
فاروق عادل
ہمارے عہد کا بہشتی زیور
جانے کیا وجہ رہی ہوگی کہ میری والدہ کو جہیز میں بہشتی زیور نہیں ملا۔ یہ خلش ہمیشہ ہمیشہ ان کے دل میں رہی۔ پھر وہ زمانہ آیا جب میں نے سائیکل چلانا سیکھی اور تنہا بازار جانا شروع کیا۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے کہ ایک روز انھوں نے مجھے کچھ رقم دی۔ میں پیڈل مارتا ہوا سیدھا اردو بازار پہنچا اور اللہ ان کی مغفرت فرمائے، محمود صاحب کی دکان سے بہشتی زیور خرید لایا۔ اس روز میری والدہ کے چہرے پر پھیلی ہوئی خوشی دیکھنے والی تھی۔ ہمارے والدین اور ہمارے زمانے میں ایک فرق رونما ہوا۔ مولانا اشرف علی تھانوی کے’بہشتی زیور کی جگہ‘ آداب زندگی’نے لے لی۔

شفق سے آداب زندگی
مجھے وہ دن خوب یاد ہے۔ سورج زوال کے راستے پر تھا لیکن آسمان پر سرخی ابھی موجود تھی۔ ابا جی نے وضو کیا اور کوئی دعا کرتے ہوئے غسل خانے سے نکلے۔ ایک زمانہ تھا، ہمارے بزرگ چھوٹی چھوٹی دعائیں زیر لب پڑھتے رہتے۔ زبان کھولتے تو کوئی نہ کوئی دعائیہ کلمہ ضرور ان کی زبان سے نکلتا۔ دعا پڑھ چکے تو انھوں نے میری طرف دیکھا اور غروب ہوتے ہوئے سورج کی سرخی طرف اشارہ کر کے سوال کیا، اسے کیا کہتے ہیں؟
آٹھویں نویں جماعت کے طالب علم کی بساط ہی کیا۔ کچھ دیر خاموش رہا، پھر کہا، لالی۔ مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی اور کہا:‘ اسے شفق کہتے ہیں۔ طلوع و غروب، ہر دو وقت پر یہ نمودار ہوتی ہے۔ یہی شفق رنگ ہے جسے دیکھ کر شاعروں طبع موزوں ہوتی ہے اور وہ کچھ ایسا کہہ جاتے ہیں، لوگ جسے سنتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔
“اس روز یہی باتیں چل رہی تھیں کہ اچانک انھوں نے موضوع بدلا اور سوال کیا:‘ “کیا تم نے‘آداب زندگی’پڑھی ہے؟آداب زندگی
میں نے حیرت سے یہ الفاظ سنے اور ذرا بے یقینی کے ساتھ انھیں دیکھا
میری کیفیت دیکھ کر انھوں نے یہ الفاظ ایک بار پھر دہرائے کہ ہاں، آداب زندگی۔ پھر انھوں نے مجھے ہدایت کی کہ فلاں کمرے میں جاؤ اور فلاں الماری کے دوسرے خانے سے دائیں جانب سے تیسری کتاب نکال لاؤ۔ ہمارے بچپن میں گھر ذرا مختلف قسم کے ہوتے تھے۔ دو تین رہائشی کمرے، بیچ میں ایک صحن اور باہر جانے کے راستے ڈیوڑھی کے قریب ایک کمرہ نستعلیق زبان میں جسے دیوان خانہ اور عوامی زبان میں اسے بیٹھک کہا جاتا۔ وہ بیٹھک ہی تھی جہاں والد صاحب کی کتابیں رکھی رہتیں۔ آپ چاہیں تو اس زمانے کی اسے اسٹڈی بھی کہہ لیں۔
فلسفہ حیات
خیر، کتاب لا کر میں نے انھیں پیش کی۔ انھوں نے کتاب پکڑی۔ اس کے سرورق پر ایک نگاہ دوڑائی پھر کہا، آج سے یہ تمھاری ہوئی۔ اس کے بعد ایک بات ایسی کہی جس کی گونج مجھے آج بھی سنائی دیتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ کتاب نہیں، طرز زندگی ہے۔ کچھ دیر بعد کہا کہ یہ فلسفہ حیات ہے۔ اسے اپنے پاس رکھو اور دھیرے دھیرے پڑھو۔ کچھ عرصے کے بعد جب تم کچھ اور بڑے ہو جاؤ گے تو جانو گے کہ تمھاری زندگی بدل گئی۔ شخصیت ہی بدل گئی۔اس کتاب سے تعلق اور اس واقعے میں کتنا فاصلہ رہا ہو گا، اسے دنوں اور مہینوں میں شمار کرنا تو مشکل ہو گا لیکن یہ بات تو میں شرح صدر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد ابا جی ہمیں چھوڑ کر ملک عدم جا بسے۔ وہ تو چلے گئے لیکن یہ سچ ہے کہ آداب زندگی نامی یہ کتاب میرے سپرد کر کے انھیں میری زندگی دھارا ہی بدل دیا۔
کچھ ایسا یاد پڑتا ہے کہ اسی لمحے جب یہ کتاب مجھے ملی، میں نے اس کی ورق گردانی شروع کی تو سب سے پہلے جو الفاظ میری نگاہوں میں آئے، وہ تھے’تزئین معاشرت’. تزئین معاشرت کیا ہوتی ہے۔ شاید اس زمانے میں یہ اصطلاح میرے فہم سے بالا رہی ہوگی۔ لیکن یہ ہے کہ الفاظ کے حسن نے میرے دل و دماغ میں کچھ ایسے جگہ بنائی کہ کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود اس ترکیب کا حسن آج بھی مجھے مسحور کرتا ہے۔


تزئین معاشرت
تزئین معاشرت کیا تھی؟ چھوٹی چھوٹی باتیں۔ زندگی جن کے بغیر بھی گزر سکتی ہے۔ لیکن ان باتوں کو زندگی کا حصہ بنا کر معمولات زندگی انجام دیں تو زندگی بامقصد ہو جائے۔ آپ کے ارد گرد، دائیں بائیں کے لوگوں کے لیے آپ کی زندگی مسرت اور آسانی کا باعث بن جائے۔ اس واقعے سے بہت بعد کی بات ہے، اشفاق احمد کاشف اور میں ایک بار لاہور گئے۔ کئی دن وہاں رہے اور ہے درپے کئی ادیبوں اور شاعروں سے ملاقاتیں کیں۔ ان میں ایک ملاقات اشفاق احمد مرحوم سے بھی تھی۔ اشفاق صاحب کی تحریر ہو یا ٹیلی ویژن پر گفتگو، سن کر ہمیشہ ایسے لگتا جیسے وہ صرف مجھ سے مخاطب ہیں۔
ان سے بالمشافہ ملاقات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ ان کی ذاتی زندگی بھی ایسی ہی ہے۔ اس گفتگو کی بہت سی باتیں ایسی ہیں جنھیں دہرایا جاسکتا ہے لیکن بات ایسی تھی جس نے مجھے چونکا دیا اور اس کیفیت میں پہنچا دیا جس کیفیت میں میں؛ میں نے اپنا ابا جی سے وہ کتاب وصول کی تھی۔ اشفاق صاحب نے فرمایا تھا:‘ لوگوں کو سوکھا کرو۔
لوگوں کو سوکھا کرنا کیا ہے؟ انھیں راحت پہنچانا۔ دکھ درد میں ان کے کام آنا۔ آسانی فراہم کرنا۔ اشفاق صاحب کی گفتگو کی طرح پورہ ذہنی آمادگی کے ساتھ ایسا لگنا جیسے آپ اپنے کسی مخاطب، دوست، عزیز، ہمسائے یا اتفاقاً کسی ملنے والے کے لیے خاص ہیں۔ تو اشفاق صاحب کی زبان سے جب میں نے سوکھا کرنے کے الفاظ سنے تو میں چونکا اور سوچا کہ یہ تو عین وہی بات ہے جو برسوں قبل آداب زندگی سے میں نے سیکھی تھی۔
فقط عبادت نہیں، اسی کی روح بھی
میں اگر چاہوں تو اس کتاب سے چھوٹی چھوٹی باتیں مثال کے طور پر پیش کرتا جاؤں۔ یہاں تک کہ کالم کا دامن بھر جائے۔ صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ مستقبل میں پیش آنے والے کسی معاملے یااس کے بارے میں فیصلہ کس طرح کرنا ہے؟ اس سلسلے میں ہمارے کئی قسم کی روایات عام ہیں۔ دین کا فہم رکھنے والے طبقات اس سلسلے میں استخارے پر زور دیتے ہیں۔ استخارہ دو نوافل اور ایک دعا پر مشتمل عبادت کی ایک کل ہے۔ یہ اور اس کی کچھ مختلف صورتیں ہمارے یہاں رائج ہیں۔ استخارہ ہے کیا، اس کا فلسفہ اور حکمت کیا ہے؟ یہ کوئی نہیں بتاتا۔‘ آداب زندگی’واحد کتاب ہے اپنے پڑھنے والوں کو اس کے بارے میں بتاتی ہے۔
انسانیت بیزاری سے دوری کا سبق
برصغیر کے مسلم معاشرے میں عبادات پر دینی ظواہر پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ دین کا یقیناً یہ بھی ایک اہم پہلو ہے لیکن ایک دین دار آدمی انسانیت کے لیے کس طور باعث رحمت بن جاتا ہے، یہ آداب زندگی سکھاتی ہے۔ ورنہ عموماً دیکھا یہ گیا ہے جو جتنا عبادت گزار ہوتا ہے، اتنا ہی انسانیت بیزار ہوتا ہے۔ ارد گرد والوں کے لیے باعث بننے کے بجائے وہ باعث زحمت بن جاتا ہے۔ دین انسان کو روکھا اور بے فیض نہیں بناتا، یہ سبق کوئی صاحب بصیرت پیشوا سکھاسکتا ہے یا پھر ہمارے زمانے یہ بات مولانا محمد یوسف اصلاحی نے سکھائی۔
تنہا شخص نہیں مدرسہ
ندوی صاحب نے لکھا ہے کہ مولانا محمد یوسف اصلاحی کی گفتگو میں الفاظ کا شکوہ اور لہجے میں گھن گرج نہیں ہوتی تھی۔ اس کے باوجود بات کچھ ایسی دل نشیں ہوتی تھی کہ دل میں اترتی چلی جاتی تھی۔ میں نے یہ بات پڑھی تو ذہن میں ایک بار پھر تزئین معاشرت کی ترکیب آئی۔
اللہ اس شخص کے درجات بلند کرے جو ہمیں آداب زندگی سکھا کر اس دنیا سے رخصت ہوا۔ وہ شخص تنہا ایک شخص نہیں تھا، ایک مدرسہ تھا، پورا برصغیر پاک و ہند جس سے فیض یاب ہوا۔ ان کا یہ مدرسہ‘”آداب زندگی”آ سان فقہ ہے۔ ہمارے عہد کا بہشتی زیور۔ مولانا تھانوی کے بہشتی زیور سے تو صرف خواتین فیض یاب ہوئیں، مولانا محمد یوسف اصلاحی کا بہشتی مرد و زن ہر ایک کے لیے فیض رساں ہے۔
٭٭٭

تحریک آزادی کشمیر کے ممتاز رہنما اور سابق امیرجماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر عبد الرشید ترابی کا تفصیلی انٹرویو ملاحظ فرمائیے فروری 2022کے خصوصی شمارے میں