کشمیر لہو لہو

کشمیر لہو لہو اور ہماری بے نیازیاں

شیخ عقیل الرحمن ایڈووکیٹ

اس وقت مقبوضہ کشمیرپوری دنیا میں ایسا زمین کا ٹکڑا ہے جس پر ہونے والے ظلم وستم دنیاکے کسی اور خطہ سے سب سے زیادہ ہیں۔ 10 لاکھ افواج کاا کٹھہ ہے۔ اس قدر فوج دنیاکے کسی اور علاقہ میں نہ ہے جو کشمیرمیں ہے۔پھر اس میں ظلم وستم کی انتہا ہے۔بھارتی افواج نے ہر طرح کا ظلم اورہرقسم کا جبراس علاقہ میں روارکھے ہوئے ہے جس کی موجودہ دنیامیں کوئی مثال نہ ہے گزشتہ تین برسوں سے 10 لاکھ افواج نے 80 لاکھ کشمیری قوم کو محاصرے میں لے رکھاہے اوراس سے جینے کاحق بھی چھین رکھاہے۔وہ افواج کی مرضی سے ہی جبرکی زندگی گزارے پرمجبورہیں اورفوج ہی کی بناء پر کاروبارزندگی چلاسکتے ہیں۔گزشتہ 30 سالوں میں فوج نے ایک لاکھ معصوم کشمیریوں کو شہیدکیاہے، ہزاروں کشمیریوں کو جن میں بچے اور عورتیں بھی ہیں پابندسلاسل کررکھاہے۔تمام حریت قیادت کو بھی جیلوں کی نذرکیاہواہے جہاں پران کو علاج معالجہ کی سہولیات بھی نہ ہیں بلکہ حریت قیادت کے جنازے بھی جیلوں سے اُٹھتے ہیں، لاکھوں مکانوں کو فوج نے نذرآتش کردیا جبکہ ہزاروں نوجوانوں کی آنکھیں پیلٹ گنوں سے بصارت سے محرو م کردی گئی ہیں، ہزاروں عزت مآب خواتین کی عزتیں پامال کی گئی اور جنسی درندگی کو جنگی ہتھیارکے طورپراستعمال کیا۔ غرضیکہ بھارتی افواج نے ظلم وستم کا پہاڑ نہتے، مجبوراوربے بس کشمیریوں پر توڑاہے۔افسوس اس بات پر بھی ہے کہ بھارت کا یہ ظلم وستم یہ جبرواستبداد دنیاکے سامنے ہے دنیا اس سے واقف ہے کہ بھارت کس طرح مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کررہاہے لیکن خاموش ہے، بلکہ دنیاکی سپورٹ انڈیاکو حاصل ہے۔ انڈیا دنیاکی سپورٹ پر ہی تو بڑھ بڑھ کر نہتے اوربے بس کشمیریوں پر ظلم وستم کررہاہے۔اس لئے کہ وہ سمجھتاہے کہ اُس کو کوئی روکنے والانہیں ہے۔تقریباً سب ممالک کی حمایت اُس کو حاصل ہے۔ عالم اسلام کے اکثر ممالک کی بھی اُسکوحمایت حاصل ہے۔

دنیا انڈیاکو ایک بڑی منڈی سمجھتی ہے اوریقینا وہ بڑی منڈی ہے بھی۔کئی ممالک نے اُس سے تجارت کررکھی ہے اور اس طرح اُن کے مفادات انڈیاسے وابستہ ہی وہ ان مفادات کو چھوڑ نہیں سکتے اور یہی حال عالم اسلام کے بعض ممالک کا بھی ہے۔ اس لئے یہ واضح ہے کہ کشمیرکے معاملے میں دنیااورعالم اسلام نے ہماری حمایت نہیں کرنی اُن سے حمایت کی اُمیدیں وابستہ کرنا ایک بیوقوفی ہوگی۔۔۔۔ اب ایک ہی راستہ رہ جاتاہے کہ اللہ پربھروسہ کرتے ہوئے ہمیں خود اُٹھنا ہوگا اورانڈیا کے خلاف کاروائی کرناہوگی اس کے علاوہ کوئی اورحل نہ ہے۔یہی واحدحل ہے کہ ہم جہاد کاراستہ اختیار کریں یہی راستہ افغانیوں نے اختیارکیا توامریکہ سمیت نصف دنیاکو شکست سے دوچارکیا۔حالانکہ دیکھاجائے توافغانیوں سے بہت بڑی طاقت پاکستان کی طاقت ہے ایک منظم فوج جن کا نصب العین ایمان، تقویٰ اورجہادفی سبیل اللہ ہے۔ ایسا نصب العین رکھنے والی فوج کو کوئی شکست نہیں دے سکتاہے۔ ہر طرح کا سامان حرب ہمارے پاس موجودہے۔پھرہم کس بات سے ڈرتے ہیں اسبات سے کہ ہماری تعدادتھوڑی ہے۔تعدادکے حوالے سے قرآن کیاکہتاہے کہ ”بارہا ایساہواہے کہ کم تعدادوالے اللہ کے اذن سے بڑی تعداد پر غالب آگئے“ یہ اللہ کا فرمان ہے۔اللہ کی تائید اور حمایت ہمیں حاصل ہوگی۔اسلئے دنیاسے امن کی بھیک مانگنے کے بجائے ہمیں اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے خود آگے بڑھکر اقدامات کرنے چائیں۔

آخر کب تک ہم کشمیری بھائیوں کے قتل عام کا تماشا دیکھتے رہیں گے، کب تک اپنی بہنوں کی عزتوں کی پامالی دیکھتے رہیں گے۔ ااب تو کشمیر کے مسلمانوں کو مسجدوں میں نماز پڑھنے پر بھی پابندی ہے نہ صرف کشمیر میں بلکہ انڈیا نے اس کا دائرہ کار ہندوستان تک بڑھا دیا ہے۔ وہاں پر بھی مساجد میں پابندی ہے۔ نماز پر پابندی ، حجاب پہہنے پر پابندی ، کاروبار پر پابندی۔ آخر کب ہماری غیرت و حمیت جاگے گی اور ہم انڈیا کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم بھارتی سورماوں کو ماضی کا سبق پھر چٹا دیں۔ یاد رکھیں آپ کی کاغذی کاروائی ، بیانات ، قراردادیں اور جلسے جلوس سے کچھ نہیں ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت کے خلاف عملی کاروائی کی جائے اور عملی کاروائی ہماری فوج کر سکتی ہے۔ جس کیلئے اس قوم نے اس کو نازوں سے پالا ہے۔ آخری کشمیری کے قتل ہونے کا انتظار نہ کریں اورنہ اس بات کا تماشا دیکھیں کہ انڈیا میں ہماری بیٹیوں کے حجاب RSS کے غنڈے اتارتے ہیں۔ آگے بڑھیے اور اپنی ذمہ داریاں ادا کیجیے اور وہ ذمہ داری صرف اور صرف فوجی کاروائی ہے۔

ہمارا طرزعمل کشمیر اورانڈیا کے مسلمانوں کے بارے میں درست نہیں ہے ہم محض زبانی جمع خرچ سے کشمیرآزادکراناچاہتے ہیں اورصرف بیانات، قراردادوں، جلسے جلسوں سے آزادی حاصل کرناچاہتے ہیں کیاان باتوں سے آزادی ملاکرتی ہے؟ 75 سال کا عرصہ گواہ ہے کہ اس طرح آزادی نہیں ملاکرتی اب اس سراب کے پیچھے اورکتنابھاگیں گے اور اپنی قوم کو بیوقوف بنائیں گے۔بھارت اس زبان کو نہیں سمجھتا وہ صرف اور صرف جوتو ں کی زبان کو سمجھتاہے چین کو دیکھیے کہ لداخ کا بڑا علاقہ اُس نے قبضہ میں کرلیا اور بھارت اُس کے سامنے بھیگی بلی بناہواہے اور اسی طرح بھارت کی مرمت کی جائے تو وہ راہ راست پر آجائے گا۔کشمیرکے مسلمانوں کو بھی آزادی ملے گی اور بھارت کے مسلمان بھی محفوظ ہوجائیں گے۔ آزادی حاصل کرنے کاواحد راستہ جہادہی ہے۔

کب تک دیکھو گے تم تماشا قاتل کا؟
بے گور و کفن لاشوں نے پکارا ہے!
ہے آندھیوں کا زور، شمع آزادی پر
تمہیں جلتے پروانوں نے پکاراہے!

پرنس اور ابابیل

ام عبداللہ ہاشمی

پچھلے ماہ میں گاڑی میں آرہی تھی۔تو ایک خاتون جوکہ بیوہ بھی ہے اور اس کے تین بچے بھی ہیں کہہ رہی تھی کہ میرے گھر آٹے کا ایک ذرہ نہیں ہے۔بچے روٹی مانگتے ہیں۔ہمارے ملک میں جتنے لوگ ہیں ان کے لائف سٹائل اور عام آدمی کے لائف سٹائل میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ایلیٹ کلاس کے سیاست دانوں کے گھروں کی تزئین و آرائش اور پارٹیوں پر پیسہ پانی کی طرح بہا یا جاتاہے۔بچے کی برتھ ڈے جس طرح منائی جاتی ہے اور سب کے بچے باہر کے ملکوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو ایک اچھے انگلش میڈیم سکول میں داخل کروانے کا صرف سوچ سکی اور پھرسرکاری سکول پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ہمارے وزیر اعظم ریاست مدینہ کی باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر کیا ان کو پتہ ہے کہ ہمارے پیارے نبی ؐ کے صحابی حضرت عمرؓ کے دور حکومت میں جب ایک غریب خاتون بچوں کو خالی ہنڈیا چڑھا کر بہلا رہی تھی تو حضرت عمرؓ بھیس بدل کر یہ معلوم کرنے گئے تو خود اس کا سامان اٹھا کر لے گئے۔اور کہا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے بکری کا ایک بچہ بھی بھوک سے مرگیا تو عمر سے پوچھا جائے گا۔کیا ہمارے حکمران اس کا تصور بھی کرسکتے ہیں کہ وہ بغیر پروٹوکول اور سیکورٹی کے بغیر باہر نکل کررعایا کا حال دریافت کرسکیں۔

جس طرح ہیپی پرنس اور ابابیل کی کہانی پڑھی تھی کہ ایک شہزادے کا مجسمہ شہر میں نصب تھا اس کی آنکھوں میں لعل اور روبی جڑے تھے،وہ خوش باش تھا مگر جب اس نے غور سے دیکھا تو شہر میں ایک غریب رائٹر سردی کی وجہ سے لکھ نہیں پا رہا تھا اور ایک غریب بچی بھی کسی مصیبت میں تھی کہیں سے ایک ننھا ابابیل آیا اوراسکے پاس رات بسر کرنے لگا تو شہزادے نے اس سے کہا کہ میرے ہیرے و جواہرات شہر کے ضرورت مند افراد میں بانٹ دو چنانچہ ابابیل نے ایسا ہی کیا اور سردی بڑھنے پر بالآخر ابابیل مرگیا۔آج ملک میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتے کئی ایسے ہیں جو گرم کپڑے تک نہیں خرید سکتے ہیں جو بغیر جوتوں کے ننگے پاؤں چل رہے ہوتے ہیں۔کیا خوش باش شہزادے اور شہزادیوں میں کوئی ہے جو اپنے محل کی منڈیر سے جھانک کر صرف اک نظر شہر میں جھانک لے اور اس کی نظر ننگے پاؤں پر پڑجائے۔کاش کہ ایسا ہو!

٭٭٭