ریاض مسرور
گذشتہ تین برس سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حکومت مخالف نظریات کے پرچار اور رائے دینے پر قدغن ہے۔ تاہم ابھی تک یہ پابندی سوشل میڈیا اور اخباروں میں ایسے سیاسی تجزیوں تک محدود تھی جنھیں حکومت ’وطن مخالف‘ اور انڈیا کے اقتدارِ اعلیٰ کے خلاف منافرت پھیلانے کے مترادف سمجھتی ہے۔
مگر اب بظاہر ایسی پابندیاں دانشوروں اور محققین پر بھی لگائی جا رہی ہیں۔گذشتہ اتوار کی شب جاری ایک بیان میں جموں کشمیر پولیس نے آگاہ کیا کہ سٹیٹ اِنویسٹگیٹنگ ایجنسی (یعنی ایس آئی اے) نے کشمیر یونیورسٹی کے نوجوان محقق اعلیٰ فاضلی کو ایک ’اشتعال انگیز‘ مضمون لکھنے کی پاداش میں گرفتار کر لیا ہے۔مگر یہ مضمون تقریباً 11 سال قبل چھ نومبر 2011 کو سرینگر سے شائع ہونے والے ڈیجیٹل میگزین ’دی کشمیر والا‘ میں شائع ہوا تھا۔ پولیس نے اس گرفتاری کی بابت اتوار کو سرینگر میں قائم میگزین کے دفتر پر چھاپے کے بعد کیا۔
واضح رہے اس میگزین کے مدیر اعلیٰ فہد شاہ کو رواں سال فروری میں ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دس روز بعد جب انھیں عدالت نے ضمانت دی تو انھیں مزید سخت قانون ’پبلک سیفٹی ایکٹ‘ کے تحت جیل بھیج دیا گیا۔فہد شاہ پر الزام تھا کہ انھوں نے ایک مسلح جھڑپ کے بعد ’پولیس کی کارروائی کو بے بنیاد طریقے سے مشکوک بنا کر عوام میں نفرت ابھارنے اور تشدد پر اکسانے‘ کی کوشش کی تھی۔ اسی میگزین کے ساتھ وابستہ ایک زیرِ تربیت فوٹوگرافر سجاد گُل بھی فی الوقت ایسے ہی الزامات کے تحت جیل میں ہیں۔10 سال کی تاخیر کے بعد اعلیٰ فاضلی کی تحریر کے خلاف کارروائی کرنے پر پولیس نے کہا ہے کہ اس مضمون میں بار بار ’آزادی‘ کا حوالہ اور ’دہشت گرد تنظیموں جیسا لہجہ‘ اختیار کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ محض پراپیگنڈا نہیں ہے بلکہ یہ ’پاکستان کی آئی ایس آئی اور اس کے پروردہ دہشت گرد نیٹ ورک کا نظریہ ہے۔‘

قابل ذکر بات ہے کہ یہ مضمون اعلیٰ فاضلی نے 2010 کی ہند مخالف احتجاجی تحریک کے پس منظر میں لکھا تھا۔ اس تحریک کا آغاز سرحدی قصبے کپوارہ کے ماچھِل گاؤں میں تین مزدوروں کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہونے والی ایک مبینہ جھڑپ میں ہلاکت کے ردعمل میں ہوا تھا۔اس طویل احتجاجی تحریک کے خلاف سکیورٹی اداروں کی کارروائیوں میں درجنوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
اعلیٰ فاضلی نے اسی پس منظر میں ایک مضمون ’غلامی کی زنجیریں‘ کے عنوان سے لکھا تھا جس کے کچھ اقتباسات پولیس نے بیان میں نقل کیے ہیں: ’اُن (انڈین حکومت) کی سبھی کوششیں ضائع ہوتی دکھائی دے رہی ہیں اور یہ ہماری پُرعزم مزاحمت، استقامت اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ہمارے لیے باعثِ اطمینان ہے اور اس اُمید کے ساتھ آزادی کی طرف یہ سفر جاری رکھنا ہو گا کہ اس کے بعد خوشی کا وقت آئے گا۔‘واضح رہے کہ اعلیٰ فاضلی کے والد ایک سرکاری افسر رہے ہیں اور وہ خود کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی میں پی ایچ ڈی کے سینیئر سکالر ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کے تحت انڈین حکومت فاضلی کو پانچ سال تک 30 ہزار روپے ماہانہ کی سکالرشپ دیتی رہی ہے۔اتوار کی شام اس سلسلے میں پولیس نے ’دی کشمیر والا‘ کے راج باغ میں قائم دفتر اور اعلیٰ فاضلی کے جنوبی سرینگر میں موجود گھر پر چھاپے مارے اور ’کئی شواہد، لیپ ٹاپ اور ڈیجیٹل آلات کے ساتھ ساتھ قابل اعتراض مواد بھی ضبط کر لیا۔‘
اعلیٰ فاضلی کشمیر یونیورسٹی کی طلبہ سیاست میں کافی سرگرم رہ چکے ہیں۔ سنہ 2016 میں الجزیرہ ٹی وی پر انڈیا مخالف تبصرہ کرنے پر ان کے خلاف 2017 میں بھی ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا اور انھیں اس سلسلے میں انڈیا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے نئی دلی تفتیش کے لیے طلب کیا تھا۔
طلبہ کی طرف سے احتجاج کے بعد انھیں کئی ہفتوں بعد رہا کیا گیا تھا۔ تاہم اس بار انھیں کسی نئے معاملے پر نہیں بلکہ تقریباً گیارہ سال پُرانی تحریر میں ’انڈیا کی جغرافیائی یکجہتی کو توڑنے کی مُہم‘ چلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
اعلیٰ فاضلی کی گرفتاری سے چند روز قبل ’کشمیر لا کالج‘ کی انتظامیہ نے کالج کے پرنسپل اور معروف ماہر قانون ڈاکٹر شیخ شوکت حُسین کو کالج سے برطرف کرنے کا اعلان کیا تھا۔کسی پولیس تھانے میں ان کی طلبی تو نہیں ہوئی اور نہ کوئی مقدمہ درج ہوا۔ تاہم کالج انتظامیہ نے ایک بیان جاری کر کے اُنھیں ’کشمیر میں پاکستانی حمایت یافتہ علیحدگی پسند تنظیموں کا آئیڈیولوگ (نظریہ ساز)‘ قرار دیا۔

سنہ 2016 کی عوامی تحریک کے دوران نئی دلی کے پریس کلب میں ’آزادی واحد راستہ‘ کے عنوان سے منعقدہ کنونشن میں ڈاکٹر شوکت کی شرکت اور وہاں پر کی گئی حکومت مخالف تقریر کا بھی اس بیان میں ذکر تھا۔کالج انتظامیہ کے مطابق ’ان کے دہشت گردوں کے ساتھ رابطے‘ ہیں اور ان کے متعلق مزید معلومات جمع کی جا رہی ہیں۔ کالج انتظامیہ کا ان کے بارے میں یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا بیانیہ ’جموں کشمیر کا انڈیا کے زیر انتظام رہتے ہوئے کچھ بھی اچھا نہ ہونے کے جعلی بیانیے‘ کی ترویج سے متعلق ہے۔کالج انتظامیہ کے بیان کے مطابق ڈاکٹر شوکت نے پروفیسر کے عہدے پر پانچ کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم بطور تنخواہ جبکہ تین کروڑ 30 لاکھ کی رقم دیگر مراعات کے وصول کی ہے۔
بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ فی الوقت ایک لاکھ روپے سے زیادہ کی رقم پنشن کے طور پر لے رہے ہیں۔ اس بیان میں بتایا گیا کہ ’اعلیٰ تعلیم کے محکمہ میں باقاعدہ احتساب شروع ہو چکا ہے کہ ایسے افراد نے ملک کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔
واضح رہے کہ ’کشمیر لا کالج‘ ایک نجی کالج ہے جو کشمیر یونیورسٹی سے منظور شدہ ہے۔ڈاکٹر شیخ شوکت کی برطرفی اور اعلیٰ فاضلی کی گرفتاری کے بعد بعض حلقوں میں یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ صحافیوں پر مختلف قدغنوں کے نفاذ اور کئی صحافیوں کی گرفتاری کے بعد اب حکومت کی توجہ ایسے دانشوروں پر ہے جن پر انڈین حکومت مخالف سرگرمیوں کا الزام ہے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آصف سلطان نامی ایک صحافی کئی سال سے جیل میں ہیں۔ اسی طرح 2019 میں انڈین حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا درجہ ختم کرنے کے بعد وہاں متعدد کالم نگاروں، مدیروں اور آزادانہ طور کام کرنے والے صحافیوں کو بھی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔سرینگر سے شائع ہونے والے تقریباً 250 انگریزی اور اُردو اخبارات میں اب حالات سے متعلق کوئی تنقیدی تجزیہ یا تبصرہ شائع نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مستقل ہفتہ وار کالم بھی دو سال سے معطل ہیں۔
٭٭٭