
غلام اللہ کیانی
سلامتی کونسل نے جموں و کشمیر پر منظور ہونے والی اپنی پہلی قراردادمیں ہی ہدایت کی تھی کہ اسے جموں و کشمیر کی صورتحال میں کسی بھی مادی تبدیلی کے بارے میں فوری طور پر آگاہ کیا جائے۔ تا کہ وہ اس پر ضروری کارروائی عمل میں لا سکے۔ کیا پاکستان،بھارت یا کسی غیر جانبدار ملک یا عالمی ادارے نے اس ہدایت پر کبھی عمل کیا۔ہدایت کی خلاف ورزی کرنے والا بھارت کبھی بھی سلامتی کونسل کو اپنی حرکت سے آگاہ نہیں کر سکتا۔مگر پاکستان سلامتی کونسل کو آگاہ کرنے میں آزاد ہے۔ سلامتی کونسل کی ہدایت کی تعمیل کا بھی تقاضا ہے کہ پاکستان جموں و کشمیر کی صورتحال سے عالمی ادارے کو آگاہ کرے۔ بھارت، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداوں کی کھلی پامالی اورمقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی گورنر انتظامیہ ریاستی اسمبلی کویکسر نظرانداز کرتے ہوئے نت نئے کشمیر دشمن قوانین نافذالعمل کرنے میں مصروف کارہے۔ جن کا بنیادی مقصد جغرافیہ کی تبدیلی،کشمیر دشمنی اور اسلامیان کشمیر کو اقلیت میں بدلنا ہے۔ کشمیریوں کو خودکفالت کے بجائے دہلی کا محتاج بنانے اور معاشی طور پر لاچار کرنے کے اقدامات بھی تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ کشمیر کی آزادی پسند قیادت پابند سلاسل ہے اور بھارت نواز خوفزدہ ہیں۔ ایسے میں عوام کے بنیادی حقوق کا پاسدار کوئی نہیں جوعوام کش کالے قوانین کے خلاف آواز بلند کرسکے۔کسی طرف سے بھارت پر سیاسی اور سفارتی دباؤ کا بھی کوئی خطرہ نہیں۔ چند بھارت نواز مبہم انداز میں سہمے ہوئے منظر عام پر آ کر غائب ہو جاتے ہیں۔کشمیری عوام کی آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز جیسی ہے۔

بھارت نے گورنر انتظامیہ کی وساطت سے پہلے ریونیو ایکٹ 1996میں ترمیم کی۔ پھر نئی زرعی اراضی پالیسی کا اعلان کیا گیا۔کبھی زرعی اراضی کا غیر زرعی مقاصد کے لئے استعمال ایک جرم تھا۔ مگر اب کشمیر کے زرعی رقبہ جات پر رہائشی منصوبے شروع کئے گئے ہیں۔ سرینگر کے قریب پانپوراور پلوامہ کے علاقے کبھی عالمی سطح پر بہترین زعفران کی پیداوار کے لئے مشہور تھے۔اب یہاں بھارتی پٹرولیم کمپنیاں اور دیگر تعمیرات ہو رہی ہیں۔ یہ رقبہ جات بھارتی شہریوں کو سو سالہ لیز پر فروخت کئے جا رہے ہیں۔
5 لاکھ بھارتی شہریوں اور فورسز کوکشمیر کی شہریت دینے کے ساتھ بھارت نے قوانین کو اس لئے تبدیل کیا او رنئے ظالمانہ قوانین نافذ کئے تا کہ کشمیر میں مزید فوجی چھاؤنیاں قائم کرنے سمیت مزید بھارتی شہریوں، فورسز، فرار پنڈتوں کے لئے بستیاں تعمیر کی جا سکیں۔نیز اس طرح کا سازگار ماحول پیدا کر کے زرعی اراضی بھارتی سرمایہ کاروں کو دی جا رہی ہے۔ لوگوں سے زمین چھین لینے کے لئے صنعتی پالیسی بھی تبدیل کی جا رہی ہے۔کشمیر کی زمین نجی صنعت کاری کے نام پر بھارتی صنعت کاروں کو دینے کے لئے صلاح و مشورے ہو رہے ہیں۔ گو کہ کشمیر کے مقامی افسران حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔ مگر انہیں دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ پالیسی سازی میں کشمیری افسران کا کوئی کردار نہیں۔ سول اور پولیس انتظامیہ کٹر، شدت پسند اور کشمیر دشمن افسران کے سپرد کر دی گئی ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر غیر کشمیری براجمان ہیں یا انتہا پسندوں کا قبضہ ہے۔ اس لئے بھارت اور اس کے ایجنٹ من مانیاں کرنے میں آزاد ہیں۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ وادی میں گذشتہ تین دہائیوں میں 50ہزار کنال زرعی اراضی کا نام ونشان مٹ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے وادی میں خوراک، سبزیوں اور دیگر کھانے پینے کی اشیا کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر لینڈ ریونیو ایکٹ کے مطابق کوئی بھی شخص زرعی اراضی کو محکمہ مال کی اجازت کے بغیرغیر زرعی کام میں استعمال نہیں کرسکتا اور زمین زراعت کے بغیر کسی بھی کام میں استعمال کرنے کیلئے اجازت حاصل کرنا لازمی ہے۔2016میں زمین استعمال کرنے کی نئی پالیسی ترتیب دے کرزرعی زمین پر کوئی بھی دیگر کام کرنے کی پابندی ختم کردی گئی۔2016کی لینڈ ریونیوز پالیسی میں صاف طور پر واضح کیا گیا تھا کہ کوئی بھی شخص 2کنال اراضی تعمیراتی کاموں کیلئے استعمال کرسکتا ہے اور اس کیلئے کوئی بھی پیشگی اجازت کی ضرورت نہیں ہوگی۔پالیسی کے تحت 2کنال اراضی سے زیادہ کی زمین پر زراعت کے بجائے دیگر کام کرنے کیلئے سرکاری اجازت نامہ لازمی قرار دیاگیا تھا۔ لوگوں کو اجازت فراہم کرنے کیلئے ضلع ترقیاتی کمشنروں کی قیادت میں کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں۔بی جے پی حکومت نے زرعی قوانین میں ترمیم کی۔ نئے قوانین کے مطابق زمین کے مالک کو اس بات کا اختیار ہو گا کہ وہ اپنی زرعی اراضی کسی غیر کاشت کار کو بھی فروخت یا اس کا تبادلہ کر سکتا ہے۔بھارتی لیفٹننٹ گورنر نے ایک اور پالیسی ترتیب دی جس کے تحت ضلع مجسٹریٹ کو اختیارات دیئے گئے ہیں کہ وہ 30 روز کے اندر اراضی کی تبدیلی کے متعلق درخواست کو منظور کرے۔جموں و کشمیر اِنتظامی کونسل کی ایک میٹنگ میں زرعی قوانین میں تبدیلی کر کے زرعی زمین کو غیر زرعی امور کے لئے استعمال کرنے کا عمل آسان بنایا گیاہے۔مقبوضہ کشمیر میں محکمہ زراعت کے مطابق سال 1990میں کشمیر میں کل زرعی اراضی 2لاکھ 62ہزار کنال تھی جس میں ایک لاکھ 62ہزار کنال اراضی پرچاول، ایک لاکھ کنال اراضی پر مکئی کی کاشت ہوتی تھی۔اب141.3ہزار ہیکٹر اراضی پرچاول،80ہزار ہیکٹر پر مکئی اور63.7ہزار ہیکٹر پر سبزیوں کی کاشت ہوتی ہے۔اب 50ہزار کنال زرعی اراضی غائب ہو چکی ہے۔ 1970کی دہائی میں ہر ایک گاؤں میں کسانوں سے اضافی چاول کی پیدوار حکومتی سطح پر خریدی جاتی تھی جسے متعلقہ دیہات میں ہی شالی سٹوروں میں ذخیرہ کیا جاتا تھا۔مگر اب ایسا نہیں ہے۔


بھارت بھی پریشان تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں طویل لاک ڈاؤن، ناکہ بندیوں، معاشی پابندیوں کے باوجود عوام نے جھکنے کا نام نہ لیا۔ اس کی بڑی وجہ کشمیر کا غلے کی پیداوار میں خود کفیل ہونا ہے۔ بھارت اس خود کفالت کو مختلف کالے قوانین نافذ کر کے ختم کرنا چاہتا ہے۔ جہاں تک نئی حد بندی کا معاملہ ہے، اس میں بھی کشمیر دشمنی کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ خطے میں سماج کے پسماندہ طبقے کو با اختیار بنانے کی آڑ میں شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائب کو اسمبلی میں 12مزیدنشستیں دی جا رہی ہیں۔ علاوہ ازیں جموں کو 6اور وادی کو ایک اضافی نشست دی جا رہی ہے۔ یعنی جموں، کٹھوعہ، اودھم پور، رام بن، ریاسی، سامبا جیسے ہندو اکثریتی اضلاع کو مزید 18نشستیں ملیں گی۔ جس کے بر عکس وادی کشمیر کو صرف ایک سیٹ ملے گی۔

مقبوضہ کشمیر کو بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں نمائیندگی دی گئی ہے۔ایوان زیریں یا لوک سبھا میں سرینگر، بارہمولہ، اننت ناگ، جموں، اودھمپور اور لداخ کی کل 6سیٹیں ہیں۔جن پر الیکشن ہوتے ہیں۔ مقبوضہ ریاست کی اسمبلی اگست 2019سے پہلے 90نشستوں پر مشتمل تھی۔علاوہ ازیں آزاد کشمیر کے لئے 21سیٹیں مختص کی گئی تھیں۔ اسمبلی کی مدت دیگر بھارتوں صوبوں کے برعکس 6سال ہے۔ مقبوضہ ریاست کے دو ڈویژن تھے۔ جموں اور کشمیر۔ لداخ کو کشمیر کے ساتھ شامل رکھا گیا تھا۔ لداخ کی کل چار نشستیں تھیں۔ کشمیر اور لداخ کو ملا کر 50نشستیں بنتی تھیں۔ جموں ڈویژن 40اسمبلی سیٹوں پر مشتمل تھا۔جموں میں پونچھ، راجوری، ڈوڈہ، کشتواڑ، بھدرواہ، بانہال جیسے مسلم اکثریتی اضلاع اور علاقے بھی شامل ہیں۔بھارتی حد بندی کا مقصد بھی جموں کو زیادہ سیٹیں دینا ہے۔ نئی حد بندی کے تحت جموں کی 58اوروادی کشمیر کی 47سیٹیں ہو جائیں گی۔اس کے بعد اسمبلی الیکشن کا اعلان ہو سکتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کشمیر کو جموں سے کنٹرول کیا جائے۔جو کہ پہلے ہی عملی طور پرجموں اور دہلی براہ راست کشمیر پر حکومت کر رہے ہیں۔ جمہوریت کا نعرہ ڈرامہ ہے۔ لداخ کو مقبوضہ ریاست سے الگ کر کے اسے بھی دہلی کے براہ راست قبضے میں دیا گیا ہے۔ حد بندی کمیشن کا مسودہ بالکل غیر شفاف، غیرمنصفانہ اور حد بندی اصولوں کے بر خلاف ہے۔بھاجپا جموں وکشمیر میں اپنے سیاسی ایجنڈے کو حد بندی کمیشن کے ذریعے آگے بڑھارہی ہے۔ایسے کالے قواعد و ضوابط بنائے گئے ہیں جن کے تحت جموں صوبے کو زیادہ سیٹیں ملتی ہیں۔ حد بندی کمیشن کی رپورٹ کو ترتیب دیتے وقت رقبہ، جغرافیہ اور خط اہم عنصرتھے مگر ان پر عمل نہ کیا گیا۔ بھاجپا مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کر رہی ہے۔ مودی حکومت ایک بار پھر کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام کرانے کے لئے ماحول سازگار بنا رہی ہے۔ اگر بھارت کے کالے قوانین پر نظر دالی جائے تو بھی5اگست2019کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر سے متعلق لئے گئے تمام بھارتی فیصلے غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں۔حدبندی کمیشن کا قیام بھی اس زمرے میں آتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ حدبندی کمیشن کی رپورٹ کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔بھارتی عدالتیں بھی جانبدار ہیں۔جموں کی سیاسی جماعت پینتھرز پارٹی کے سربراہ بھیم سنگھ 1994میں ہوئی حدبندی کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیامیں گئے۔ اُن کا چیلنج مسترد کیا گیا۔ حدبندی کمیشن کا قیام بھارتی قانون کے تحت بھی غیر قانونی ہے۔ یہ 5اگست2019کے فیصلوں کا نتیجہ ہے۔حدبندی کمیشن کو جو منڈیٹ دیا گیا ہے وہ جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019کے تحت دیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداوں کے تحت بھارت کسی بھی طور پر مقبوضہ ریاست پر اپنے قوانین نافذ نہیں کر سکتا ہے۔ لیکن وہ مسلسل من مانی کر رہا ہے۔ بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننا چاہتا ہے مگر وہ سلامتی کونسل کے فیصلوں کی سات دہائیوں سے پامالی کر رہاہے۔ سلامتی کونسل کی کشمیر پر منظور ہونے والی پہلی ہی قرارداد یواین ایس سی آ ر 38آف1948میں کہا گیا کہ سلامتی کونسل کو جموں و کشمیر کی صورتحال میں کسی بھی مادی تبدیلی کے بارے میں فوری طور پر آگاہ کیا جائے۔بھارت آئے روز غیر معمولی تبدیلیاں کر رہا ہے۔ اس بارے میں سلامتی کونسل کو کون آگاہ کرے گا۔ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین بھی کشمیر میں موجود ہیں مگر ان کا منڈیٹ صرف جنگ بندی لائن پر ہونے والی کسی خلاف ورزی سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو آگاہ کرنا ہے۔پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کو بھارتی اقدامات کے بارے میں آگاہ کرتا رہے تاکہ سلامتی کونسل مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات اور عوام کش کالے قوانین کا نوٹس لینے پر مجبور ہو۔
٭٭٭
غلام اللہ کیانی مقبوضہ کشمیر کے معروف صحافی اور کالم نگار ہیں