
محمد احسان مہر
سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکی ورلڈ آرڈر بھی تاریخ کی گہرائیوں میں دفن ہونے جا رہا ہے، ایک بار پھر یہ ثابت ہوا کہ وقت کا جو بھی فرعون افغانوں کو دبانے آیا وہ خود تاریخ کے اوراق میں دفن ہو گیا، امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو افواج کی افغانستان سے ذلت آمیز پسپائی اور اہم اتحادی یوکرین کے معاملے میں دفاعی پوزیشن اختیار کرنا اس کے تاریک مستقبل کو عیاں کر رہی ہے،یہاں یہ دلیل بھی دفن ہو گئی کہ دشمن کے مقابلے کے لیے پہلے دفاعی اور معاشی طور پر مضبوط ہونا ضروری ہے، اورحق وسچ کھل کر سامنے آگیا کہ دشمن چاہے کتنا بڑا کیوں نہ ہو،ایمان کی قوت،مقصد سے لگن اور ثابت قدمی سے اسے بھی گھٹنوں کے بل گرایا جا سکتا ہے،روس امریکہ سرد جنگ کے تناظر میں بننے ولا نیٹو فوجی اتحاد امریکی ورلڈآرڈر کو دنیا میں رائج کرنے اور امریکی مفادات کے تحفظ کے طور پر سامنے آچکا ہے،جس طرح چند دہائیوں میں امریکہ اور نیٹو اتحادیوں نے علاقائی سیکیو رٹی اور الزامات کی بنیاد پر آزاد ملکوں میں فوجی کاروائیاں کی ہیں اس سے بھی ان کے عزائم کھل کر سامنے آجاتے ہیں،امریکہ نیٹو اتحاد کی آڑ میں جن مقاصد کو حاصل کرنے نکلا تھا اس میں کامیابیوں کے باوجود کچھ چیلنج آج بھی اس کے سامنے بدستور کھڑے ہیں،مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے گھناؤ نے کردار کی وجہ سے عوامی سطح پر ایک لاوا پک رہا ہے جو کسی وقت بھی امریکی حمایت یافتہ عرب حکمرانوں کے لئے درد سر بن سکتا ہے،جنوبی ایشیاء میں امریکہ بھارتی غبارے میں جس طرح ہوا بھر رہا ہے وہ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے،اور امریکہ پاک بھارت کشیدگی پیدا کر کے نیوء کلیر اثاثوں کی حفاظت کے نام پر علاقے میں قدم جمانے کی کوشش کر سکتا ہے،جو کسی صورت بھی چین کے لئے قابل قبول نہیں ہو گا،امریکہ اسلامی دنیا کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور انہیں بد گمانیوں کی وجہ سے لیبیاء،انڈونیشیاء،عراق،شام،یمن اور افغانستان جیسے اسلامی ممالک کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر نشانہ بنایا،یوکرین پر حملہ بھی امریکی اور نیٹو کی کارستانیوں کی وجہ سے ہوا دراصل دنیا سرد جنگ کے زمانے سے نکل کر گریٹ گیم چینج کے دور میں داخل ہو رہی ہے،عالمی طاقتیں اپنے مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے نئی صف بندیوں میں مصروف ہیں، مخصوص ملکوں کی عالمی اجارہ داری روکنے کے لیے نئے بلاک اور اتحاد سامنے آرہے ہیں،بڑی طاقتیں ڈپلو میٹک اور ڈپلو میسی سے چھوٹے ممالک کے ساتھ مل کر آگے بڑھ رہی ہیں جہاں باہمی مفادات اور شراکت داری کو ترجیح دی جا رہی ہے،بدلتے ہوئے عالمی حالات اور گریٹ گیم چینج کے اس ماحول میں پاکستان کو بھی مثبت لیکن مشکل فیصلے کرنا ہوں گے،ہمیں دیکھنا ہو گا کہ امریکی بلاک میں رہتے ہوئے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا،کشمیر کے ایشوء پر بھارت سے تین بڑی جنگیں ہوئیں لیکن امریکہ نے ہر بار ہمیں دھوکہ دیا اور بھارت کا ساتھ دیا

چند دن پہلے امریکہ اور بھارت کا مشترکہ بیان آیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان اپنی سر زمین دہشت گردانہ حملوں کے لئے استعمال نہ ہونے دے،حیرانگی کی بات ہے امریکہ جیسا ملک اس بھارت کی زبان بول رہا ہے جو مقبوضہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ قرار دادوں کا مذاق اڑا رہا ہے اور عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے،ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کشمیر میں بھارتی غاصبانہ اور غیر آئینی اقدامات کی امریکہ نے کتنی مذمت کی ہے،پاکستان نے عالمی فورم پر بھی بھاتی دہشت گردانہ کاروائیوں کے ثبوت فراہم کئے ہیں،آج بھی مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر کے مظلوم ومجبور شہری بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں،لیکن امریکہ معاملے کی نزاکت کو سمجھنے کے باوجود بھارت کا ہمنوا بن کے کھڑا ہے، سات دہائیوں سے مسلۂ کشمیر کا حل نہ ہونا عالمی طاقتوں کے مفادات کا ٹکراؤ ایک اہم وجہ ہے لیکن آج کشمیر کی سیاسی اور عسکری قیادت کا ایک موقف پر کشمیر کی آزادی کی تحریک کو آگے بڑھانے کی ضرورت پہلے سے کہیں ذیادہ بڑھ گئی ہے،گریٹ گیم چینج کے بہاؤ میں رہ کر ہم اپنے وزن کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل میں حائل رکاوٹیں بھی ہٹا سکتے ہیں اس سلسلے میں بعض ارباب اختیار ابھی متفق نظر نہیں آتے لیکن سوچنا چاہیے کہ74سالہ امریکی رفاقت نے ہمیں جو زخم دیے ہیں ان کا علاج بھی توہم نے ہی کرنا ہے۔