دی کشمیر فائلس فلم ریلیز کرکے ملک کو نفرت کی آگ میں جھونکنے کی کوشش

(مانیٹرنگ ڈیسک)پرتاپ گڑھ: جرمنی میں نازیوں نے جس طرح اقتدار حاصل کرنے کے لئے یہودیوں کو تباہ کیا تھا،اسی طرح نفرت کے سہارے بی جے پی پی اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہتی ہے۔آرایس ایس ایک منظم منصوبہ کے تحت اب ملک کو نفرت کی آگ میں جھونکنے کے لئے دی کشمیر فلم کو ریلیز کراکر اکثریت کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر آئندہ 2024 کے پارلیمانی انتخاب میں مسلمانوں کو علیحدہ کرکے اپوزیشن کو بے مقصد بنانے میں کوشاں ہے۔پیس پارٹی کے قومی صدر ڈاکٹر ایوب سرجن نے میڈیا کو جاری بیان میں مذکورہ تاثرات کا اظہار کیا۔

کیلوں کو گلنے اور سڑنے سے کیسے بچایا جائے؟

(مانیٹرنگ ڈیسک)کیلا ایک ایسا پھل ہے جسے ایک سے زیادہ دن تک گھر میں نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ یہ فوراََ گلنا اور سڑنا شروع ہوجاتے ہیں، اسی ڈر کی وجہ سے، جب گھر میں کیلے آتے ہیں تو اس بات پر غور کیا جاتا ہے کہ انہیں جلد از جلد کھالیا جائے تاکہ یہ خراب نہ ہوں۔یہاں ماہرین، ہمیں کیلوں کو زیادہ دن تک تازہ رکھنے کی چند تجاویز بتا رہے ہیں۔

سبز کیلے خریدیں:

اگر ہم سپر مارکیٹ میں ہیں، سبز اور پیلے کیلے کے درمیان انتخاب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تو ہم اکثر پیلے کیلوں کے آپشن پر جائیں گے۔ وہ صرف ذائقہ دار نظر آتے ہیں! پھر بھی، سبز کیلوں کا انتخاب کرنا بہتر ہے۔ اس طرح، وہ گھر میں زیادہ دن تک رکھنے پر خراب نہیں ہوں گے اور تازہ ہی رہیں گے، اسی دوران یہ کیلے پک بھی جائیں گے۔

تنے کو پلاسٹک کے ورق میں لپیٹ دیں:

اگر آپ صرف کیلے کے تنے کو کسی پلاسٹک کے ورق میں لپیٹ دیں گے تو اس سے کیلے کی تازگی برقرار رہے گی اور وہ جلدی خراب نہیں ہوں گے۔

پکے ہوئے کیلے کو فریج میں رکھیں:

فریج میں کیلے؟ آپ نے شاید ایسا پہلے نہیں دیکھا ہوگا لیکن یہ سچ ہے پکے ہوئے پیلے کیلوں کو فریج میں رکھنے سے پھل کی عمر بڑھ جاتی ہے۔ تاہم، سبز کیلے کے ساتھ ایسا کرنا اچھا خیال نہیں ہے۔

کیلے کا ڈبہ خریدیں:

اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ اس صورتحال سے دوچار ہیں، آپ کام کرنے کے لیے اپنے ساتھ کیلا لے کر گئے ہیں لیکن جب آپ اپنے کام کی جگہ پر پہنچیں تو تب تک کیلے کی تازگی ختم ہوچکی ہوگی، یہ وہ جگہ ہے جہاں کیلے کا ڈبہ کام آتا ہے، لہٰذا آپ ڈبے میں کیلے رکھیں تاکہ بھوک کے وقت تازہ کیلوں سے لطف اندوز ہوسکیں۔

زندگی میں کینسر سے بچنا چاہتے ہیں تو اس غذائی عادت کو فوری اپنالیں

(مانیٹرنگ ڈیسک)غذا میں گوشت کا کم استعمال کینسر کے مجموعی خطرے میں کمی لاتا ہے۔ یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 4 لاکھ 72 ہزار سے زیادہ افراد کے ڈیٹا میں غذائی عادات اور کینسر کے خطرے کے درمیان کی جانچ پڑتال کی گئی۔یہ ڈیٹا 2006 سے 2010 کے درمیان اکٹھا کیا گیا تھا اور لوگوں کی عمریں 40 سے 70 سال کے درمیان تھی۔

ان افراد سے پوچھا گیا کہ وہ ہر ہفتے کتنی بار گوشت اور مچھلی کھاتے ہیں اور اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کینسر کے کیسز کی شرح کا تخمینہ لگایا گیا۔دیگر تمام عناصر جیسے ذیابیطس، سماجی، معاشی اور طرز زندگی کو بھی مدنظر رکھا گیا۔2 لاکھ 47 ہزار 571 (52 فیصد) افراد ہفتے میں 5 بار سے زیادہ، 2 لاکھ 5 ہزار 382 (44 فیصد) افراد ہفتے میں 5 بار یا اس سے کم جبکہ 22 فیصد صرف مچھلی کھانے کے عادی تھے جبکہ باقی 2 فیصد سبزیوں تک محدود تھے۔تحقیق کے دورانیے کے دوران 54 ہزار 961 افراد میں کینسر کی تشخیص ہوئی۔محققین نے دریافت کیا کہ ہفتے میں 5 بار یا اس سے کم گوشت کھانے والے افراد میں کینسر کا مجمجوعی خطرہ 2 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔اسی طرح گوشت کی جگہ صرف مچھلی کو توجیح دینے والوں میں یہ خطرہ 10 فیصد اور سبزیوں کو پسند کرنے والوں میں 14 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔محققین نے بتایا کہ ہفتے میں 5 بار یا اس سے کم گوشت کھانے والوں میں آنتوں کے کینسر کا خطرہ 9 فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔اسی طرح یہ بھی دریافت ہوا کہ صرف مچھلی کھانے والے مردوں میں مثانے کے کینسر کا خطرہ 20 فیصد جبکہ سبزی پسند کرنے والوں میں 31 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔درمیانی عمر کی خواتین اگر گوشت کی جگہ سبزیوں کو ترجیح دیں تو وہ بریسٹ کینسر کا خطرہ 18 فیصد تک کم کرسکتی ہیں، کیونکہ گوشت کھانے والی خواتین کے مقابلے میں ان کا جسمانی وزن کم ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔محققین نے کہا کہ یہ مشاہداتی تحقیق تھی تو غذا اور کینرس کے درمیان تعلق کو حتمی نہیں کہا جاسکتا اور اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ مزید تحقیق میں دیکھنا ہوگا کہ بہت کم یا گوشت کے بغیر غذا سے لوگوں میں کینسر کا خطرہ کس حد تک کم ہوتا ہے۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل بی ایم سی میڈیسین میں شائع ہوئے

بائیس برس تک قدیم گاڑی میں دنیا گھومنے والا خاندان گھر پہنچ گیا

(مانیٹرنگ ڈیسک)بیونس آئرس: ارجنٹائن کا ایک جوڑا 1928 کی ماڈل کی کار میں دنیا کے 102 ممالک کا چکر لگاکر 22 سال بعد واپس اپنے گھر پہنچ گیا تاہم اس دوران جوڑے کے 4 بچے ہوئے جو گھر پہنچتے پہنچتے جوان ہوگئے۔شوق کا کوئی مول نہیں اور اپنی خواہش کی تکمیل میں انسان وہ کچھ کر جاتا ہے جس کا تصور بھی ناممکن ہوتا ہے۔ یہی ولولہ اور جنون حضرت انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ارجنٹائن کے ایک خاندان نے 25 جنوری 2000 میں ایڈوانچر کا آغاز کیا تھا جس کا ہدف دنیا بھر کا چکر لگانا تھا۔ سفر کا آغاز شادی شدہ جوڑے نے کیا تھا لیکن گھر واپسی 4 نوجوان بچوں کے ساتھ ہوئی۔

پانچ براعظموں کے 102 ممالک کا چکر لگانے والے خاندان نے کُل 3 لاکھ 62 ہزار کلومیٹر سفر طے کیا اور واپس اس مقام پر پہنچے جہاں سے 22 سال قبل اس سفر کا آغاز کیا تھا۔ترپن سالہ ہیرمن اور 51 سالہ سینڈریلیا سفر کے آغاز کے وقت نوجوان تھے اور اس سفر کے دوران ان کے 4 بچے بھی ہوئے جن کی عمریں گھر پہنچتے پہنچتے 19، 16، 14 اور 12 سال ہوچکی ہے۔جوڑے کی پہلی اولاد امریکا، دوسری ارجنٹائن واپسی پر، تیسری کینیڈا اور چوتھی اولاد آسٹریلیا میں ہوئی تھی۔

جاسوسی کے لیے روبوٹک ٹڈا تیار

(مانیٹرنگ ڈیسک)سائسنی ماہرین نے جاسوسی کیلیے ایک ایسا شاندار روبوٹ ٹڈا تیار کیا ہے جس پر کسی کو شک بھی نہیں ہوگا اور اسے جاسوسی کے لیے بھی استعمال کیا جاسکے گا۔تفصیلات کے مطابق نجی یونیورسٹی کے انجینئرز کیڑے نما روبوٹس بنانے میں مہارت رکھتے ہیں، جس کی مدد سے ہر ناممکن جگہ تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے، وہ روبوٹ مشکل مقامات پر پہنچنے والی جگہوں پر پہنچنے اور نگرانی کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

طالب علموں نے ماہر اساتذہ کی نگرانی میں مشینی جاسوس ٹڈا تیار کیا ہے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ مستقبل میں بہت سارے اہم کاموں کے لیے استعمال کیا جاسکے گا، یہ ٹڈا ہر ممالک کے لیے ایک کارآمد چیز ہوگا۔انہوں نے کہا کہ جاسوس ٹڈا پولیمر کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے جو بجلی سے چند گھنٹوں میں چارج کیا جاسکتا ہے جبکہ اسکی جوڑائی 10 ملی میٹر ہے، آہستہ آہستہ اس میں مزید بہتری کی جاسکتی

٭٭٭