مسئلہ کشمیر ہندوستانی سامراج کا پیدا کردہ معمہ ہے؟
اعجاز احمد نازکی
دنیائے انسانیت اصل حقیقت کو فراموش کرکے امن،استحکامت،خوشحالی اور ترقی کا دعویٰ کررہی ہے یہ کیسے ممکن ہے مسئلہ کشمیر بھارت کا پیدا کردہ معاملہ ہے جو ظلم و زیادتی، حق طلبی اور غضب پر مبنی ہے ریاست جموں وکشمیر کی ایک کروڈ تیس لاکھ عوام اقوام متحدہ سے وہ مطالبہ کررہی ہے جسے بھارتی سامراج نے طاقت کے بلبوتے پر دبا رکھا ہے۔۷۲ اکتوبر۷۴۹۱ھ کو ہندو سامراج نے ریاست میں فوج کشی کا یہ بہانہ بنایا کہ دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ قوم کشمیر کو اعتماد میں لیا جائے کہ وہ پاکستان یا بھارت سے اپنا ماتقبل وابستہ کرنا چاہتے ہیں۔برطانوی بالا دستی کے اختتام کے بعد برصغیر میں دو قومیں ہندوستان اور پاکستان کی اکثریت آپس میں متصام تھیں مملکت پاکستان کا فیصلہ کیا جا چکا تھا کہ ریاست جموں وکشمیر کے حالات جوں ہی سازگار ہونگے کہ یہاں کے عوام کو حق خودارادیت کا موقع دیا جائے گا۔
قیام پاکستان سے قبل ۱۳۹۱ء کو ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف ریاست جموں و کشمیر کے عوام نے علم جہاد کا نعرہ بلند کردیا تھا اور ۲۲ فرزندان نے آذان کی تکمیل پہ یکے بعد دیگرے اپنی جوانیاں پیش کرکے سنہری تاریخ رقم کردی تھی۔۶۲ جون ۱۳۹۱ء کو مسجد ہمدان ریاست جموں وکشمیر کے احاطہ میں تقریباً ۰۵ ہزار مسلمانوں کے اجتماع میں ایک پر اصرار غیر معروف شخص عبدالقدیر خان نمودار ہوئے آپ نے ڈوگرہ افسر شاہی کے خلاف بہ آواز بلند تقریر کر ڈالی جبکہ ریاست کے عوام ڈوگرہ راج ہری سنگھ کے زیر تسلط تھے اور سیاسی سرگرمیوں پرمکمل پابندی تھی۔ پہلی بار ۹۲ اپریل ۱۳۹۱ء کو عیدالضحیٰ پر پابندی کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور سراپا احتجاج ہوگئے۔عبدالقدیر خان کی یہ تقریر تاریخ کا اہم حصہ ثابت ہوگئی اور لوگ ریاست کے طول و عرض میں فلک شگاف نعرہ لگا کرسنٹرل جیل سرینگر کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ڈوگرہ حکمرانوں کو جب خطرہ لاحق نظر آیا انہوں نے نہتے کشمیری مسلمانوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کردئیے۔کٹھ پتلی وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کے سامنے ایک مجاہد شہید نے لاالہ اللہ کا نعرہ بلند کرکے اپنی جان جان آفری کے حوالہ کرتے ہوئے اس دور میں سیاسی افق پر ابھرتے لیڈر شیخ محمد عبداللہ کو گواہ ٹھہراتے ہوئے تاریخی الفاظ درج کروادئے کہ شیخ صاحب ہم نے اپنی جان کلمہ حق کی بلندی کے لئے نچھاور کردی اس خون کی حرمت اور آزاد وطن کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے کہ قوم کشمیر ڈوگرہ راج کے تسلط سے آزاد ہو کر استصواب رائے، حق آزادی اور قرار داد پاکستان کے مطالبے پر عمل پیرا ہوجائے۔
ریاست جموں وکشمیر کا رقبہ ۱۸۴۔۴۸ مربع میل پر مشتمل ہے جس کا ساڑھے سات سو مربع میل سرحدی علاقہ پاکستان سے ملتا ہے۔جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیاء کے بھیج واقع ہونے کے سبب فطری اعتبار سے یہ دل آویز خطہ اپنی قدرت آپ رکھتا ہے۔ ریاست جموں وکشمیر میں حریت فکر نے ایک المناک معاہدے کے بعد جنم لیا جب۴۱ اگست ۶۴۸۱ء کو انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کا معاہدہ راجہ گلاب سنگھ کے ساتھ طے پاگیا اور ۵۷ لاکھ نانک شاہی روپے کے عوض کوہستانی علاقہ راجہ گلاب سنگھ کو فروخت کردیا گیا جبکہ اس سے قبل ڈوگرہ جرنیل زور آور سنگھ لداخ اور گلگت بلتستان پر جبری قبضہ کرکے قدم جما چکا تھا ریاست جموں و کشمیر کی آبادی پسماندہ تھی بنیادی حقوق کا تصور ناپید تھا یوں بیگار رواج عام ہونے لگا اور مسلمانوں پر عبرت ناک مظالم ڈھائے گئے۔بھارتی سامراج کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو، مہاتما گاندھی اور اندرا گاندھی نام نہاد اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل در آمد کی جگہ چانکیائی حربے اپناتے رہے اور غیر قانونی قبضہ کو طول دیتے رہے۔بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے دنیائے ضمیر کو جھنجھوڑ کر مقدمہ کشمیر کی طرف دنیا کی توجہ مرکوز کی لیکن میر جعفر اور میر صادق شیخ عبدللہ جیسے کٹھ پتلیوں کے ساتھ بھانت بھانت کی بولیوں کی زد میں آکر ریاست جموں وکشمیر کی خود انحصاری پر سمجھوتہ دہراتے رہے۔حیدر آباد اور جوناگڈھ بھارتی سامراج کی سازش کا شکار ہوا جبکہ مسلمانوں کی اکثریت نے پاکستان سے الحاق کی حامی بھرلی تھی۔ بھارتی سامراج نے ہندوستان سے لیکر جنت ارضی کشمیر تک دس لاکھ نہتے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ یہ ہیں وہ حقائق اب ایک صدی ہونے کو ہے مسئلہ کشمیر حل طلب ہے ریاست جموں وکشمیر میں بھارت سامراج کی آٹھ لاکھ فوج تعینات ہے یہ سامراج ہندو کا مکروہ چہرہ ہے جو انسانیت کا دعویٰ دار ہے۔دنیا میں امن،استحکامت اور جمہوریت کا راگ الاپ رہا ہے جسے لگام دینے کی ضرورت ہے اور وہ وقت دور نہیں جب مسئلہ کشمیر حل ہوگا۔ان شا ء اللہ