پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیع بٹ شہید

رشید احمد ڈار

مقبوضہ کشمیر کے بڈی گام امام صاحب شوپیان میں 5اور6مئی 2018 کی درمیانی رات کو شہید چار مجاہدین میں محض 36گھنٹے قبل بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھانے والاکشمیر یونیورسٹی سرینگر کے شعبہ سوشالوجی یا سماجیات میں تعینات اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیع بٹ ولد عبدالرحیم ساکن ژھندن گاندربل بھی شامل تھا۔وہ جمعہ کو یونیورسٹی سے نکل کر لاپتہ ہوگئے تھے۔ سوشالوجی میں پی ایچ پی ڈی کرنے کے بعد محمد رفیع کشمیر یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہوئے۔32 سالہ اسسٹنٹ پروفیسر شادی شدہ تھے۔پروفیسرکی لاش انکے گھر لائی گئی، جہاں ہزاروں افراد نے ان کی نماز جنازہ ادا کی۔ نماز جنازہ جماعت اسلامی کے امیر سرینگر بشیر احمد لون نے پڑھائی۔پروفیسرصاحب کے دو قریبی رشتہ دار بہت پہلے بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کے دوران شہید ہوچکے ہیں۔لاپتہ ہونے کے بعد رفیع کی یہ پہلی کال تھی۔ان کے والد نے کہا کہ اتوار علی الصبح جب فون کی گھنٹی بجی اور رفیع بات کرنے لگا۔انہوں نے والد سے کہا ”مجھے بے حد افسوس ہے کہ میں نے آپکا دل دکھایا،یہ میری آخری کال ہے، میں اسے ملنے جارہا ہوں“۔مرحوم کا والد عبدالرحیم جماعت اسلامی گاندربل کاسرکردہ رکن ہیں اور سرکاری ملازمت کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر محمد رفیع اپنے پیچھے والد، والدہ، بڑا بھائی امتیاز احمد، اور اہلیہ چھوڑگئے ہیں۔وہ بچپن سے ہی اسلامی طرز زندگی کے حامل تھے۔پروفیسر صاحب کی فیس بک پروفائل میں سب سے پہلے انسان، پھر مسلمان کا فقرہ درج ہے۔انہوں نے18 اپریل 2018کو لکھا کہ جب اختلاف کے اظہار کے تمام پرامن راستے بند کر دئے جائیں تو اس کے بعد آرمڈ فورسز کے خلاف اپنا دفاع ہی باقی بچتا ہے۔ موجودہ صورتحال نے طلباء مظاہروں کی راہ ہموار کی ہے۔ اس کا حل جوں کے توں سٹیٹس کو بدلنا ہے، جہاں اقتدار کے لئے طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔نوجوان پروفیسر صاحب کی شہادت نے کشمیر کو یکسر نئے انتفاذہ سے روشناس کرا دیا ہے۔ معروف صحافی و قلمکار پرویز شاہ جن کا ایک آرٹیکل حال ہی میں کئی انگریزی اخبارات میں شائع ہوچکا ہے،لکھتے ہیں کہ ان کی شہادت سے چند گھنٹے قبل میری ان سے ملاقات ہوگئی۔میں نے انہیں پوچھا کہ کیا زیادہ بہتر نہ رہتا کہ آپ تحریک آزادی کشمیر کے قلمی و سفارتی محاذ پر زیادہ بہتر انداز میں کام کرتے۔شہید پروفیسر کا جواب تھا کہ شاید بہت سارے لوگ ایسا ہی سوچ سکتے ہیں لیکن میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میرے وطن کے لوگ بالعموم اور میرے علاقے کے لوگ بالخصوص قابض قوتوں کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہیں۔ شاید میری شہادت انہیں حالات و واقعات اور غلامی و آزادی کے درمیان فرق کرنے کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع فراہم کرے گی۔پرویز شاہ لکھتے ہیں کہ میں پر نم آنکھوں سے ان کے جواب کو سنتارہا اور پھر وہی ہوا جو وہ چاہتا تھا۔

ان کی شہادت کے عین موقعے پر بڈی گام میں مظاہرین کو بھارتی فورسز نے گولیوں کا نشانہ بنایا۔ جائے جھڑپ پر مظاہرین اور فورسز میں جم کر تصادم آرائی ہوئی جو 5مظاہرین کی زندگی کا چراغ گل ہونے پر اختتام پذیر ہوئی۔ فورسز کی اندھا دھند فائرنگ سے 130شہری زخمی ہوئے،جن میں 5شہید ہو گئے۔شہید ہونے والوں میں 16سالہ دسویں جماعت کا طالب علم زبیر احمد ننگر ساکن آئین گنڈ راجپورہ پلوامہ شامل ہے۔انکی لاش جب آبائی گھر لائی گئی تو لوگوں کا سمندر امڈ آیا۔ پلوامہ کے ہی ایک اور گاؤں رہمو کا 18سالہ طالب علم آصف احمد میر ہائر سکنڈری سکول رہمو میں زیر تعلیم تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اور اچھا روزگار رکھنے والے بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھا رہے ہیں۔ اس کی وجہ مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری اور حق خود ارادیت کے مطالبے کو تسلیم کرنے کے بجائے عوام کی آواز کو بندوق اور مظالم سے دبانے کی کوشش جاری ہے۔ جسے کشمیری خاص طور پر آج کا تعلیم یافتہ اور باروزگار نوجوان تسلیم کرنے کو ہر گز تیار نہیں۔ وہ یہ تاثر مٹا رہا ہے کہ کشمیری جہالت یا بے روزگاری کی وجہ سے یا کسی مراعات کے لئے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ دنیا کو کشمیریوں کی جدوجہد کو اسی تناظر میں دیکھنا ہو گا۔

٭٭٭