شہزاد احمد منیر
کسی بھی ریاست کی تشکیل کا بنیادی مقصد انسانیت (ریاستی عوام) کا تحفظ اور فروغ ہوتا ہے۔ ریاست اپنے عوام میں سے کچھ اہل کاروں کی جماعت(Team)کا انتخاب کرتی ہے۔ اس جماعت کو عام فہم اُردو زبان میں نوکر شاہی، اور انگریزی زبان میں Bureaucracy کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اس جماعت کا ایک اعلیٰ تعلیمی معیار قائم ہوتا ہے۔ اس میں شامل ہونے والے ریاستی شہری مقررہ نصاب کا امتحان پاس کر کے میرٹ یعنی اہلیت کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں۔ اس منتخب شدہ جماعت کے ارکان کو ان کی علمی صلاحیتوں اور ضمنی خصوصیات کی بنیاد پر مختلف شعبوں میں ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ ان کے اختیارات کا تعین بھی ریاست از خود کرتی ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ ذہانت و لیاقت کے اعتبار سے اپنی سوسائٹی کا بہترین ذہن ہوتے ہیں۔
ریاست کو اپنے عوام کی جان مال عزت و آبرو کے تحفظ اور معاشرے میں مکمل امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فیصلے کرنا ہوتے ہیں اور ان فیصلوں پر دیانت دارانہ عمل درآمد کی ذمہ داری انتظامیہ کی ہوتی ھے۔ حکومتی فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے اصول و ضوابط کو مہارت سے نافذ کرنے کے لیے ایک مخصوص نفسیاتی اسلوب اور موثر طریقہ کار ہوتا ھے۔ اس ہنر و فن کو Administrative Governance کہتے ہیں۔
کسی بھی حکومت کی کامیابی کا مظبوط ترین ستون اور عوام کو نظر آنے والا چہرہ اس کی ایڈمنسٹریٹو گورننس ہوتی ہے۔ عوام اپنی ہر معاشرتی سہولت اور معاونت کے لیے انتظامی حکومت کی طرف دیکھتے ہیں، بالکل ایسے جیسے دن بھر کی معاشی پیشہ ورانہ سرگرمیوں، ملازمت، تجارت، کاروبار اور سفری تھکاوٹ سے چور فرد اپنے آرام دہ گھر کی طرف لوٹتا ہے اور سکون پاتا ہے۔ شہری بھی اپنے سماجی، رواجی مسائل اور الجھنوں کے سلجھاؤ کے لیے ریاستی ایڈمنسٹریٹو گورننس سے رجوع کرتے اور امید رکھتے ہیں کہ وہ اسے فکرمندی سے نکال کر سکھ کا سانس دلوائے گی۔ اس شعبے، ایڈمنسٹریٹو گورننس کے ذمہ دار اہلکاروں کو معمول سے ہٹ کر اپنے نظریہ ریاست سے محبت اور شہریت سے لگاؤ، معاشرے کے دوسرے شعبوں سے کہیں زیادہ حب الوطنی درکار ہوتی ھے ساتھ ہی انہیں زیادہ محنتی، حساس اور متحرک ہو کر اپنے ذمہ سرگرمیوں کو نبھانا ہوتا ہے۔
ایڈمنسٹریٹو گورننس کے کرتا دھرتا قائدین کو سادہ زبان میں زمانہ قدیم کے ترک دنیا کرنے والے کاہنوں اور راہبوں کی طرح اپنی دیگر دلچسپیاں چھوڑکر اپنی ساری توجہ اپنی ذمہ داریوں پر مرکوز رکھ کر فرائض ادا کرنا چاہیے۔ وہ اگر معاشرتی سرگرمیوں سے کنارہ کشی نہ کریں اور دوسرے ثقافتی اور سماجی تنظیموں کے ساتھ دوستانہ انداز میں مل جل کر رہیں تو گورننس مشکل ہو جاتی ہے۔ انہیں یہی اصول راس آتا ہے کہ رویہ دوستانہ سب کے ساتھ مگر دوستی کسی ایک سے بھی نہیں۔
(Administrative Governer, Maintains Hawks Eyes Not Humane Smile)ان عقابی نگاہوں والے گروہ کو ہر وقت اپنی ذزمہ داریوں سے نمٹنے کے لیے نت نئے طریقوں اور جدید ٹیکنالوجی کے او پر غور وفکر کرکے بہتری لانے میں مستغرق رہنا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی فطرت کا اعلامیہ Divine Law)) ہمیشہ مد نظر رکھنا چائیے کہ” تمہی غالب رہو گے اگر تم سچے ہو۔” لہذا اپنے عمل کو ”سچائی” کے پیمانے یعنی مکمل طور پر مروجہ اور تسلیم شدہ قوانین و ضوابط کا عین عین ادا کریں۔ اس اصول سے انحراف نقصانات کی راہ پر چلنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ ان سے متصادم جرائم پیشہ افراد اور گروہ بھی انسان ہونے کے ناطے انہی کے معیار کی عقل شعور اور فکری صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں بلکہ چالاکیوں اور تخریب پسندی میں حکومتی اہلکاروں سے وہ دو ہاتھ آگے ہوتے ہیں۔ چونکہ انسانی فطرت میں سزا کا خوف ہی اس کی ناپسندیدہ سرگرمیوں سے باز رہنے کا سبب ہوتا ھے اس لیے منتظمین، ایڈمنسٹریٹرز کو جرائم کی دنیا میں یہ پیغام بڑے موثر طریقے اور واضح الفاظ میں پہنچا دینا چائیے کہ ان کا قانون کی گرفت میں آنے کی صورت میں سزا سے بچ نکلنا قطعاً ممکن نہیں ہو سکے گا۔
جو حکومت بھی ایڈمنسٹریٹو گورننس کی اہمیت سے بے خبر ہو یا بوجوہ اسے کمزور رکھے، وہ ریاست کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہوتی ہے۔ ایسا مگر ملک کی نظریاتی سیاسی جماعتیں ہونے نہیں دیتی۔ البتہ شوقیہ سیاستدان، ELECTABLES ایسا لازماً کرتے ہیں کیونکہ ان کا شوق،مقصد و ہدف صرف اقتدار حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کہ سوسائٹی کی بہتر خدمت۔
ایڈمنسٹریٹو سائنٹسٹس یعنی انتظامی پنڈتوں کو دنیا بھر میں یہ غیر تحریری سہولت و اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے فیصلوں کو صحیح ثابت کرنے یا التوا میں رکھنے یا یکسر مسترد کرنے کے لیے کرسی اختیار کے داہنے اور بائیں جانب بے شمار قانونی حوالے(کتابیں) موجود رکھتے اور استعمال میں لاتے ہیں۔ چونکہ اختیارات کی وسعت و لامحدودیت آدمی کو متکبر اور بد عنوان بنانے کا باعث ہوا کرتے ہیں اس لیے ان ایڈمنسٹریٹو گورنرز کو بڑی ہیں احتیاط اور مناسب پرکھ پہچان کے بعد اپنا قدم اٹھانا چاہیے۔
پیشہ ور، حساس اور ذمہ دار منتظم ایڈمنسٹر اپنے فیصلوں کو بلا وجہ نہیں روکتا بلکہ ایک قانونی عقاب کی طرح جرائم پیشہ افراد پر جھپٹتا اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے پر ہی توجہ دیتا ہے۔ ایڈمنسٹریٹو فلاسفی کا یہ مرکزی نقط فکر ھے کہ معاشرے میں جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں سے متاثر ہونے والے مجبور عوام عدم فراہمی عدل پر مایوس ہوتے ہیں، معاشرے میں بے یقینی کی کیفیت پروان چڑھنے لگتی ہے۔ اس کے برعکس ملزمان و مجرمان شہ پکڑتے ہیں۔ اس لیے ایڈمنسٹریٹو فلاسفی میں بلا جواز التوا کو انتظامی گناہ کبیرہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ایک چاک و چوبند منتظم اپنے ادارے میں کبھی بھی ایسے عناصر کو پسند نہیں کرتا جو بلا جواز معاملات اور فائلوں کو متعلقہ دفاتر تک پہنچانے میں التوا (Procrastination) کا موجب بنتا ہو یا پھسپھسے بہانے کے پیچھے چھپتا ہو۔
کورس کے دوران ہم طلباء کو ایک پرانا کیس اسٹڈی کے لیے دیا گیا تھا، جس کی۔تفصیلات کچھ یوں تھیں:-
لارڈ میئر کو اطلاع ملی کہ ایک خاندان کا چھوٹی عمر کا معصوم بچہ گھر سے غائب ہو گیا ھے۔ لارڈ میئر نے شہر کے کوتوال، درباری اکابرین کو بلا کر کہا کہ بڑی شرمندگی کی بات ہے کہ ایڈمنسٹریٹو گورننس، انتظامی حکومت موجود ہے، سارے اہل کار اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے حاضر ہیں اور دن کی روشنی میں بچہ غائب ہو گیا۔ آپ بتائیں ایسا کیوں کر ممکن ھے۔ اجلاس میں موجود افراد نے اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کیا مگر کوئی بھی لارڈ میئر کو مطمئن نہ کر سکا۔ لارڈ کا موقف یہ تھا کہ شہر سے بچہ صرف اس لیے غائب ہوا کہ انتظامی گورننس کے سسٹم میں موجود ن جتنی آنکھیں اس وقت دیکھنے کے لیں معمور تھیں وہ یا تو غیر حاضر تھیں، یا لا پرواہ تھیں یا بند تھیں، یا پھر بچہ غائب کرنے والی آنکھیں ہی اس وقت ڈیوٹی پر لگائی گئی تھیں۔ بچہ ملے یا نہ ملے اس جرم کی گنجائش نکالنے والی اور جرم کا ارتکاب کرنے والی آنکھوں کی سزا تجویز کریں۔ اس نے اپنے مخصوص لوگوں کو حکم دیا کہ شہر کے کوتوال، منصف اعلیٰ اور ان کے نائبین کا ایک ایک بچہ چپکے سے اٹھا کر ایک خاص جگہ پر حفاظتی تحویل میں رکھ لیا جائے، مزید یہ کہ اس عمل کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ کیس رپورٹ میں لکھا تھا اگلے آٹھ گھنٹوں میں اغوا شدہ بچہ برآمد کرا لیا گیا تھا۔” مجرمان، ان کے سہولت کاروں اور مجرموں کو معاف کر دینے والوں کو کڑی سزائیں دی گئیں۔ ایڈمنسٹریٹو گورنرز کو ان کے عہدوں سے ہٹا کر انہیں تا عمر سرکاری عہدوں کے لیے نا اہل قرار دیا گیا۔ رپورٹ میں مزید لکھا گیا تھا کہ اس واقعہ کے فیصلے کے بعد آج بارہ سال تک انسانی اغوا کا ایک بھی واقعہ نہیں ہوا۔
1 یہ ممکن نہیں کہ کسی فرد کے ہاتھوں جرم ہو اور کوتوال شہر اس کا سراغ نہ لگوا سکے۔
- اگر انتظامی قائد اپنے علم و تجربے، جرأت و دیانتداری، بلا خوف اور پیشہ ورانہ مہارت سے کام لے کر آگے بڑھے تو جرائم پیشہ افراد علاقہ چھوڑ جاتے ہیں۔
ایڈمنسٹریٹو گورننس کے ضابطوں میں ” نرمی” اور ” معاف کرنے” کی چنداں گنجائش نہیں ہوتی۔ ان کا عقیدہ اور دستور ہے کہ ریاست صرف اپنے محب وطن،قانون کی پابندی کرنے والے،امن پسند اور فرمان بردار شہریوں کی جان، مال، عزت و آبرو، آزادی اور سارے انسانی حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کی پابند ہوتی ہے۔جرائم پیشہ افراد (مجرمان) کا آزاد ریاست میں ہر حق جرم کے ارتکاب کے ساتھ ہی کالعدم قرار پا جاتا ہے، سوائے اس کے مقدمہ کی۔پیر وی کرنے والے وکیل کی تقرری کے۔
3۔ایڈمنسٹریٹو گورننس اس بات پر زور دیتی ہے کہ جرائم کی بیخ کنی کے لیے جرم کے ارتکاب سے لیکر مجرمان کے انجام کو پہنچنے تک کے سارے پس منظر کی تفصیلات، اس میں معاونین عناصر اور عوامل،ذمہ داران کا تعین کیا جائے،ملوث مجرمان کو دی گئی سزا کا مکمل ریکارڈ، رپورٹ کی شکل میں محفوظ کیا جائے تا کہ آئیندہ اس سے استفادہ کیا جائے اور ریاست جرائم کے تدارک کے لیے اقدامات کرے۔
معاشرے کے روزمرہ معمولات اور امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے ایڈمنسٹریٹو گورنرز کو یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ سوشل کریمینلز، معاشرتی بد معاشوں سے نمٹتے وقت اپنے درباریوں اور معتبر ذمہ داروں سے بحث و مشاورت کے دوران ان لوگوں پر نظر رکھیں جو ایسے ملزمان و مجرمان کے بارے انسانی حقوق اور دیگر وجوہات پر انہیں سزا سنانے کے بارے نرم گوشہ رکھتے ہوں۔ ان سب کو بھی ان مجرمان کا سہولت کار قرار دے کر مناسب سزا دی جائے۔ ہر وہ شخص بے شک وہ کتنا ہی نیک رو اور ذہین ہو جو معاشرتی مجرموں کو معاف کرنے کا مشورہ دیتا ھے وہ سوسائٹی کا سب سے بڑا مجرم ہوتا ہے۔
ایڈمنسٹریٹو گورننس کا یہ نظریہ بڑا موثر ثابت ہو سکتا ہے۔شرط یہ ہے کہ ریاست میں امن و امان قائم کرنے کا ارادہ ہو اور بے لگام ذرائع ابلاغ کو ان کے حقوق و فرائض پر پابند رکھا جا سکے۔ ایڈمنسٹریٹو گورنرز کا چہرہ متبسم نہیں بلکہ سرخ ہی رہنا چاہیے۔
مجرم کا عدالت سے سزا نہ پانا، صرف مجرم کی رہائی کا پروانہ ہی نہیں ہوتا بلکہ جرم اور جرائم پیشہ افراد کے لیے زرخیز زمین کی فراہمی کے مترادف ہے
امید رکھنی چاہیے کہ ہمارے دانشور، صاحب فکر و نظر شخصیات اہل قلم اور ایڈمنسٹریٹو گورنرز اس پہلو پر غور و فکر کر کے اپنی گورننس کو موثر بنانے کے لیے وقت نکالیں گے۔
گورنرز کو بھی ان عقیدت مندوں سے بڑے ہی محتاط انداز سے نمٹنا ہوتا ہے، اگر یہ وائرس بپھر جائے یا بے لگام ہو جائے تو ہر دو اطراف مہلک ثابت ہوتا ہے۔ یہاں ایڈمنسٹریٹو گورنرز کو ایک کریکٹر ایکٹر کی اداکاری سے کام لینا ہوتا ہے۔ قانون کی چھڑی کی بجائے Psychotherapy زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے۔ فطری سچائی کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ انسان اپنے ساتھ ہونے والے ظلم، زیادتی، اپنی بے عزتی، توہین آمیز رویے سب کو شائد معاف تو کر سکتا ہے مگر انہیں بھلا نہیں سکتا۔وہ خود کو بے بس سمجھ کر انتقام نہ لے سکے مگر انتقامی جذبوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن نہیں کر سکتا۔یہ بشریت کی وراثت ہے۔ اس لیے مدبر اور تاریخ پر نظر رکھنے والے ایڈ منسٹریٹو گورنرز ایسا قدم نہیں اٹھاتے اور لوگوں سے ایسا سلوک روا نہیں رکھتے جو تاریخ دہرانے کا سبب بنے یا، بھولتے مٹتے غم کو نفرتوں کی نئی شکل میں ڈھالنے کی وجہ بنے۔ تاریخ کے زمینی حقائق کو جیسے ہوں ویسے ہی رہنے دے۔
دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر 260000 جاپانی معصوم شہریوں کا قتل کیا، امریکی ڈھٹائی اور بے شرمی دیکھیں کہ اس واقعہ کے ٹھیک ایک سال بعد اس کی سال گرہ منائی گئی اور جو کیک تیار کروایا گیا وہ اس دھویں سے ملتا جلتا تھا جو ایٹم بم کے گرنے کے بعد دھویں کے بادل بن کر فضا۔میں اٹھا تھا۔ایسی تقریب کا صرف ایک ہی مقصد تھا ” دنیا کا منہ چڑانا، کر لو جو کرنا ہے”۔ ایڈمنسٹریٹو گورننس کے اعتبار ایسی تقریبات کا رد عمل کبھی بھی عالمی سطح پر خوشگوار نہیں ہوتا، اس سے ممکنہ حد تک گریزاں رہا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
امریکہ کے مائنڈ سیٹ اور اور تکبر بھرے ایسے رویے کے نتیجے میں دنیا امریکہ کے خلاف حتمی نفرت میں مبتلا ہو گئی۔ اس جنگ عظیم کے بعد امریکی جہاں گئے ناپسندیدہ ہی رہے۔ جنگی جنوں میں مبتلا امریکہ جہاں گیا شکست سے دو چار ہوا۔ کوریا ویتنام،عراق بڑی مثالیں ہیں۔حالیہ ذلت آمیز شکست۔جو ایٹمی طاقت امریکہ کو اپنے بے شمار اتحادی ممالک کے ساتھ نہتے، ڈنڈے سوٹوں اور توکل اللہ کے ساتھ لڑنے والے افغانوں کے ہاتھوں ہوئی ہے یہ اسی جذباتی ردعمل کا نتیجہ ہے جو امریکہ نے مذکورہ بالا سالگرہ منا کر دنیا کا منہ چڑایا اور نفرت کا پیغام بھیجا تھا۔ ایڈمنسٹریٹو گورنرز کا اس کا خصوصی نوٹس لے کر اپنے انتظامی فیصلے کرنا چاہیں۔
تاریخ کا یہ بھی مشاہدہ رہا ہے کہ ” ہر کہ آمد، عمارت نو ساخت” یعنی ریاست کا منشور تو مستقل وہی رہتا ہے البتہ ایڈمنسٹریٹرز بدلتے رہتے ہیں۔ یو ں ہرنیا گورنر اپنی فہم و فراست کی بنیاد پر نئے نئے اقدامات اور منصوبوں کو متعارف کرواتا ہے۔یہیں سے اختلاف کا آغاز ہوتا ہے۔ چونکہ تخت ارشاد پہ بیٹھنے والا خود کو عقل کل جان کر اپنے” فرمان” پر صرف عمل درآمد چاہتا ہے، عملداری میں التوا یا انکار پسند نہیں کرتا لہٰذا وہ اس ضد سے ریاستی امن میں انتشار اور اپنی حکمرانی کے خاتمے کا آغاز کرتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جو ایڈمنسٹریٹو گورنرز کے غیر معمولی تحمل، تدبر جرأت کردار و اظہار کا متقاضی ہوتا ہے۔ ایڈمنسٹریٹو گورنرز کو اپنے اقدامات سے تاریخی سبق اور فطری قوانین سے نہیں لڑنا چاہیے۔ زمینی حقائق اور معاملات کی سچائی کو عوام کے سامنے رکھ کر ہی بحرانوں سے نمٹا جا سکتا ہے۔ جہاں فطرتی اصولوں سے روگردانی سامنے آئے گی، ریاست کے نظم اور شہریوں کے امن میں طلاطم خیز اور مضطرب لہروں کا طوفان بپا ہو اٹھے گا۔
برٹش انڈیا کی تاریخ میں جلیانوالہ باغ کا وحشتناک واقعہ 13 اپریل 1919 کو پیش آیا تھا۔ ہندوستانی شہری جلیانوالہ باغ میں کسی سیاسی جلسے میں نہیں بلکہ ایک مذہبی و ثقافتی تقریب میں شرکت کے لیے جمع تھے۔ بریگیڈیئر جنرل ڈائر اپنے فوجی دستوں کے ہمراہ جلیانوالہ باغ میں پہنچے اور بغیر کسی انتباہ کے سیدھی فائرنگ کا حکم دے دیا۔ جس میں بے شمار لوگ مارے گے۔ اس بے جواز فائرنگ اور سفاکانہ فیصلے اور درندگی کے مظاہرے کی ہر گز ضرورت نہیں تھی۔انگریزی مؤرخ ٹامسن کے مطابق پندرہ سو مقتولین، ایک دوسری معتبر روایت کے مطابق بارہ سو زخمیوں کو مقتل انسانی (جلیانوالہ باغ) میں چھوڑ کر برگیڈیئر جنرل آر ایچ ڈائر بے رحمانہ و سنگدلانہ حکم ”(کہ یہاں سے زخمیوں کو ہسپتال میں اور مقتولین کو برائے تجہیز و تکفین لے جانے کی بالکل اجازت نہیں ”) نافذ کر کے اپنی قیام گاہ کو روانہ ہو گیا۔.جلیانوالہ باغ کی سفاکانہ درندگی پر برطانوی حکومت نے 1947 کے بعد رد عمل دیتے ہوئے ہر دور میں اسے ایک غیر ضروری اور افسوسناک واقعہ تو تسلیم کیا مگر اس پر معافی آج تک نہیں مانگی۔ ڈھٹائی کا شرمناک رویہ مغربی طاقتوں کا معمول رہا ہے۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔
مذکورہ واقعہ پر شیو سینا کے راہنما پرینکا چترویدی نے لکھا ہے کہ ” بعض اوقات مقامات درد کے احساس کو جنم دیتے ہیں۔ اور اس بات کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتے ہیں، کہ ہم نے کیا کھویا اور کس چیز کے لیے ہم لڑے۔”
عنایات کا اثر تو وقت دل سے کھرچ ہی دیتا ہے مگر دیکھی ہوئی نفرت اور بھگتی ہوئی سفاکی کی تلخیاں دل سے کسی طور نہیں مٹتیں۔ ہندوستان اس وقت تو مذکورہ درندگی کا بدلہ نہ لے سکا مگر سنام نامی گاؤں کا’ اودھم سنگھ” 21 سال بعد، 13 مارچ 1940 کو لندن میں ایک اجتماع میں اس نے اپنے پستول سے ایک کے بعد ایک چھ فائر کئے اور جلیانوالہ باغ میں کی جانے والی وحشیانہ کاروائی کے وقت پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر مائیکل او ڈائر کو قتل کر کے بدلہ لیا اور ثابت کیا کہ نفرت اور ظلم صدیوں بعد بھی ہرا بھرا رہتا ہے۔ اجتماعی مسائل نفرت اور طاقت سے نہیں بلکہ رواداری اور بات چیت کی میز پر ” سچائی” رکھ کر ہی پائیدار حل نکالا جا سکتا ہے۔اب مودی گورنمنٹ نے جلیانوالہ باغ کو ایک تفریحی پارک بنانے اور نئی طرز کا” مانومنٹ” نصب کر کے مقامی شہریوں کے زخم پر نمک چھڑکا ہے۔ تاریخ ایسے نہ چھپائی جا سکتی ہے نہ ہی مٹائی جا سکتی ہے۔ برٹش انڈیا میں ہندوستان انگریزوں کے ہاتھوں مقامی لوگوں کو جبر اور ظلم کا شکار ہوئے دیکھ چکا ہے۔ کہ مجبور کو کتنا ہی دبایا جائے وہ دبتا نہیں وہ بے شک بھوکا ہو، بے بس ہو اور بے وسیلہ بھی۔ حالیہ افغانستان میں امریکی فوج کی ذلت آمیز شکست سے سبق سیکھے اور ہندوستان میں مسلمانوں پر اور کشمیر میں کشمیریوں پر جو زندگی تنگ کر رکھی ہے اس پر نظر ثانی کرے، ان کے چھینے ہوئے انسانی، اخلاقی اور قانونی حقوق بحال کرے ورنہ شائد تاریخ کوئی اور فیصلہ کر دے۔ کشمیر میں جو 5 اگست 2019 سے جو آرٹیکل 370 کا نفاذ کرکے اس کی نیم خودمختار شناخت ختم کی ہے اسے واپس لے۔ کشمیریوں کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے لیے پاکستان سے تعاون کرے۔ ہندوستان کو اپنے قومی لیڈر ” گاندھی ” کے قتل کے محرکات کو پڑھنا چاہیے اور یہ آفاقی سچ تسلیم کرنا چاہیے کہ اگر ہندوستان ابھی تک گاندھی کے قاتل گوڈسے کے متعصبانہ اور متشددانہ فلسفہ کو سینے سے لگائے ہوئے ہے تو کشمیری بھی ہندوستان کی ظالمانہ اور غیر انسانی پابندیوں سے اپنے دلوں میں نفرتیں ہی پال رہے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب آپ بھی امریکیوں کی طرح ہاتھ جوڑ جوڑ کر کشمیریوں سے پناہ مانگ رہے ہونگے۔ انشاللہ۔ابھی وقت ہے ایڈمنسٹریٹو گورنرز ہوش کے ناخن لیں اور کشمیر کے مسلے کو حل کروائیں۔
جبر و تحکم نہیں بلکہ تحمل اور بردباری سے اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کا ہنر اللہ الرحمٰن کا پسندیدہ اور منظور کردہ طریقہ ہے جو انبیاء و مرسلین کو سکھایا اور اپنانے کا حکم دیا گیا۔
تبدیلی نظریہ حیات کی ہو، نقطہ نظر کی ہو، رویوں کی ہو یا مزاج کی، آسان نہیں بڑی ہی کٹھن ہوا کرتی ہے مگر معاشرے کی اجتماعی بہتری کے لیے اسے قبول و اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہی جری اور مدبر قیادت کا اعلیٰ وصف ہوتا ہے کہ وہ معاشرتی اجتماعی خوشیوں کی خاطر UNPOPULAR فیصلے کرنے میں ذرا نہیں ہچکچائے۔
علامہ اقبال نے فرمایا ہے۔
آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
٭٭٭
شہزاد منیر احمد(گروپ کیپٹن ریٹائرڈ )اسلام آباد کے معروف ادیب،شاعر اور کالم نگار ہیں