۔1971 کا آنکھوں دیکھا۔۔۔مشرقی پاکستان

شہزاد منیر احمد

16 دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کا یقیناً سیاہ دن ہے۔ملک کا دو لخت ہونا ایک ناقابلِ تلافی واقعہ ہے۔16 دسمبر 1971 کو پاکستان سے الگ ہونے والے صوبہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے پر ڈھیروں مضامین چھپے، بیسیوں کتابیں لکھی گئیں۔۔ بے شمار تبصرے ہوئے۔کسی ایک میں بھی پاکستان کے اس تاریخی المیے کے بارے حقائق مکمل غیر جانبداری سے بیان کردہ نہیں ملتے۔ اس خونی حادثے کر ذکر کرنے کے ساتھ ہی قلم اور زبان کا” تعصب” کھل کر سامنے آنے لگتا ھے۔ کسی لکھاری نے ہمیں بنگالی کرنل عثمانی کے کرتوتوں کا ذکر نہ سنایا کہ کتنے بہاری اور غیر بنگالیوں کو مکتی باہنی سے قتل کروا کر اس نے کتنا ” ثواب کمایا تھا” کہیں سے آواز نہ سنی کہ 8 ایسٹ بنگال رجمنٹ کے کرنل ضیاء نے پوری یونٹس کے ساتھ بغاوت کر کے کس قومی ذمہ داری اور حب الوطنی میں مغربی پاکستان کے فوجی آفیسرز اور ان کے خاندانوں کو تہہ تیغ کیا تھا کہ چٹاگانگ چھاؤنی کی سڑکوں پر معصوم و بے گناہ مقتولوں کا خون کئی دن تک پامال ہوا۔

کسی نے کہا ” پاکستانی افواج کے ہاتھوں بنگالیوں کا قتل عام ” کسی نے کہا” لاکھوں بنگالی عورتوں کو بے آبرو کیا گیا۔” کسی نے کہا ” آج مشرقی پاکستان کے دریاؤں میں پانی نہیں بنگالیوں کا خون بہہ رہا ہے”۔مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت نے وہ گندہ اور شرمناک پروپیگنڈا کیا جسے لکھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ” وہ یہ کہ افواج پاکستان کے ہاتھوں حاملہ ہونے والی بنگالی خواتین کی تعداد لاکھوں میں ہے” حیران کن پہلو اس الزام کا یہ ہے کہ ان مبینہ بنگالی عورتوں کا وہ حمل آج تک” وضع ” ہی نہیں ہوا۔ کسی نے اس حادثے کے حوالے سے ہندوستان کے ایک اہم بیوروکریٹ MR D..P.DHAR کے اپنی لوک سبھا میں اس تقریر کا ذکر نہ کیا جس میں انہوں نے پاکستان کی سول قیادت اور افواج پاکستان کے بارے عدم اعتماد پیدا کرنے والی کوششوں کا اعتراف کیا تھا۔ کسی نے مشرقی پاکستانی بنگالی یونٹس کی بغاوت کر کے مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستانیوں کے فوجیوں اور سول شہریوں کے قتل عام کا ذکر نہ کیا۔

کسی نے یہ نہ لکھا کہ ہندوستان کے فوجی گوریلوں نے مکتی باہنی کے نام سے حالی شہر چٹاگانگ میں مارچ 71 کے دوسرے ہفتے میں پاکستان کے درج بھر کمانڈوز کو AMBUSH کیا تھا۔کسی نے یہ نہ لکھا کہ چٹاگانگ پورٹ ٹرسٹ کے غیر بنگالیوں کے خاندانوں کا کس طرح قتل عام ہوا۔ دس دس دن کے نومولود بچوں کو رائفلز کی سنگینوں میں کیوں پرویا گیا۔ کسی نے نہ لکھا کہ پاکستان کی فوج نے مشرقی پاکستان میں 1971 کی جنگ میں دو بڑی طاقتوں اور ہندوستان، (تین ممالک) کا تن تنہا بے جگری سے مقابلہ کیا۔ کسی نے نہ لکھا کہ مشرقی پاکستان میں سول نا فرمانی کی تحریک تھی نہ کہ Civil War.۔۔کسی نے مکتی باہنی کے ظلم کی وہ سچائیاں بیان نہ کیں جو انہوں نے غیر بنگالی عورتوں کو برہنہ کرکے سڑکوں پر مارچ کروائے۔

کسی نے یہ نہ لکھا کہ عوامی لیگ کے غنڈوں نے پاکستان اور افواج پاکستان کے حامیوں کے منہ پسے ہوئے شیشے سے بھر بھر کر انہیں اذیتیں دیں۔ غرضیکہ پہلے ہی سے بنائے ہوئے ذہن کے پاکستان کی مسلح افواج کو ایک قابض گروہ قرار دے کر انہیں شکست خوردہ لکھتے رہے۔

کسی ایک نے بھی نہیں لکھا کہ صوبہ مشرقی پاکستان میں کس نے عوامی تحریک نافرمانی شروع کی جسے ختم کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے مسلح افواج کو امداد کے لیے طلب کیا، جس نے اس تحریک کو ختم کیا، تخریب کاروں کا قلع قمع کر کے وہاں امن و امان اور صوبے پر کنٹرول قائم کر دیا۔ جس کا زندہ ثبوت وہ تھا کہ ساری عوامی لیگی لیڈرشپ، مکتی باہنی اور بنگالی باغی فوجی یونٹس سب بارڈر کراس کر کے ہندوستان میں چلے گئے اور پھر جلا وطن حکومت قائم کر لی۔ یہ تھی پاکستان اور مسلح افواج کی امن بحالی کی کامیاب کوششیں۔کسی نے نہ لکھا کہ ہندوستان نے عوامی لیگ کے لیڈروں کو استعمال کرتے ہوئے انہیں بلیک میل کیا اور ان کے نام پر مکتی باہنی اور اپنی باقاعدہ فوج سے مشرقی پاکستان پر جنگی حملہ کیا۔ جسے بھی افواج پاکستان نے بڑی جرات اور حوصلے سے جگہ جگہ ناکام بنایا۔کسی نے اس حادثے اور المیے کو بیان کرتے یہ نہ لکھا کہ ملک میں سیاسی اور انتظامی معاملات پر اختلاف رائے کو بنیاد بنا کر مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت، بالخصوص پاکستان عوامی لیگ نے ایشوز کو نفرت میں رنگ کر اس نہج پر پہنچا دیا کہ انہیں مذاکرات سے حل کرنا دشوار ہو گیا تھا۔

مشرقی پاکستان کے عوام پاکستان کے توڑنے کے حق میں نہ تھے۔یہی نظریہ اور عالم بنگالی فوجیوں کا تھا مگر عوامی لیگ کے چند سینئر لیڈرز اور غنڈوں نے مشرقی پاکستان میں دھونس جبر اور غنڈہ گردی سے جنرل پبلک کو ہراساں کر کے ان سے بغاوت کروائی۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد ایک تو حالات شیخ مجیب کے کنٹرول سے باہر تھی، عوامی امنگوں پر شیخ مجیب پورا نہ اترے، تیسرا جو انہوں نے ہندوستان کے ساتھ معاہدہ کیا تھا وہ کلی طور پر بنگلہ دیش کو ہندوستان کی غلامی میں دے دینے کے مترادف تھا۔۔چوتھے جنرل ضیاء الرحمن اپنی انقلابی خدمات کے صلہ میں آرمی چیف نہ بنائے جانے پر نالاں تھے۔ سب سے بڑی وجہ شیخ مجیب الرحمٰن کے بیٹوں کا سرکاری کاموں میں انتہاؤں کو چھوتی اور بدمعاشی کی حد تک مداخلت تھی۔ وہی فوجی جو شیخ مجیب الرحمٰن کو پاور میں لائے، انہوں نے ہی 15 اگست 1975 کو ان کے خاندان سمیت قتل کر دیا۔چونکہ وہ فوجی اپنے نظریہِ پاکستان کے خلاف زبردستی سرکشی اور بغاوت پر اکسائے گئے تھے، اب حالات ان کے حق میں جا رہے تھے تو انہوں نے شیخ مجیب کو اس کے انجام کو پہنچا دیا۔

غرضیکہ ذرائع ابلاغ اور پاکستان کے حاسدوں نے پہلے ہی سے بنائے ہوئے ذہن کے مطابق پاکستانی افواج کے بارے من گھڑت کہانیاں گھڑیں اور چھاپ دیں۔ پہلے ہی سے دل میں موجود کدورت بغض کے مطابق جس کسی کا جس طرح دل چاہا اس نے اپنا تعصب بیان کیا حقیقت حال نہیں بتائی جو ”صحافت ” کی اولین ترجیح ہوا کرتی ھے۔ مثلاً یہ نہ بتایا کہ 12 نومبر 1970 میں مشرقی پاکستان میں زبردست سمندری طوفان نے ہر طرف تباہی مچا دی۔ متاثرین کی امدادی کاروائیوں اور دیگر انتظامات کے لیے حکومت پاکستان نے دسمبر 1970 میں شیڈولڈ عام انتخابات کا التوا مانگا تو عوامی لیگ نے تعاون نہیں کیا اور انتخابات کو مجوزہ تاریخ 7 دسمبر 1970 ہی کو کروانے کے لیے بضد رہی۔ کیونکہ وہ سیلاب۔(CYCLONE) سے ہونے والی تباہ کاریوں کا ملبہ مغربی پاکستان پر ڈال کر الیکشن جیتنا چاہتی تھی جس میں وہ کامیاب بھی ہوئی۔

راقم مشرقی پاکستان میں فروری 1967 سے اکتوبر 1971 تک موجود رہا۔مشرقی پاکستان کے سارے شہروں میں جانا ہوا، دوستوں کے ساتھ بھی اور اکیلے بھی۔ وہاں بنگالی عوام امن سے رہتے اور اپنی ثقافتی اقدار، مذہبی روایات اور دیکر قومی سطح کی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ بنگالی ساتھیوں سے بھی بات چیت ہوتی۔ملکی سیاست پر بھی مگر وہ اتنی تلخ کبھی نہ ہوتی معمول کے سرگرمیوں پر اپنا اپنا نقطہ نظر بیان ہوتا اور بس۔

مگر پاکستان مخالف قوتوں نے مقامی سیاسی جماعت اور تخریب کار عناصر کی مدد سے اس خوبصورتی سے ایسی منافقانہ چالیں چلیں کہ دیکھتے دیکھتے منفی تبدیلیاں نظر آنے لگیں۔ مثلاً:

مشرقی پاکستان میں گورنمنٹ کی بسیں، مغربی پاکستان کی طرح سرخ رنگ کی تھیں جن میں گدے دارSeats نصب تھیں۔بنگالی عوام ان میں سفر نہیں کرتے تھے، بلکہ پرائیویٹ بسوں میں جن میں لکڑی کے بنچ لگے ہوتے ان پر سفر کرتے تھے۔۔ ان کے دل میں یہ بات بھر دی گئی تھی کہ ان بسوں کی آمدن مغربی پاکستان کی ترقی اور ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنے کے لیے چلی جاتی ہے۔ گورنمنٹ کی بسوں میں دو قومی نظریہ کے حامی بنگالی سفر کرتے یا سرکاری ملازمین۔۔

جس سمندری طوفان کا اوپر ذکر کیا گیا ھے، اس نے چٹاگانگ میں واقع جزیرے ” سندیپ” میں ایک بھی بھاشا (گھر) سلامت نہ چھوڑا تھا۔ پاک بحریہ کے جوانوں کو وہاں امدادی کارروائیوں کے لیے بھیجا گیا۔ بنگالی کچھ تو بہانے سے وہاں جانے سے کترا گئے۔ جو ہمارے ساتھ گئے وہ سگریٹوں کے لمبے لمبے کش لیتے اور ہم مغربی پاکستانیوں کو کہتے یہ تمہارا کام ھے ہمارا نہیں۔جزیرے میں تعفن زدہ لاشوں میں کھڑا ہونا مشکل تھا۔پھولی ہوئی لاشوں کو چادر میں لڑھکا کر کھڈے میں دھکیلنا پڑتا تھا۔ بنگالی اس طوفان اور تباہی کاذمہ دار بھی مغربی پاکستان کو ٹھہراتے تھے۔اس ساری مصنوعی نفرتوں اور غصے کے باوجود کیا بنگالی کیا بہاری عوام مغربی پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتے تھے۔وہ اپنے صوبے میں زیادہ فنڈز چاہتے تھے۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ مشرقی پاکستان کے اعلیٰ حکام، گورنرز وزراء اور سیاستدان کرپٹ ہیں۔انہیں جو فنڈز صوبے کی ترقی کے لیے دئیے جاتے ہیں وہ صحیح طرح سے استعمال نہیں کرتے بلکہ خود کھا پی جاتے ہیں۔ بنگالی ملک میں صرف ایسا نظام حکومت چاہتے تھے جو ان کی معاشرتی زندگی اور روزمرہ کے معاملات کو آسان تر بنا دے۔

قوموں کی تاریخ میں تغیر و تبدل اور عروج و زوال ایک فطری عمل ھے۔ فرمان الٰہی ھے کہ یہ دن (دور) ہم امتوں میں گھماتے پھراتے رہتے ہیں۔ ساتھ یہ بھی کہا گیا ھے کہ اللہ کسی قوم کی حیثیت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود نہ بدلے۔ اللہ کا یہ اٹل فیصلہ ہے کہ جب کوئی چیز اپنی اہمیت کھو دیتی ہے، وہ زندگی ہو عروج ہو یا زوال تو اللہ تعالیٰ اسے مٹا دیتا ھے۔وہ انسان جسے اللّٰہ الرحمٰن نے بڑے فخر سے بہترین مخلوق قرار دے کر پیدا کیا، ایک خاص عمر پر پہنچ جانے کے بعد اسے بھی” نکمی ” عمر کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔

16 دسمبر 1971 کو فرمان الٰہی ”لیس الانسان الا ما سعی” کی صداقت کا ظہور تھا۔ پاکستانی حکمران اور صاحب اختیار طبقہ، جو دونوں صوبوں سے منتخب کردہ افراد تھے، قومی سطح پر اپنے زعم میں بڑے اچھے انتظامی فیصلے کرتے رہے جو حقیقت میں درست اور موثر نہ تھے۔ مشرقی پاکستان کے عوام ہمارے ان فیصلوں کو” نا انصافی ”سمجھتے تھے۔ جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان کے عوام ہم سے شکوہ کناں رہتے تھے۔ شرکت، کسی بھی قسم کی ہو اس میں اختلافات کا ہو جانا فطری بات ہے۔ قومی سطح پر ہمارے اختلافات ابھرے جنیں دانشمندی سے حل نہ کیا گیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بگڑتے چلے گئے اور ناراضگی میں مشرقی پاکستان کے عوام ہم سے الگ ہو گئے۔

یہ دنیا بھر کے حکمرانوں کے لیے سبق تھا کہ نا انصافی کیسی بھی ہو کہاں بھی ہو وہ پنپا نہیں کرتی۔ پاکستان کے حکمرانوں نے جو بویا، وہی کاٹا۔ اس تقسیم یا مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر دونوں صوبوں میں سے کوئی بھی خوش نہ تھا، سوائے اقتدار کی بھوک سے نڈھال سیاستدانوں کے۔ میری دانست اور مشاہدے کے مطابق یہ ہوس اقتدار میں مبتلا سیاستدانوں کی کوتاہ بینی اور اندھی نفرتوں پر مشتمل پروپیگنڈا کا نتیجہ تھا کہ دونوں صوبوں میں نسبت اور تعلق (ایک دین ایک سیاست ایک مقصد) کے دھاگے کو اتنا کھینچا گیا کہ دھاگا ٹوٹ گیا۔ ” ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے”

ملک کے سارے شعبوں میں معاملات بہتر انداز میں چل رہے تھے، مثلاً افواج پاکستان میں برابر کی سطح پر بنگالی شامل ہو رہے تھے۔ بنگالی دینی اور مذہبی روایات کی پاسداری میں ہم سے آگے تھے۔ بنگال کی مقامی ثقافتی روائتوں میں کبھی کوئی اختلاف نہ تھا۔ تعلیم و صحت کے شعبے بھی تسلی بخش کام کر رہے تھے۔ اختلاف اگر تھا تو وہ کچھ انتظامی معاملات یعنی قومی دولت کی تقسیم پر تھا۔ وہ بھی اس سطح کا نہ تھا کہ اس پر صوبہ علیحدگی کا مطالبہ کر دیتا۔ 7دسمبر 1970 کو ملک میں عام انتخابات ہوئے۔ان انتخابات کو بڑا شفاف اور غیر جانبدارانہ کہا جاتا ھے۔ راقم اس دن چٹاگانگ میں تھا۔ سیاسی پارہ مغربی پاکستان کے خلاف تعصب اور انتقامی تپش میں بڑا ہائی تھا۔ اُردو بولنے والے بہاری شہریوں کو اور مغربی پاکستان کے حامیوں کو تو عوامی لیگ کے غنڈوں نے ان کے گھروں سے باہر نہیں نکلنے دیا تھا۔ راجہ تری دیو رائے تو اپنے چکمہ قبائل کا سردار ہونے کی وجہ سے سیٹ جیتا۔ جناب نور الامین کو بھی نہ ہرانا کئی مجبوریوں اور مصلحتوں کی وجہ سے تھا۔ 7 دسمبر 1970 کا دن مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب (بنگلہ بندو) اور نوکا (شیخ مجیب کا انتخابی نشان کشتی) کے جادو میں ویسا ہی ڈوبا” ہوا تھا جیسا کبھی کراچی میں لوگ الطاف حسین کی تقریر کو بڑے شوق اور عقیدت سے سنتے دیکھے جاتے تھے۔

محب وطن بنگالیوں کی حب الوطنی سے وابستہ واقعات:-

مارچ 1971 میں پاکستان نیوی کے لیفٹیننٹ، اے ایچ وائیں ایک آپریشن میں شدید زخمی ہو گئے تھے۔ ڈیوٹی ڈاکٹر نے انہیں سی سی ایچ چٹاگانگ لے جانا تھا۔ بنگالی ڈاکٹر نے انہیں دھوتی اور بوشرٹ پہنائی اور سی ایم ایچ پہنچایا۔ انہیں دھوتی اور بوشرٹ اس لیے پہنائی کہ راستے میں مکتی باہنی یا بپھرے ہوئے بنگالی انہیں پنجابی دیکھ کر مار نہ دیں۔ ہسپتال میں انہیں مکتی باہنی نے مارنے کے لیے رسائی چاہی تو بنگالی عملے نے شدید مزاحمت کی کہ مریض ہماری حفاظت میں ہے۔ ہسپتال میں ہم آپ کو اسے ہاتھ بھی نہیں لگانے دیں گے۔

ایسے حالات میں ہم گھر بیٹھے کیسے لکھ دیتے ہیں کہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے علیحدگی چاہتا تھا۔ میری دانست میں ایسا ہرگز نہ تھا۔حکومتی سطح پر اختلافات موجود تھے جو یقیناً مذاکرات سے ختم کئے جا سکتے تھے۔۔

مارچ 1971 کا مہینہ مشرقی پاکستان میں سول نا فرمانی کی تحریک کی وجہ سے مشکل ترین اور اذیت ناک تھا۔ ہر طرف جلاؤگھیراؤ اور بد نظمی پھیلی ہوئی ملتی۔ ایک دن ہم سیکیورٹی آفس میں کام کر رہے تھے کہ ہمارا ساتھی مصلح الدین آیا اور کمانڈر سے مخاطب ہو کر بولا سر یا مجھے گولی مار دیں یا کہیں چھپا لیں۔ مجھے مکتی باہنی والے تنگ اور مجبور کرتے ہیں کہ میں انہیں پاک بحریہ کے بارے خبریں پہنچاؤں۔نہیں۔ تو وہ مجھے میری فیملی کے ساتھ شوٹ کر دیں گے۔ چٹاگانگ میں دیوان ہٹ BAZAR SUNDAY جیسی منڈی لگتی تھی۔ کچھ دکاندار واقف تھے۔ ایک دن وہ بڑی رازداری سے بتانے لگے خان صاحب (مشرقی پاکستان میں ہر مغربی پاکستانی کو خان صاحب کہا جاتا تھا) فلاں فلاں دکاندار سے محتاط رہیں وہ آپ کو کہیں نقصان نہ پہنچائیں وہ عوام لیگ کے پالتو غنڈے ہیں۔

25 مارچ 1971 کو شام سورج کے غروب ہونے سے ذرا پہلے مجھے فون پر ایک عورت نے مطلع کیا کہ آج رات تم فوجیوں (چٹاگانگ میں ٹائیگر پاس جو نیول کمیونیکیشن سنٹر تھا، وہاں کوئی ساٹھ ستر لوگ رہتے تھے) پر بھاری ھے۔ میں نے وجہ اور کچھ تفصیلات پوچھنا چاہا تو وہ بولی میں PCO سے بات کر رہی ہوں۔ آپ ادھر ادھر ہو جانا اور فون بند کر دیا۔

رات سوا گیارہ بجے ٹائگر پاس پر جب چاروں طرف سے AUTOMATIC ہتھیاروں سے فائرنگ ہونے لگی تو سب سے پہلے اس خاتون کا کہا ” آج رات آپ فوجیوں پر بھاری ھے” یاد ا گیا کہ وہ خیر خواہ یہی انتباہ کرنا چاہتی تھی۔

14 اگست 1971 تک مکمل امن بحال ہو چکا تھا۔ سوائے اکا دکا تخریبی کارروائیوں کے۔معمول کی بازای اور سماجی سرگرمیاں بحال ہو چکی۔ تھیں۔چٹاگانگ جو پاکستان عوامی لیگ کے سیکریٹری جنرل تاج الدین احمد کا شہر تھا وہاں نوجوانوں نے آزادی پاکستان ریلی نکالی، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ لوگوں نے تحریک پاکستان پر تقریریں کیں۔ ہمارا مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ محب وطن اور وہ لوگ جو پاکستان بنانے کی تحریک کے دوران جھیلے گئے دکھوں سے واقف تھے اس روح فرسا خبر پر اپنے سر دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر روئے۔ جو رو نہ سکے وہ ضمیر کے روبرو اپنی ٹوپیوں میں منہ چھپا چھپا کر رو ئے پاکستان کے کئی شہروں کی دیواروں پر” بنگلہ دیشی” نامنظور لکھ دیا گیا۔

مارچ1972 میں ماسکو (USSR)میں فلم ایگزیبیشن ہوا جس میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے وفود شامل ہوئے تھے۔بنگلہ دیش کے وفد نے اپنا جھنڈا پاکستان کے پول MAST پر لہرا دیا تھا۔۔جو ان کی پاکستان سے محبت کا ثبوت تھا۔ جنگی قیدی بنائے جانے والے مغربی پاکستانیوں کے لواحقین کا دکھ الگ سے اذیت ناک تھا۔ جنگی قیدیوں کی تعداد لگ بھگ 90 ہزار بتائی جاتی تھی، جن میں افواج پاکستان کے ملازمین تو صرف 40 ہزار تھے باقی دوسرے اداروں کے لوگ عورتین اور سویلینز مرد تھے۔ یہاں پر یہ وضاحت بڑی ضروری ھے کہ 16 دسمبر کو سقوط ڈھاکہ ہوا، مشرقی پاکستان کے فوجی کمانڈر جنرل نیازی نے جنگ بندی کے علامیہ INSTRUMENT’S SURRENDER پر دستخط کئے۔

آپ نے اس کے علاؤہ ہر گز ہرگز نہیں سنا ہوگا کہ پاکستان کی فوج نے مشرقی پاکستان کی کسی بھی چھاؤنی، جیسور، کھلنا، کومیلا، سلہٹ، باریسال میرپور میں فوجوں نے جنگ بندی کے لیے آواز اٹھائی ہو۔ پوری دنیا کے میڈیا کو اس بارے سازشی قوتوں نے مکمل خاموش کرا دیا تھا۔۔ ہر محاذ پر پاکستان کو جنگی مزاحمت کا سامنا تو تھا مگر اس پر عسکری صلاحیتوں سے قابو پایا گیا۔۔کبھی آپ نے سوچا ہے کہ وہ مشرقی پاکستان جسے عوامی لیگ کے کارکنوں، مکتی باہنی اور ہندوستانی فوجیوں نے 7 دسمبر 1970 سے لیے کر،25 مارچ 1971 تک یرغمال بنا رکھا تھا کس طرح پاک فوج کے نام اور کام سے ڈرتی چھپتی بھاگتی جان بچاتی سرحد پار کر کے ہندوستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی اور جلا وطن حکومت قائم کی۔ مارچ 1971 سے پہلے فوج اور سیکیورٹی ادارے مشرقی پاکستان کی حکومت، گو کہ وہاں برائے نام ہی تھی کی مدد صرف ہنگاموں، جلاؤ گھیراؤ جیسے واقعات پر قابو پانے اور امن بحال کرانے میں مصروف تھی۔ 23 مارچ کے بعد مگر افواج پاکستان کو مشرقی پاکستان میں ایک باقاعدہ جنگ کا سامنا تھا۔ مخالف قوتیں بنگالی باغی یونٹس، رضاکار مکتی باہنی اور ہندوستان کی ریگولر فورسزز میدان جنگ میں موجود تھیں۔ اس زمینی حقیقت کا اعتراف آج کے بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے ڈھاکہ میں باقاعدہ سرکاری تقریب میں ہندوستان کے وزیراعظم مودی کو شکریہ کے ساتھ انعامی شیلڈ پیش کر تے ہوئے کیا تھا۔۔۔

مشرقی پاکستان میں افواج پاکستان کو 1971 کی جنگ میں بے شمار دشواریوں کا سامنا کرنے کے باوجود زبردست کامیابیاں ملی تھیں۔ انہیں کوئی بڑا جانی نقصان نہیں اٹھانا پڑا تھا۔ اس کا 80 فیصد سے زیادہ اسلحہ بارود 16 دسمبرتک محفوظ و موجود تھا۔

پاکستان بحریہ کی جرآت اور پیشہ ورانہ جرآت بھی قابل داد رہی۔مشرقی پاکستان میں پاک بحریہ کے شہدا کی تعداد تو دس سے بھی کم رہی۔ تین شہدا، لیڈنگ پٹرول مین نذیر، لیڈنگ سٹور۔مین افتخار اور ABLE SEAMAN چراغ شاہ تو وہ جانثار تھے جو مارچ کے پہلے ہفتے میں 20 بلوچ کے کمانڈر کرنل فاطمی کو نیول بیس سے چھاؤنی میں انہیں ان کی یونٹ میں چھوڑنے گئے تھے۔ جنہیں واپسی پر راستے میں AMBUSH کیا گیا تھا۔

16 دسمبر 1971 کے سرینڈر SURRENDER کے بعد سب لیفٹیننٹ اسکندر حیات بڑی جرات سے اپنے جہاز پی این ایس راجشاہی میں 28 ساتھیوں کے ساتھ دشمنوں سے بچ کر ملائیشیا پہنچے۔ جب وہ ESCAPE کر رہے تھے تو کچھ لوگوں نے انہیں متنبہ کیا کہ مکتی باہنی اور انڈین نیوی سارے Bay Of Bengal میں پھیلے ہوئے ہیں، اتنا بڑا رسک نہ لیں تو ان کا جواب تھا سرینڈر کرنے سے بہتر ھے سمندر میں ہمیں مچھلیاں کھائیں۔ ان کا وہ جہاز ”راج شاہی” آج بھی پاک بحریہ کے فلیٹ میں شامل ہے۔

پاک فضائیہ نے پاکستان آرمی کی خوب خوب مدد کی اور آرمی نے اپنے اہداف حاصل کیے۔ جب بنگالی باغیوں اور تخریب کاروں نے ہوائی اڈوں کو ناکارہ بنا دیا تو فضائیہ کے کمانڈر نے اپنے جہاز ہمسایہ ممالک کے راستے انہیں پاکستان بھیجوا دیا۔ فضائیہ کے کارپورل نواب (تمغہ جرآت) نے جنگ بندی کے بعد انڈین میجر کو کہا ہمیں ڈسپلن نہ سکھائیں۔ میں جنگی قیدی ہوں، قید سے بھاگ نکلنا میرا حق ہے جو میں بار بار استعمال کرونگا۔اود پھر وہ چلتی ٹرین سے باہر کود گیا۔ پھر مغربی پاکستان پہنچا تھا۔مطلب یہ کہ مشرقی پاکستان میں ساری دشواریوں، نا مساعد حالات۔خوراک اور دیگر انتظامی اشیاء کی عدم دستابی کے باوجود پاکستانی افواج کا مورال ہائی تھا۔ انہوں نے مشرقی پاکستان کا ہر جزیرہ تخریب کاروں، مکتی باہنی اور ہندوستانی غاصب گوریلا گروہوں سے آزاد کرایا۔ وہ پورے فوجی جوش و خروش سے لڑ رہے تھے۔ کہ ہتھیار پھینکنے والا حادثہ ہو گیا۔ پاکستانی افواج کے دبدبے کا یہ عالم تھا کہ ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے کی تقریب تو،16 دسمبر کو ہوئی مگر چٹاگانگ بیس پر مخالفین کے دستے 18 دسمبر کو پہنچے جن کی قیادت پاکستان نیوی کا ABLE SEAMAN حبیب الرحمٰن جو انڈین نیوی کی کمانڈر یونیفارم پہنے ہوئے تھا۔۔بتانا مقصودیہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں افواج پاکستان تو بے جگری سے لڑ رہی تھیں مگر سیاسی پنڈتوں کو اپنے ایجنڈے (پاکستان کو دو لخت کرنا ہے) کی تکمیل میں جلدی تھی جو برسوں سے ہر طرح کی سازشوں کو آخری شکل دے چکے تھے۔۔پاکستان کے محب وطن عوام ان سازشوں سے آگاہ تو تھے مگر وہ بے بس بنا دئیے گئے تھے۔

ادھر جونہی بھارتی وزیراعظم شری متی اندرا گاندھی نے اپنی لوک سبھا میں تقریر کرتے کہا ” ہم نے دو قومی نظریے کو Bay Of Bangalمیں ڈبو دیا ھے تو پورے بنگلہ دیش میں اس پر احتجاج کیا گیا تھا۔بڑے بڑے شہروں میں ریلیاں نکالی گئی
تھیں۔ دین اسلام کا رشتہ، مسلمانوں میں ڈھیلا ڈھالا ہی سہی مگر کبھی مرنے والا نہیں ہے۔ جب اللّہ اکبر کا نعرہ گونجے گا سارے مسلمان اکٹھے ہو جائیں گے۔ انشاللہ۔

٭٭٭

شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ )اسلام آباد کے معروف ادیب،شاعر اور کالم نگار ہیں