
شہباز بڈگامی
شہید شمس الحق کسی تعارف کے محتاج نہیں بلکہ تحریک آزادی کے اُفق پر ایسے اُبھرے کہ تاصبح قیامت ظالموں اور جابروں کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہونگے۔ شہید شمس الحق علاقہ سنور کلی پورہ، بیروہ بڈگام کی مردم خیز بستی سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے ۹۴۹۱ء میں اسی مردم خیز بستی میں آنکھ کھولی اور ۶۱/ دسمبر ۳۹۹۱ء میں اپنی جان اسلام اور تحریک آزادی پر قربان کرکے ہمیشہ کی سرخروئی اور کامیابی اپنے لئے مختص کرلی۔ شہید شمس الحق ایک تحریک، ایک جہد مسلسل کا نام ہے، کیونکہ انہوں نے تحریک آزادی سے پہلے ہی اپنی زندگی اسلام کی سربلندی اور عظمت رفتہ کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ وہ کسی اچانک انقلاب کی ایجاد نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنا تن من دھن جماعت اسلامی کیلئے وقف کر رکھا تھا۔ انہیں ایک مربی اور مرشد کی حیثیت حاصل تھی۔ جماعت اسلامی کے ساتھ وابستگی نے انہیں پورے مقبوضہ کشمیر میں ایک بلند مقام اور مرتبہ عطا کیا تھا۔ وہ ایک اسلامی سکالر، دانشور، مقرر اور واعظ تھے۔ وہ گاؤں گاؤں اور شہر و دیہات میں نوجوانوں کو دعوت دین اور اسلام کی حقانیت کی جانب راغب اورمتوجہ کرنے میں دن رات محنت اور مشقت کرتے تھے۔ اس کے لئے انہیں نہ صرف اپنوں کی مخالفت بلکہ بھارت اور اس کے حواریوں کی طرف سے شدید برہمی اور زندانوں میں قید اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر اسلام کے ساتھ جنون کی حد تک محبت کرنے والے داعی شہید شمس الحق کہاں باز آتے، وہ جیل سے چھوٹتے ہی دوبارہ دعوت و تبلیغ کے مشن پر نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ رواں دواں ہو جاتے اور بار بار جیل کی صعوبتوں سے گزر جاتے کیونکہ وہ اپنی زندگی دین کی سربلند کے لئے وقف کرچکے تھے۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے ساتھ وابستگی کو ہمیشہ اپنے لئے فخر اور اعزاز سمجھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے بھی ان کی اعلیٰ علمی صلاحیتوں کے پیش نظر انہیں دعوت و تبلیغ کے لئے وقف کر رکھا تھا، کیونکہ شہید غلام محمد میر المعروف شمس الحق چار مختلف مضامین میں ماسٹرز کرچکے تھے۔ انہوں نے ۲۸۹۱ء میں کشمیر یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی، پھر ۴۸۹۱ء میں عربی میں ایک اور ماسٹرز کیا۔ ۷۸۹۱ء میں مولوی فاضل کا امتحان بھی کشمیر یونیورسٹی سے پاس کیا اور چوتھا ماسٹرز پولٹیکل سائنس میں ۸۸۹۱ء میں کیا۔ انہوں نے اپنے گاؤں میں ایک لائبریری قائم کی تھی جس میں تقریباً تیس ہزار اسلامی کتب موجود تھیں جن سے بڑی تعداد میں لوگ اپنے علم کی پیاس بجھاتے تھے۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ایک ماسٹرز ڈگری ہولڈر کو اپنے علاقے میں بڑے ہی ادب و احترام اور اعزاز کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا لیکن شہید شمس الحق چار ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہونے کے باوجود سادہ، نرم طبیعت اور بہت ہی ملنسار تھے۔ یہ جماعت اسلامی کی تربیت کا ہی نتیجہ تھا۔ انہی اوصاف حمیدہ کے باعث محترم شمس الحق نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن تھے۔ انہیں سب سے پہلے امیر تحصیل بیروہ منتخب کیا گیا۔ اس ذمہ داری پر فائز رہ کر انہوں نے تحصیل بیروہ کی ہر بستی اور گاؤں کا دورہ کرکے نوجوانوں تک دین کا پیغام پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ ۷۸۹۱ء میں مسلم متحدہ محاذ نے جب انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا، تو حلقہ بیروہ کے لئے نظر انتخاب غلام محمد میر ٹھہرے۔ چونکہ وہ نوجوانوں میں پہلے ہی بہت مقبول تھے، اس لئے نوجوانوں نے اُن کی الیکشن مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مسلم متحدہ محاذ کی کامیابی سو فیصد یقینی تھی کیونکہ ہوائیں بھی بھارت نوازوں کی ناکامی کا اعلان کرچکی تھیں۔ بھارت نوازوں کے جلسوں میں صرف دھول ہی اُڑا کرتی تھی اور خالی کرسیاں اُن کا مذاق اُڑاتی تھیں۔ ویرانی اور سنسانی کا یہ منظر اس بات کا اعلان تھا کہ بھارت نوازوں کے ہاتھوں سے بازی نکل چکی تھی اور وہ اپنی آنکھوں سے اپنی شکست دیکھ رہے تھے۔ مسلم متحدہ محاذ کے جلسوں میں عوام خاص کر نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر شرکت نے بھارت اور اس کے حواریوں کی نیندیں اُڑا دی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اور اس کے حواریوں نے انتخابات کو دھاندلی میں تبدیل کرنے کا باضابطہ منصوبہ بنا لیا، کیونکہ مسلم متحدہ محاذ نے انتخابی منشور کو مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ مشروط کرکے پورے ماحول کو اپنے حق میں ہموار کیا تھا۔ ووٹنگ والے دن محاذ کے امیدواروں کے کیمپوں میں گہما گہمی بھارت اور اس حواریوں کے لئے واضح پیغام تھا کہ اب ان کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن جب ووٹ گننے کا دن آیا تو بیلٹ بکسوں سے بھارت نوازوں کے حق میں ووٹ نکل رہے تھے اورمسلم متحدہ محاذ کے تمام امید وار کامیاب ہونے کے بجائے ان کی ہار کا اعلان کیا جاتا رہا۔جناب غلام محمد میر کی شکست کا اعلان بھی ریڈیو سے کیا گیا اور ساتھ ہی ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ مسلم متحدہ محاذ کی شکست نے کشمیری عوام کو باالعموم اور کشمیری نوجوانوں کو باالخصوص ششدر اور حیرت زدہ کر دیا۔ انتخابی نتائج سامنے آنے اور محاذ کے امیدواروں کی گرفتاری نے کشمیری نوجوانوں اور تحریک اسلامی کی قیادت کو کچھ کر گزرنے اور سوچنے پر مجبور کیا۔ اب صندوق کو بندوق اور بیلٹ کو بلٹ میں بدلنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہی انتخابات مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع کرنے کے باعث بنے اور عسکری جدوجہد نے جنم لیا۔ جناب غلام محمد میر کسی بھی تاخیر کے بغیر مسلح جدوجہد میں شامل ہوئے اور شمس الحق کا روپ دھار گئے۔ ان کے سینکڑوں شاگرد نہ صرف عسکری جدوجہد میں شریک ہوئے بلکہ عسکری جدوجہد کے بانیوں میں سے تھے، جن میں شہید محمد اشرف ڈار، شیخ عبدالوحید اور شہید عبدالماجد ڈار سرفہرست تھے۔ شمس الحق کو امیر حزب المجاہدین مقرر کیا گیا۔ انہوں نے نہ صرف اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی نبھایا بلکہ بقائے باہمی کے اصولوں کے مطابق دوسری تنظیموں کے ساتھ ایک مضبوط تعلق استوار اور رشتہ قائم کیا۔ ان اوصاف نے شہید شمس الحق کو دوسری برادر تنظیموں میں ایک ممتاز اور اعلیٰ مقام عطا کیا۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے چپے چپے کا دورہ کرکے ایک ایک مجاہد تک پہنچے۔ جناب شمس الحق کمال حافظے کے مالک تھے۔ وہ ایک ایک مجاہد کو نام سے جانتے تھے جو ان کی عسکری جدوجہد اور مجاہدین کے ساتھ دلچسپی اور وابستگی کے عملی مظاہرے کو ظاہر کرتا تھا۔ شہید شمس الحق اکیلے مسلح جدوجہد کے کارواں کا حصہ نہیں بنے بلکہ سب سے پہلے اپنے بڑے بیٹے اور بھائی کو بھی آزادی کشمیر مسلح تربیت کے لئے بھیجا۔ یوں دونوں بھائی اور بیٹے کے علاوہ ایک ماموں اور بھانجا بھی مسلح جدوجہد میں ایک ساتھ شریک رہے۔ ۲۹۹۱ء میں شہید شمس الحق اپنے ایک عظیم اور مجسمہ قربانی شہید میر احمد حسن کے ہمراہ بیس کیمپ آزاد کشمیر آئے یہاں کچھ عرصہ رہ کر مسلح تربیت حاصل کی ایک کتاب تحریر کی، جسے بعد ازاں تین پمفلٹوں کی صورت میں شائع کیا گیا۔ ذمہ داریوں سے اپنے آپ کو دور رکھا اور ۳۹۹۱ء کے اوائل میں مقبوضہ کشمیر کے لئے رخت سفر باندھا۔ سخت بیمار بھی تھے، لیکن بیماری کو اپنے سفر میں آڑے نہیں آنے دیا۔ جماعت اسلامی پاکستان اور باالخصوص جناب قاضی حسین احمد مرحوم اور جناب عبدالرشید ترابی نے انہیں بیس کیمپ میں رہ کر مجاہدین کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنے کی استدعا کی تھی لیکن مرد مجاہد شہید شمس الحق نے میدان کارزار میں ہر صورت پہنچنے کیلئے اپنا سفر جاری رکھا اور میدان کارزار میں پہنچے۔ ابھی جناب شمس الحق کو میدان کارزار میں پہنچے صرف چار روز ہوچکے تھے کہ بھائی علی محمد میر جو کہ ۰۹۹۱ء میں بیس کیمپ سے مسلح تربیت کے بعد واپس وادی پہنچ چکے تھے، بھارتی فوج کے ساتھ ایک معرکے میں جام شہادت نوش کرگئے۔ اپنے بھائی کی جدائی جناب شمس الحق کے عزم و حوصلوں کو متزلزل نہیں کرسکی۔ اگرچہ اکلوتے بھائی کی جدائی کسی غم کے پہاڑ کے برابر تھی لیکن جناب شمس الحق میدانِ جہاد میں صبر و ثبات کا پہاڑ بن کر کھڑے رہے اور مجاہدین کا حوصلے بڑھاتے رہے۔ ایک ایک شہید کے گھر جاکر لواحقین کی ڈھارس بندھاتے رہے۔ وقت گزرتا رہا، یہاں تک کہ ۶۱/ دسمبر ۳۹۹۱ء کا دن پہنچا جناب شمس الحق وترپورہ بیروہ میں ٹھہرے تھے۔ ان کے ہمراہ سنور کلی پورہ کے عبدالقیوم اور آری پاتھن بیروہ کے علی محمد نامی مجاہدین بھی تھے۔ بھارتی فوج نے پورے دیہات کو محاصرے میں لیکر تمام راستوں کو سیل کیا تھا۔مقابلہ ہوا جس میں شمس الحق اپنے دونوں مجاہد ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کر گئے۔ ان کی شہادت کی خبر پورے مقبوضہ کشمیر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ میت گھر پہنچی تو لوگوں کا سمندر آخری دیدار کے لئے اُمڈ آیا۔ دوسرے روز انہیں مزار شہداء سرینگر میں اس عزم کی تجدیدکے ساتھ سپرد خاک کیا گیا کہ شہداء کا مشن کشمیری عوام کے لئے فرض اور قرض ہے اور اس مشن کو ہرحال میں پائیہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ ان کی غائبانہ نماز جنازہ خانہ کعبہ میں بھی پڑھی گئی۔ یوں وہ پہلے کشمیری شہید ہیں جن کی خانہ کعبہ میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی جس کی امامت کے فرائض اس وقت کے امام کعبہ نے انجام دیئے۔ ان کی شہادت پربے شمار مضامین اخبارات اور رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ جناب قاضی حسین احمد مرحوم اور جنرل حمید گل مرحوم نے خصوصی طور پر شمس الحق کی زندگی پر مضامیں لکھے۔ حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین احمد جو شمس الحق کی شہادت کے وقت میدانِ کارزار میں بنفس نفیس موجود تھے، یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ اگر میں مجاہدین کا سربراہ نہ ہوتا تو میں شمس الحق کی جدائی پر اس قدر روتا کہ پورا جنگل میرے آنسوؤں میں ڈوب جاتا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ شہید شمس الحق کو کئی بار بڑے بڑے عہدوں اورنوکری کی پیشکش کی گئی، مگر انہوں نے باطل پرستوں اور خدا بیزارسسٹم کی جانب سے ہر پیشکش کو ٹھکرایا اور جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط سے مضبوط تر کیااور زندگی کی آخری سانس تک اپنی اس وابستگی کو قربانیاں دیکر نبھایا۔ اللہ تعالیٰ شہید شمس الحق اور دوسرے ہزاروں شہداء کی قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول و مقبول فرما کر کشمیری عوام کو بھارت کے غاصبانہ اورجابرانہ قبضے سے نجات اور آزادی کی نعمت سے سرفراز فرمائیں۔ آمین
حزب المجاہدین کا سفر جاری و ساری ہے اور حزب المجاہدین کے ساتھ وابستہ غازی اور صف شکن مجاہدین آج بھی غاصب بھارت کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے اور حزب المجاہدین کے ساتھ وابستہ ہزاروں جانباز اپنی نذر پوری کرچکے ہیں، حزب المجاہدین کے جانباز اور سرفروش شہید شمس الحق اور دوسرے شہداء کے مشن اور عَلم کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ شہداء ملت اسلامیہ کے اصل ہیروہیں جنہیں تاریخ جری اور بہادر کے طور پر یاد رکھے گی۔ امت مسلمہ کو بجا طور پر ایسے جوانوں پرفخر ہے جو آج کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اپنے خون سے چراغ جلا رہے ہیں۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
٭٭٭