عروج آزاد
جہاد کے لغوی معنی کوشش کے ہیں وہ کوشش جو دین کی حفاظت و فروغ اور امت مسلمہ کے دفاع کے لیے کی جاے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ:اور لڑتے رہو ان سے یہاں تک کہ نہ رہے فساد اور ہو جاے دین سب اللہ کا۔ (سورۃ الانفال:39)
آج تک دنیا میں جتنی بھی آزاد قومیں ہیں ان سب میں سے ایک بھی ایسی قوم نہیں جو بغیر جنگ و جدوجہد کے آزاد ہو ئی ہوگی۔دین اسلام میں جہاد کی تاریخ بھری پڑی ہے۔وہ جہاد چاہے مشرکین کے خلاف ہو یا کفار کے خلاف۔اسلامی تاریخ میں نظر دوڑائیں تو غزوہِ بدر میں مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت 313نے قریش کے تقریباً ایک ہزار کے لشکر کا مقابلہ ڈٹ کر کیا اور اس وقت مسلمانوں کے پاس کوئی سازوسامان بھی نہیں تھااور لشکر بھوکا پیاسا تھا،سواریاں بھی تعداد میں کم تھی،جنگ کے لیے تلواریں اور نیزے بھی کم تھے۔مگر ان کے پاس ایمان کی مضبوط طاقت تھی، اللہ پر پختہ یقین تھا اسکی مددکایقین،جس کے سہارے وہ بڑے بڑے لشکروں کا مقابلہ کرتے تھے۔انھوں نے انتہائی مال و غنیمت رکھنے والے قریش کے سرداروں کا مقابلہ کیا اور ان کو شکست دی۔مسلمانوں نے جانیں قربان کی،اپنے پیاروں کی لاشیں سامنے گرتے دیکھی،اور ذرا سوچیں کہ بعض مقامات پر تو اپنے عزیزوں کے خلاف ہی جنگ ہو رہی تھی لیکن نہ تو ان کے دل کانپے اور نہ رشتے داری سامنے آئی۔بس انھیں نظر آ رہا تھا تو دین اسلام،جس کی خاطر وہ لڑ رہے تھے۔وہ دین اسلام جس نے انھیں دنیا و آخرت کی روشنی عطا کی،وہ دین جس نے انھیں انتہائی پستی سے نکال کر صف اول میں لا کھڑا کیا۔وہ اسلام جس نے ان کو جنت کی بشارت دی اور وہ دین جس نے انھیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں جگر کا ٹکڑا نبی دیا۔جس کے ایک اشارے پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی جانیں قربان کر دیتے تھے۔اسی طرح غزوہ خندق،غزوہ حنین اور غزوہ خیبر بھی ہیں یہ سب ہماری تاریخ ہے جس کو ہم نے صرف کتابوں میں سجا دیا ہے۔جس کو پڑھ کر ہم خوش ہوتے ہیں اور قصے کہانیاں سناتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ آج ہمارے پاس دنیا کی بہترین فوج،ذہین حکمران،قابل سائنسدان،عوام کی کثیر تعداد اور خوبرو جوان موجود ہیں اور بہترین سازوسامان مثلاً دنیا کے بہترین اسلحہ جات،بارود اور میزائل وغیرہ المختصر فضائی،بری اور بحری ہر طرح کے جنگی سامان سے لیس ہیں۔لیکن ہم جنگ نہیں کرسکتے وہ اس لیے کہ ہمارے ایمان کمزور ہیں۔

کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اسے کہ مسلمان کی موت مر
ہمیں جانیں عزیز ہیں،ہمیں ڈر ہے ہم شہید ہو جایں گے،بچے یتیم ہو جائیں گے،،گھر کیسے چلیں گے وغیرہ یہ تمام ڈر ہمارے ایمان پر غالب آ جاتے ہیں۔افسوس کے ہم صرف خونی رشتوں کے بارے میں حساس ہیں،ہمیں وہ مسلمان بہن بھائی نہیں نظر آتے جو آئے روز شہید کیے جا رہے ہیں اور ہماری آنکھوں کے سامنے بہنوں بیٹیوں کی عزتیں پامال کی جا رہیں ہیں۔کیا ہم بے حس ہو چکے ہیں؟ کیا ہمارے ضمیر مر چکے ہیں؟ ایک سترہ سال کا نوجوان محمد بن قاسم دمشق سے سندھ ایک مظلوم بہن کے خط پر مدد کے لیے چلا آتا ہے یہ بھی ہماری تاریخ ہے۔آج ہزاروں بہنیں روزانہ پکارتی ہیں کہ ہے کوئی مرد مجاہد جو ہمیں ان درندوں سے بچاے لیکن دل افسردہ ہیں کہ جواب خاموشی ہے۔
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
حال ہی میں ہماری بہن مسکان کے ساتھ جو واقع پیش آیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔بہادری دیکھیے ہماری بہن کی جو ہزاروں بدکردار نوجوانوں کے درمیان اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتی ہے اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے کہ سن لو دنیا والو! آپ لوگوں کے پاس ہزاروں طاقتیں ہوں گی مگر ہمارے پاس واحد ذات اللہ رب العزت کی ہے جو دنیا کی تمام قوتوں پر غالب ہے اور ہمیشہ رہے گی اور وہی ہے جو ہماری مدد کرے گا انشاللہ
یہ سب تفصیل لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ کشمیر کو آزادی نصیب ہو گی ضرور انشاللہ پر وہ جنگ وجہاد کی صورت میں ہوگی کیونکہ لاکھوں شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔اس لیے ہمیں درست معنوں میں جہاد کو سمجھنا ہے اپنی تاریخ پر نظر ثانی کرنی ہے اور اپنے ایمان کو پختہ کرنا ہے پھر دیکھیے گا کہ ہم کس طرح بھارت کے گھمنڈ و غرور کو پاش پاش کرتے ہیں۔صرف ہم مسلمان اپنی اصلیت کو بھول چکے ہیں ہمیں خواب غفلت سے جھاگنا ہوگا تاکہ ہم اپنی کھوئی ہوئی عزت بحال کر سکیں۔جلدیا بدیر وہ سورج ضرور طلوع ہو گا جب کشمیر کو آزادی ملے گی انشاللہ
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں جہاد کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے اور مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ باقی تمام مظلوم قوموں کو بھی آزادی نصیب ہو۔ آمین یارب العالمین
٭٭٭