنبھالنا مشکل ہوگیا ۔ ایک سہ پہر جب کشوری بیگم کے گھر کے صحن میں بیٹھی سبق یاد کررہی تھی تو ہوا کا جھونکا کچھ اس طرح سے آیا کہ سپارے کے اوراق ساتھ لے کر گیا ۔ میں نے انہیں سنبھالنے کی کافی کوشش کی مگر وہ تےز ہوا کے دوش پر اڑتے ہوئے آسمان میں نہجانے کہاں لاپتہ ہوگئے ۔ معاملہ چونکہ قرآن اور حرمت قرآن کا تھا، میرے نزدیک یہ واقعہ ایک سانحے سے کم نہ تھا ۔ سزا کے خوف کے باعث یہ واقعہ میں نے کشوری بیگم سے چھپا لیا لیکن گھر پہنچتے ہی ضبط جواب دے گیا تو میں نہ صرف خوف خدا سے ہلکان ہوگئی بلکہ بیمار ہو کر بستر پر پڑگئی ۔ امی کو جب اس واقعہ کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے مجھے تسلیاں دےنے کے بعد کفارے کے طور پر یا شاید میرے دل میں موجود عذاب الٰہی کا خوف کم کرنے کی غرض سے آٹے کے کنستر سے تقریباً دو کلو نکال کر پچاس کے نوٹ کے ساتھ گلی سے گزرنے والے بھکاری کو تھمادیا اور اس سے جانے انجانے سے سرزد ہونے والی تمام گناہوں کو بخشش کی درخواست بھی کردی ۔ جب بھکاری دعائیں دیتا ہوا رخصت ہوگیا تو تب میرے دل سے عذاب کا خوف کچھ کم ہوگیا ۔ یہ دین اسلام کی شان میں سب سے پہلی گستاخی تھی جو میرے ہاتھوں سرزد ہوئی ۔ دوسری بار میں گستاخی کی مرتکب تب ٹھہری جب ہم لوگوں نے اپنا گھر تبدیل کیا اور جس نئے گھر میں ہم شفٹ ہوئے تھے وہاں پر ہمارے جانے سے پہلے جو لوگ رہ کر گئے تھے وہ شاید بہت مذہبی تھے اور انہوں نے گھر میں جگہ جگہ پر قرآن آیات کے سٹیکرز لگائے ہوئے تھے حتیٰ کہ واش روم کے دروازے پر بھی واش روم جانے کی دعا کا سٹیکر لگا ہوا تھا اور جب دروازہ کھولو تو وہ اندرکی طرف ہوجاتا تھا اس لئے میری دادی نے کہا کہ یہ اتاردو تاکہ اس کی بے حرمتی نہ ہو اور میں نے جب اس کو اتارنے کی کوشش کی تو وہ پھٹ گئی اور پھر میں نے اس کو آگ لگا کر جلادیا اور پھر راکھ کو گملے میں ڈال دیا تاکہ وہ پاءوں کے نےچے نہ آئے ۔ پرنتھا کمارا غیر مسلم ہونے کی وجہ سے اتنی بڑی سزا کا مستحق تھہرایا گیا ۔

گونگی ہوگئی آج کچھ زبان کہتے کہتے
ہچکچا گیا میں خود کو مسلمان کہتے کہتے
افسوس کہ ہم وہ قوم ہیں کہ بڑے بڑے کافروں کو اپنے حسن سلوک سے اسلام لانے پر مجبور کرنے والے اسلام سے نفرت سکھا رہے ہیں ۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہمیں کیا ہوگیا ہے، کیا ہم اپنے دین اسلام کو بھول گئے ہیں ، کہ ہم خودہی قاضی،مفتی، حاکم اور جلاد بن گئے ہیں ۔
لکھنے کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ہے بلکہ صرف صحیح معنوں میں اصلاح کرنا ہے کہ مسلمانو! اپنی اصلیت کو پہچانو اللہ کی کتاب قرآن مجید سے راہنمائی لو ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہ میں عقل سلیم کو استعمال کرنے اور تمام مسائل کو سمجھنے کی توفیق دے ۔ (آمین)
٭٭٭