ممبئ فلم انڈسٹری بھی کشمیری مسلمانوں کے خلاف میدان میں

غلام اللہ کیانی

مودی اور اس کے چیلوں نے منافرت اور تعصب کو پاکستان، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا۔ اس وجہ سے وہ مسلسل اقتدار میں ہیں۔ نئی دہلی میں مرکزی حکومت سمیت کئی صوبوں کو وہ اس منافرت کی لپیٹ میں لا چکے ہیں۔ سب سے بڑے صوبے اتر پردیش پر بھی انہوں نے قبضہ کر لیا۔ اب 2024کے عام انتخابات کی تیاریاں ہیں۔ ان کے لئے مقبوضہ کشمیر سے ہندو پنڈتوں کے انخلاء کو پروپیگنڈاکے طور پر بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ بالی وڈ نے ایک فرضی داستان کو حقیقت کے روپ میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔ جو کشمیر فائلز کے نام سے پردہ پرلائی گئی ہے۔ بی جے پی کے زیر اقتدار صوبوں میں اس فلم پر ٹیکس معاف کیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کو فلم دیکھنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ لوگ سینما گھروں سے باہر نکل کر پاکستان، اسلام اور کشمیریوں کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہیں۔ مظاہرے ہوتے ہیں۔ یہ سب مودی کی فاشسٹ حکومت کی مکمل آشیرواد سے ہو رہا ہے۔

1990کے اوائل میں جب مقبوضہ کشمیر میں عسکریت تیز ہوئی تو لوگ اس کے حق میں لاکھوں کی تعداد میں گھروں سے باہر آئے اور آزادی کے لئے نعرہ بازی کرنے لگے۔ لوگ پر امن تھے۔ رات کو لوگ مساجد سے آزادی کے ترانے اور گھروں میں خواتین ٹین ڈبے بجا کر تحریک کے ساتھ یک جہتی اور بھارتی فورسز کے خلاف نفرت کا اظہار کر رہی تھیں۔ بھارتی قابض فورسز نے کئی مقامات پر پر امن مظاہرین پر براہ راست اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے ایک ایک دن میں 60، 60نہتے کشمیریوں کو قتل کیا۔ بھارت نے فاروق عبداللہ کی حکومت ختم کی اور گورنر راج نافذ کیا۔ گورنر جگ موہن نے کشمیری پنڈتوں کو ورغلایا، انہیں راتوں رات وادی کشمیر سے نکال کر جموں پہنچایا گیا۔ انہیں کہا گیا کہ وہ یہاں سے فی الحال نکل جائیں، کشمیریوں مسلمانوں کا صفایا اور ان کے گھروں کو بلڈوز کیا جائے گا۔ پھر پنڈتوں کو واپس لا کر یہاں کا مالک بنا دیں گے۔ یہ وہ وعدے تھے جن کی لالچ میں آ کر پنڈت خاندان وادی سے چلے گئے۔ بعض پنڈتوں نے جگ موہن کے خلاف احتجاج کیا۔

22ستمبر1990کو سرینگر سے شائع ہونے والے ایک بڑے اخبار روزنامہ الصفا میں تقریباً دو درجن کشمیری پنڈت رہنماؤں کا خط شائع ہوا۔ جو انھوں نے اخبار کے ایڈیٹر ان چیف محمد شعبان وکیل کے نام لکھا تھا۔ میں بھی کئی سال تک اس اخبار میں ایڈیٹر رہا۔ اس خط میں پنڈتوں نے لکھا کہ کشمیریوں پنڈتوں کو گورنر جگ موہن نے دھوکے سے نقل مکانی پر مجبور کیا ہے تا کہ وہ کشمیری مسلمانوں اور تحریک آزادی کے خلاف سازش کر سکیں۔ بھارت فلمیں تیار کر کے مسلمانوں کو پنڈتوں کے قاتل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ وہ ایک لاکھ کشمیری مسلمانوں کی سرکاری دہشتگردی میں قتل عام کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔دنیا میں بھارتی سفارتخانوں میں بھی کشمیری پنڈت شامل ہیں جو بھارت کے حق میں اور تحریک آزادی کے خلاف دنیا میں گمراہ کن سفارتکاری کر رہے ہیں۔ بی جے پی کی حکومت کشمیر کے ہر ضلع میں پنڈت بستیاں قائم کرنے کا عہدکرتی رہی ہے اور گذشتہ دو سال میں پانچ ہزار سے زائد خاندان کشمیر لوٹ آئے ہیں۔کشمیری پنڈت کشمیر میں اپنی الگ بستیاں قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تا کہ وہ بھی اسرائیل طرز کی بستیاں بسائیں اور مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکال دیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس وقت کے گورنر جگ موہن نے تحریک آزادی کو اسلامی رنگ دیتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کو پاکستان نے تقریباً نگل لیا ہے اور مجھے اس کو پاکستان کے منہ سے واپس نکالنا ہے۔پھر پنڈتوں کو وادی سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔فلم میں مسلم آبادی کو پنڈتوں کی ہجرت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔سکھ جگ موہن کے بہکاوے میں نہ آئے۔ 50 ہزار سے زائد سکھ کشمیر میں سکونت پذیر ہیں۔پنڈت خاتون گر جا تکو کو فلم میں اجتماعی ریپ کے بعد گھناؤنے طریقے سے قتل کرتے دکھایا گیا۔گرجا تکو کو قتل کیا گیا مگر ریپ کی خبر سراسر جھوٹی ہے اور اس کی تشہیر کا مقصد مسلمانوں کی شبیہ کو مسخ کرنا ہے۔فلم میں سنہ 90 میں ہجرت کرنے والے پنڈتوں کی تعداد پانچ لاکھ بتائی گئی ہے جو سرکاری اعداد و شمار کے برعکس ہے۔بھارتی فوج اور دہلی کی خفیہ ایجنسیوں نے سیکڑوں کشمیریوں جن میں سکھ اور پنڈت بھی شامل تھے، کو قتل کیا اور اس کا الزام پاکستان اور کشمیری مجاہدین پر ڈال دیا۔ امریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ نئی ہلی کے موقع پرچھٹی سنگھ پورہ میں بھارتی فوج کے ہاتھوں تین درجن نہتے اور معصوم سکھوؤں کا قتل عام اس کی ایک مثال ہے۔ 90 ہزار سے زائد مسلمان قتل کئے گئے جن کا فلم میں کوئی ذکر نہیں ہے۔آج جب پنڈت اور مسلمان ایک دوسرے کے قریب آرہے تھے مگر فلم کی ریلیز سے نہ صرف کشمیری مسلمانوں اور پنڈتوں میں خلیج بڑھ گئی بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اپوزیشن میں بھی ایک دوسرے کے خلاف لفظی جنگ شروع ہو چکی۔

جن سنگھی وزیراعظم نریندر مودی اور ہندو انتہا پسندوں سمیت پنڈتوں کو اپنے نسل پرست اور جنونی مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے ہی ڈرانہ بازی کی مدد سے منافرت کو عام کر رہے ہیں۔ کانگریس اور بائیں بازو کی دوسری جماعتیں اسے محض ہندوتوا کی تشہیری مہم قرار دیتی ہیں جس کا مقصد ہندوستان میں مذہبی جنونیت پیدا کرکے اقلیتوں کے خلاف ماحول تیار کرناہے۔منافرت کے اسی ماحول کی وجہ سے بی جے پی غلبہ پانے لگی ہے۔ پنڈت فلم ساز سنجے کاک کا کہنا ہے کہ کشمیر ی پنڈت ہی کیوں، کشمیری مسلمان کیوں نہیں، جن پر فلم بنانی چاہیے تھی؟ گجرات اور دہلی میں بھی فسادات اور قتل و غارت گری ہوئی ہے اس پر فلمیں کیوں نہیں بنائی گئی، مگر مسلمانوں کے قتل عام پر سب خاموش ہیں۔فلم ساز وویک اگنی ہوتری پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ فلم کے لئے امریکہ اور یورپی ملکوں میں رہائش پذیر بیشتر کشمیری پنڈتوں سے اس فلم کے لئے رقوم جمع کیں گئیں۔اس فلم سے پہلے تاشقند فائلزکے نام سے ایک اور متنازع فلم بنائی گئی جس کے خلاف سابق وزیراعظم لال بہادر شاستری کے پوتے نے عدالت میں کیس دائر کیا ہوا ہے۔ فلم کو کامیاب اور باکس آفس بنانے میں مختلف صوبوں میں حکمراں جماعت بی جے پی نے ملازمین اور اپنے کارکنوں کو فلم دیکھنے کے لئے کئی مراعات کا اعلان بھی کیا ہے۔سینیما گھروں میں ہجوم کو کشمیری مسلمانوں کے خلاف غیر شائستہ زبان اور نعرے بازی کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

روزگار، تعلیم، علاج اور تجارت کے لئے بھارت میں موجودکشمیری پہلے سے ہی زیر عتاب تھے۔ انہیں ہوٹلوں میں رہنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔وہ وادی کے اندر قابض فو ج کے محاصرے میں روز روز کی سختیاں اور بندشوں سے گزر رہے ہیں۔ اب فلم کی ریلیز کے بعد بھارت جانے سے پہلے ضرور سوچیں گے۔مودی حکومت نے کشمیریوں کو علاقوں اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے پر خاص توجہ دی ہے۔سیاسی اتھل پتھل کا تصور دیا ہے۔نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ فلم کوسچائی کے ساتھ کھلواڑ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس فلم میں طرح طرح کے جھوٹ دکھائے گئے ہیں۔ جس وقت پنڈتوں نے کشمیر سے ہجرت کی اس وقت یہاں نیشنل کانفرنس کی حکومت نہیں تھی بلکہ گورنر راج تھا اور دہلی میں بی جے پی کی حمایت والی وی پی سنگھ سرکار تھی۔ یہ سمجھ نہیں آتا کہ یہ ڈاکیومینٹری ہے یا کمر شل فلم ہے جو جھوٹ سے بھری ہوئی ہے۔فلم میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو دکھایا گیا ہے لیکن وی پی سنگھ کو نہیں دکھایا گیا۔کشمیر سے1990میں ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے1931، 1947کے بعدسے لاکھوں لوگوں کا قتل عام ہوا اور لاکھوں کو گھر چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ جبری انخلاء ڈوگرہ اور بھارتی فوج کے مظالم کی وجہ سے ہوا، اس لئے اس پر کوئی فلم نہ بنی۔ کشمیری ہمیشہ ہندو،مسلم،سکھ اتحاد کے نعرے پر قائم رہے مگر ہندو فرقہ پرستوں نے کشمیر میں نفرت کی آگ لگا دی۔ بھارت میں کشمیری پنڈتوں کو بہت مراعات دی گئیں۔ سرکاری ملازمین کو گھر بیٹھے تنخواہیں بھی اور ماہانہ نقدی امداد بھی دی جاتی ہے۔اس لئے فرار پنڈتوں نے وادی میں اپنے مکان، زمین اور جائیدادیں کشمیری مسلمانوں کو فروخت کر دیں۔ اب موقع دیکھ کر وہ فوج کی مدد سے اس پر دوبارہ جبری قبضہ کر رہے ہیں۔ الٹا مسلمانوں پر لغو الزامات لگائے جاتے ہیں۔

یشونت سنہا بی جے پی ایک سابق سینئر رہنمااوراٹل بہاری واجپائی کے دور اقتدار میں خزانہ اور امور خارجہ کے وزیر تھے،جوبی جے پی چھوڑ کر ترنمول کانگریس کے رہنما بنے،نے تنازعات میں گھری بالی وڈ فلم پر طنزیہ ٹویٹ میں کہا کہ اس فلم کو پورے بھارت میں ٹیکس فری قرار دینا کافی نہیں ہے بلکہ پارلیمنٹ کو ایک ایسا قانون پاس کرنا چاہئے، جس کے تحت اس فلم کو دیکھنا سبھی بھارتیوں کیلئے لازمی قرار ہو، جو لوگ اس فلم کو دیکھنے میں ناکام رہیں، انہیں دو سال کی قید کی سزا دینی چاہئے اور جو اس فلم کی نکتہ چینی کریں، انہیں عمر قید کی سزا ملنی چاہئے۔

سرینگر کے مقبول اخبار روزنامہ الصفا میں جب سرینگر سے فرار ہو کر جموں پہنچنے والے درجنوں سرکردہ پنڈت شخصیات کا خط22ستمبر1990کو شائع ہوا کہ پنڈتوں کو گورنر جگ موہن نے سازش سے وادی سے نکالا تا کہ وہ کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو بندوق سے کچل دیں تو بھارتی حکومت کے عزائم بے نقاب ہوگئے۔اس کے چند ماہ بعد ہی انتقام کے طور پر اخبار کے ایڈیٹر محمد شعبان وکیل کو ٹارگٹ کلنگ کے تحت بھارتی فورسز نے23مارچ1991کو یوم پاکستان کے موقع پر گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ پنڈتوں کے انخلاء کی حقیقت پر مبنی اس اہم خط کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔مگر آج فلم کے ڈائرکٹر، اس میں کام کرنے والے اداکار نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقاتیں کر کے جھوٹ اور نفرت کی تشہیری مہم چلا رہے ہیں۔ پنڈتوں کی نقل مکانی کے موضوع پر بنائی گئی ایک فرضی یکطرفہ کہانی ہے اور کشمیری مسلمانوں کی شبیہہ مسخ کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔کئی مہاجر پنڈتوں نے بھی اس فلم پر اعتراضات کئے کہ مقامی مسلمانوں کا پنڈتوں کے انخلاء میں کوئی رول نہیں تھا بلکہ مسلمانوں پر ہوئے مظالم کی داستان اس فلم میں بیان نہیں کی گئی۔کہا جاتا ہے کہ فلم کے ڈائریکٹرنے 2019 میں امریکہ میں مقیم کشمیری پنڈتوں کے ساتھ ایک میٹنگ کی جس میں ایک سفارت کار نے کشمیر میں اسرائیل کے طرز پر مسلمانوں کے ساتھ برتاؤکرنے کی رائے پیش کی تھی۔یہی اصل بات ہے۔بھارتی پروپیگنڈا کے مقاصد صاف ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کو اسرائیل طرز پر ہندو آبادی کاری سے مغلوب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلے سرحد پار دہشتگردی کا نعرہ لگایا گیا۔ جو نائن الیون کے تناظر میں دنیا کو بالخصوص مغرب کو گمراہ کرنے اور کشمیر پر بھارتی موقف کی حمایت حاصل کرانے کا ہتھیار بنا۔اب ایک ڈرامہ کو سچ ثابت کرنے کے لئے کشمیری مسلمانوں کے خلاف پھیلائی گئی نفرت اور تعصب بے نقاب ہو ئی ہے۔ کشمیریوں کے خلاف ریاستی سرکاری دہشتگردی اور نسل پرستی تیز کرنے کے لئے ہی نئے حربے آزمائے جا رہے ہیں۔ جن کا مقابلہ کرنا، اپنی صف بندی
ترتیب دینا غلام کشمیریوں کے لئے چیلنج ہے مگر کشمیر سے باہر آزاد کشمیر اور دنیا میں موجود تارکین وطن کشمیریوں پر قرض ہے۔

غلام اللہ کیانی مقبوضہ کشمیر کے معروف صحافی اور کالم نگار ہیں