شہزاد منیر احمد
علم اور فقر۔
ملا (علم) صوفی(فقر) دونوں ہی اپنے اپنے طور پر اللہ کے وجود کی گواہی دیتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی دوسرا معبود حقیقی نہیں۔ معرفتِ الٰہی سے دونوں ہی بہرہ ور ہیں لیکن اس تک رسائی کے لیے راہیں جدا جدا ہیں۔ علم و فقر دونوں کا ماخذ ایک ہے۔ دونوں کے مقاصد بھی ایک، البتہ طرزِ عمل میں واضح امتیاز دیکھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے عمل کا رد عمل بھی نمایاں طور پر مختلف ہوتا ہے۔ علم خالق حقیقی کو ظاہری سطح پر دیکھتا ہے۔ فقر اپنے موجود (اللہ) کو باطنی سطح پر دیکھنے کا ادراک رکھتا ہے۔ علم راستے کی تلاش کرتا ہے، جب کہ فقرراستہ جانتا ہے اور اس کا عرفان بھی جانتا ہے۔
اس مرحلے پر یہ نکتہ یاد رکھنے کا ہے کہ کوہ طور پر جب کلیم اللہ (حضرت موسیٰ علیہ السلام) نے اللہ الرحمٰن سے کہا ” رب ارنی انظر الیک ” اے میرے اللہ میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں۔تو رب ذوالجلال نے فرمایا ” لن ترانی ” تو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ البتہ تو اس پہاڑ کی طرف دیکھتا رہ اس پر ظاہر ہونے والی تجلی کو اگر تم برداشت کر گئے تب تو مجھے دیکھ لے گا۔ (سورت الاعراف آیت نمبر 143.) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صوفی ازم میں مروجہ دونوں اصطلاحات، وحدتِ الوجود اور وحدتِ الشہود کا تقابلی جائزہ، بین السطور بیان فرما یا ہے۔ سالکین کو مراقبہ کی سی کیفیت میں بیٹھ کر اس جملے میں مستور حکمت و معرفت جاننا چاہیے۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کا سارا راز و مفہوم سمجھ میں اجاتا ہے کہ اللہ کو زمین کی زندگی میں پائی گئی بصارت سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ورنہ اللہ الرحمٰن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے شاہدین (الشہود) کی جانب متوجہ ہونے کا نہ فرماتا۔ کلیم اللہ کا قصہ جان لیا ہے اب خلیل اللہ، حضرت ابراھیم علیہ السلام کی شان پڑھییے۔علامہ اقبال لکھتے ہیں۔
ذوق حاضر ہے تو لازم ہے ایمان خلیل
ورنہ خاکستر ہے تیری زندگی کا پیراہن
علامہ اقبال نے یہ شعر سورت النساء کی آئیت نمبر 125 کی روشنی میں کہا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ حضرت ابراھیم علیہ السلام کو راست رو اور اللہ کا سچا بندہ کہہ کر اپنا دوست بنانے کا اعلان فرماتے ہیں۔ شعر کا سادہ پیرائے میں مفہوم ہے کہ اگر اللہ کو روبرو دیکھنے کا شوق دل میں ہے تو ابراھیم علیہ السلام، خلیل اللہ کا سا اپنے دل میں پختہ ایمان بالغیب بھی قائم کرو۔ بصورت دیگر تو زندگی کسی کفر کی آگ میں جلنے کے مترادف ہے۔
واقعہ یوں ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اللہ رب العالمین کے حضور آرزو کی، (سورت البقرہ آیت نمبر 260) اے اللہ پاک مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تجھے یقین نہیں ہے کہ میں ایسا کرنے پر قادر ہوں۔ ابراھیم علیہ السلام نے عرض کی کہ مجھے پکا یقین ہے کہ تو ایسے کر سکتا ہے (یہ تھا وہ ایمان بالغیب جس کا علامہ اقبال نے اوپر بیان کردہ شعر میں حوالے دیا ہے) لیکن میں اپنی تسکین کے لیے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اللہ الرحمٰن نے خلیل اللہ” حضرت ابراھیم علیہ السلام سے کہا کہ چار جانور، مختلف النسل لو انہیں ذبح کر کے ان کی بوٹیوں کو چار مختلف جگہوں پر رکھ کر، ان کے نام لے کر اپنی طرف پکارو تو تم دیکھوگے کہ وہ تیری طرف دوڑتے ہوئے آئیں گے۔
قارئینِ کرام! یہاں بھی آپ نے نوٹ کیا کہ اللہ نے ابراھیم علیہ السلام کو بھی موسیٰ علیہ السلام کی طرح ” الشہود” ہی سے معجزہ دکھایا۔ خود اللہ سامنے نہیں آیا۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ اس دنیا میں جہاں ہم آدمیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں کوئی بندہ بشر اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا۔ مذکورہ دونوں مثالوں سے ہم نے حقیقت یہ جانی کہ دنیا کی ہر چیز میں اللہ کی قدرت دیکھی جاتی ہے۔ اگر کوئی شے بے جان ہے تو اس میں فنکار کا فن اللہ تعالیٰ کی ہستی کا مظہر ہے، اور اگر کوئی چیز زندہ ہے تو اس کا پیدا ہونا، بڑھنا پھلنا پھولنا اور پھر مر مٹ جانا رب العالمین ذوالجلال کی شان قدرت کا زندہ ثبوت ہے۔لہٰذا وہ لوگ جو عقیدہ وحدت الوجود، جسے ” ہمہ اُوست بھی پکارا جاتا ہے ”رکھتے ہیں انہیں علم معرفت پر قرآن پاک کی اوپر بیان کی گئی آیات الہییہ کی روشنی میں نظر ثانی کر کے نظریہ وحدت الشہود جسے
” ہمہ از اوست بھی کہتے ہیں ” کو ماننا اور اپنانا چاہیے۔ ہمہ از اوست کا مطلب ھے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مظہر ہے۔ کیا یہ سچ ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہے کہ کائنات کی ہر شے اللہ تعالیٰ کے وحدہٗ لاشریک ہونے کی شہادت دے رہی ہے۔ صوفی ازم اور اسلامی تصوف کے تعارفی دور، 160 ھجری کے اصفیاء اور ان کی طریقت کا بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ معاشرے سے الگ تھلگ ہو کر، تنہائی پسند یا گوشہ نشین ہوئے ہی اس لیے تھے کہ ان کے لیے شریعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاسداری اس وقت کے صاحب اختیار حکمران مسلمانوں کی حکومتوں میں رہ کر ممکن نہیں رہا تھا۔۔ وہ غیر اسلامی اور طاغوت پرور ماحول سے علیحدگی اختیار کر کے عبادات الہییہ میں مشغول رہتے تھے۔ وہ اس فلسفہ حیات پر قائم تھے کہ۔انسان اللہ کی بہترین مخلوق ہے، (سورت التین) وہ صرف اللّٰہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ھے، (سورت الزاریات آیت نمبر 56) انسانی وجود زندہ رہنے کے لیے اپنے اندر روح، جو امر اللہ ہے، کا محتاج ہے۔ اور عقل سلیم جو اللہ نے انسان کو ودیعت کی ہے۔(سورت الانبیاء آیت نمبر 10) اگر روح جسم سے نکل جائے تو آدمی کا جسم تو مٹی کا ڈھیلا ہے۔ جبکہ بقیہ دونوں عناصر، اللہ الرحمٰن اور روح اپنی حیثیت میں قائم اور دائم رہیں گے۔ فکر کا یہ اشتراک ثلاثہ (اللہ الرحمٰن، انسانی روح اور انسانی عقل). اس وقت کے صوفیاء کرام کا نظریہ حیات تھا۔۔ وہ سورت الانبیاء کی آیت نمبر 10 کے تحت اپنے معمولات کو انجام دیتے تھے۔ ان کا ایمان باللہ پختہ، نیت نیک، خیالات پاکیزہ، چال چلن خوش اخلاقی اور رویہ ایثار پسندی اور خلوص پر مبنی تھا۔اس وجہ سے اللہ نے انہیں اولیاء اللہ کہا۔ پھر وقت کا پہیہ آگے چلا، زمانے نے ترقی کی، دریافتوں نے ضرورتیں اور رویے بدلے۔نئی نئی ایجادات نے نئے نئے آلات متعارف کروائے جنہوں نے انسان کو آرام و سہل پسندی میں باندھ دیا۔ پاکیزہ اشتراک ثلاثہ میلا ہوا۔ دور جدید میں بدلے ہوئے نظریہ حیات کے کلچر میں تصوف نے بھی اپنا پیرہن بدل لیا۔ جس پر علامہ اقبال نے لکھا
قم بہ اذن اللہ کہہ سکتے تھے جو، رخصت ہوئے
خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گور کن
ISM is a destinctive doctrine,Cause or ideology. انگریزی زبان میں ازم گویا ایک منفرد، نمایاں نظریے یا امتیازی رویہ کو کہا جاتا، جو لوگ اجتماعی معاشرتی تہذیب و تمدن اور روحانی رسم ورواج میں اپناتے ہیں۔ صوفی ازم یا تصوف، اسلامی تاریخ کے اعتبار سے نہ دین ہے، نہ مذہب نہ شریعتِ اسلامیہ نہ احادیث نبوی میں مذکور عمل اور نہ ہی اصحابِ رسول اللہ کی روایت۔تصوف یا صوفی کا ذکر تاریخی اوراق میں 160 ھجری میں ملتا ہے۔ تصوف کی طریقت کو سب سے زیادہ محی الدین ابن عربی کی تصنیفات اور ملا منصور حلاج کے واقعہ نے بام شہرت پر پہنچایا ہے۔ جنہوں کی تصوف میں نظریہِ وحدتِ الشہود کی جگہ وحدتِ الوجود کا نظریہ متعارف کروایا۔ اور پھر قصہ گوئی کے ماہرین نے اسے اپنے فن کے ذریعے مزید پھیلا یا۔ راہ سلوک کے مسافروں نے اپنے زاویہ نگاہ سے بات بڑھاتے بڑھاتے ایک طرح کی راہبانیت سے جا ملایا۔جس سے بندہ مومن کا کردار شمیر و سناں سے سمٹ کر محض قصے کہانیوں کے تذکروں اور شخصیت افروزی تک محدود ہو کر رہ گیا۔عام سادہ الفاظ۔میں آدمی کا روزمرہ معمولات میں سے اعمال رذیلہ کو ترک کر کے اعمال۔حسنہ کو اختیار کرنے کا نام تصوف ہے۔ فقر اختیار کرنے کا مقصد ہرگز ہرگز یہ نہیں کہ گھریلو اور معاشرتی ذمہ داریوں سے قطع تعلق کر کے گوشہ نشینی اختیار کر لی جائے۔
فرضی کہانی گھڑنا اور سامعین کو سنانا قدیم زمانوں میں بڑا معتبر فن سمجھا جاتا تھا۔ فن داستان گوئی کی یہ روایت غالبا اب بھی بر صغیر کے کئی علاقوں میں موجود ہے۔ اس کی جدید شکل دیہاتوں کے ذہین و زرخیز دماغ مراثی لوگ ہیں۔ جو بات سے بات پیدا کرتے اور عوامی اجتماعات میں رونق لگاتے ہیں۔ داستان گوئی میں مبالغہ آرائی نہ ہو تو صرف بات کہنے سے بات نہیں بنتی۔ مقصد عوام کو تفریح طبع، ہنسی اور خوشی کا سامان مہیا کرنا ہوتا ہے کسی کی توہین تضحیک مقصود نہیں ہوتی۔ اس فن میں تاک ہونے کے لیے جہان بینی لازمی عنصر ہے، جسے علامہ اقبال کسی ریاست کے امو ر کی نگرانی کرنے سے بھی مشکل بتا گئے ہیں۔
جہانبانی سے دشوار تر ہے کار جہاں بینی۔۔۔
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
علامہ اقبال نے تصوف اور صوفی ازم پر کئی نظمیں لکھی ہیں کہ اس دنیا کو چھوڑ کر دنیائے تخیلات میں بسے رہنا اسلامی تصوف نہیں ہے۔ صوفی کے تخیلات اور کرامات کی دنیا بے شک عجیب اور انسانی عقل و فکر سے ماورا ہے لیکن اس سے بھی عجیب تر دنیا یہ زندگی اور موت کی دنیا ہے جس سے حقیقی طور پر ہر انسان کو واسطہ پڑتا ھے۔ اپنی دنیا سے اے صوفی تو نکل کر اہم واقعات و حادثات کی حقیقت سے بھری دنیا میں آ کر سائینسی معجزات آنجام دے۔ وہ لکھتے ہیں:-تخیلات کی دنیا غریب ہے لیکن۔۔۔غریب تر ہے حیات و ممکنات کی دنیا۔وہ مزید لکھتے ہیں۔۔یہ ذکر نیم شبی، یہ مراقبے یہ سرور ۔۔تیری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
تصوف، فقر، درویشی کے بارے علامہ اقبال کا حقیقی واقعہ بیان کیا جاتا ھے جو سلسلہ تصوف کی ساری جہتوں کا احاطہ کرتے ہوئے ایک واضح شکل پیش کرتا ہے۔۔ سید نذیر نیازی،” اقبال کے حضور” میں لکھتے ہیں۔:10 فروری 1938 میں، علامہ اقبال بستر علالت پر تھے، ایک انگریز مسٹر ہیوم جو اس زمانے میں حکومت پنجاب کے سیکریٹری تھے، علامہ صاحب سے ملنے آئے۔دیگر معمول کی باتوں کے علاؤہ ہیوم نے کہا کسی صوفی بزرگ کا پتہ دیجئے۔ علامہ صاحب نے فرمایا یہ ذرا مشکل سی بات ہے۔۔ ” ہماری ساری عمر گذر گئی، کوئی مرد کامل نہ ملا”
مسٹر ھیوم کہنے لگے پروفیسر” میسینون” MESAYNUN نے خود ان سے کہا تھا کہ اگر وہ منصور حلاج کی تحریریں (کتابیں) نہ پڑھتے تو دہریہ ہو جاتے۔ علامہ صاحب نے جواب دیا، ہمارا بھی شاید یہی حال ہوتا، لیکن ہماری دستگیری مولانا رومی نے کی۔آپ مولانا غزالی پڑھ رہے ہیں آپ یہ بات غزالی سے حاصل کریں۔ موجودہ دور کا ہر اللہ کا ولی ہر خطیب علامہ اقبال کے فکر و تدبر کا معترف اور ان سے سبق سیکھتا ہے۔ ان کی عملی زندگی کو مرد مومن کی زندگی سمجھتا ہے۔ علامہ اقبال ہیں کہ فرماتے ہیں ” ہماری عمر گزر گئی، ہمیں کوئی مرد کامل نہ ملا۔۔
ایک سائنس دان، زاویے والے ہر دلعزیز دانشور جناب اشفاق احمد کو بتا رہے تھے کہ مکھی کی ہزار آنکھیں ہوتی ہیں۔ اشفاق صاحب۔ بولے، اتنی زیادہ آنکھیں رکھنے کے باوجود وہ بیٹھتی گند پر ہے،در فٹے منہ ان آنکھوں کا۔انسان بھی اپنی عقل شعور اور دانش کے بام عروج پر پہنچ جانے کے باوجود خباثتیں کرنے اور حماقتیں دہرانے سے باز نہیں آتا۔ تاریخ، حیات انسانی کے لیے آئینے کی مانند ہوتی ھے، عقل مند اسے پڑھ کر صحیح لائحہ عمل اپناتا ہے۔ یہ بھی مگر حقیقت ہے کی آدمی تاریخی شخصیات کے کارناموں اور عبرتناک و شرمسار انجام سے بھی کچھ نہیں سیکھتا، اور اپنی دانست پر بھروسہ کرتا، نقصان اٹھاتا اور بسا اوقات تو جان سے ہی جاتا ہے۔ حکمرانوں کی نفسیات ہی کمزور لوگوں کا استحصال ہے جو وہ عاقبت و آخرت سے لا پرواہ ہو کر کرتے ہیں۔ علامہ فرماتے ہیں۔
آ بتاوں تجھ کو رمز آیہ ان الملوک۔۔۔سلطنت اقوام غالب کی ھے اک جادوگری
اس شعر میں علامہ اقبال نے قرآن کریم کی سورۃ النمل کی آئیت نمبر 34 کے حوالے سے حکمرانوں کی نفسیات اور رویے کے بارے بتایا ہے کہ کائینات کا حقیقی مالک و حکمران اللہ تعالیٰ ہے۔ مگر جن لوگوں کی تحویل میں حکمرانی دی جاتی ہے وہ متکبر اور مغرور ہو جاتے ہیں۔ہمیشہ کمزور لوگوں اور پس ماندہ اقوام کا استحصال کرتے ہیں۔ حکمران یہ سچائی بھول جاتے ہیں کہ ارض و سما اور اس کے درمیان ہر چیز کا مالک عرشِ بریں پر استوا کرنے والا اللّٰہ ہے۔عیاش اور خود غرض حکمران کی علامہ اقبال نے کیا خوب عکاسی کی ہے۔وہ لکھتے ہیں
اس کے لب لالہ گوں کی خون دہقاں سے کشید ۔۔۔۔
تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا
حاکم شہر کسانوں کے خون پسینے کی کمائی سے خراج اور ٹیکس کے نام سے رقوم وصول کر کے عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے ہوئے شراب کے جام لنڈھاتے ہیں۔ غریب کسانوں کے کھیت کی مٹی کسان کے لیے تو غربت اور پس مانگی کا سبب ہے مگر حاکم کے لیے وہ کیمیا بنی ہوئی ہوتی ہے۔ جن حکمرانوں میں خود کو فانی مخلوق ہونے کا احساس اور قیامت کے قائم ہونے پر ایمان ہوتا ھے وہ اپنی رعایا پر ظلم نہیں کرتے بلکہ ان کی جان ومال، عزت و آبرو کا تحفظ کرتے ہیں اور ان کی زندگی آسان بناتے اور ملک میں دین اسلام پھیلاتے ہیں۔۔ جیسے حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ نے نبوت بھی دی تھی اور انہیں بادشاہت بھی۔ دونوں انبیاء (باپ اور بیٹے) نے اپنے اپنے دور حکومت میں عبادت الہییہ اور رعایا کی خدمت میں بڑا نفیس اور باوقار توازن برقرار رکھ، اور دین اللہ پھیلا۔اوپر بیان کردہ قرآنی آیت (سورت النمل آیت نمبر 10) میں ملکہ بلقیس جو ملک سبا کی بادشاہ تھی۔وہاں سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے کارواں کا ایک پرندہ ہدہد اس ملک سے یہ خبر لایا کہ فلاں ملک کے لوگ اور ان کی بادشاہ سب کافر ہیں۔وہ اللہ الرحمٰن کی عبادت کی بجائے بت پرستی کرتے ہیں۔ ان کافروں کی بادشاہ ملکہ بلقیس کی مستند گواہی بتائی گئی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ بلقیس کو اسلام قبول کرنے کی دعوت بذریعہ خط بھیجی تو اس نے اپنے درباریوں اور مشیروں کو اکٹھا کر کے سلیمان علیہ السلام کے خط کے بارے بتایا اور مشورہ مانگا کہ کیا کیا جائے۔ مشیروں نے کہا ہم طاقتور ہیں جنگ کریں گے مگر ملکہ بلقیس نے انہیں یاد دلایا کہ جب بھی حکمران دوسرے ملکوں پر حملہ آور ہوتے ہیں تو ہر چیز تہس نہس کر کے رکھ دیتے ہیں۔سردادوں کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں معززین و شرفاء کی عزت خاک میں ملا دیتے ہیں۔ ہر اک کی عزت داؤ پر لگا دیتے ہیں۔۔اس لیے ہم پہلے ان سے مل کر معلوم کریں گے کہ سلیمان بادشاہ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ ملکہ بلقیس کا یہ بڑا دانشمندانہ فیصلہ تھا۔
علامہ اقبال مزید کہتے ہیں۔
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر۔۔۔
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمران کی ساحری
علامہ اقبال کہتے ہیں کہ محکوم لوگوں میں سے اگر کوئی غیور سر اٹھا کر بات کرتا ہے تو حکمران اپنے سحر انگیز حربوں سے اس کی قوت مدافعت کو ختم کر دیتا ہے۔ حکمران جب محکوم فرد یا گروہوں پر اپنا طلسم بکھیرتے ہیں تو وہ طوق غلامی پر بھی فخر کرنے لگتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں محمود و ایاز کی مثال پیش کرتے ہیں۔ ایاز کی ایک ہی خوبی تھی کہ وہ اپنے دنیاوی آقا محمود کا سب سے بڑا فرمان بردار غلام تھا۔ یعنی خوئے غلامی میں تاک تھا اور وہ اسے اپنا بہت قابلِ فخر وصف جانتا تھا۔
مسز اندرا گاندھی،ہندوستان کے بڑے منجھے ہوئے سیاستدانوں، موتی لال نہرو کی پوتی اور جواہر لعل نہرو کی بیٹی تھیں۔ ہندوستان کی دوسری دفعہ جب وزیراعظم بنیں تو سکھوں کی تحریک خالصتان سے بڑی زچ تھیں۔ بجائے سکھوں کو مذاکرات کر کے انہیں ساتھ ملانے کے اس نے طاقت استعمال کرنے کی آپشن کو بہتر جانا۔اختیارات کی قوت میں مست یہ حقیقت بھول گئیں کہ طاقت کے استعمال سے سکھ انتقام لینے کی خاطر انتہائی اقدام بھی کر سکتے ہیں۔ نتیجتاً انہوں نے سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر عسکری حملہ کروا کر تحریک تو ختم کروا لی مگر ایک اور مہلک مسئلہ کھڑا کر لیا۔ دو سکھ نوجوانوں نے بدلہ لینے کی ٹھان لی ایک روز جب وہ اپنی رہائش سے نکل کر دفر کی طرف جا رہی تھیں تو دونوں سکھ نوجوانوں نے اتنی موثر منصوبہ بندی کی کہ تھوڑی سی بھی مزاحمتی کمک پہنچنے سے پہلے اندرا گاندھی کو گولیوں سے بھون کر انہیں طاقت کے گھمنڈ کا مزا چکھا کر اپنے مذہب کی توہین اور سکھوں کے قتل کا بدلہ لے لیا۔
ایک مسلمہ اور موثر سیاسی پس منظر رکھنے اور حکومتی تجربہ رکھنے کے باوجود اندرا گاندھی نے حماقت کی اور عبرتناک انجام کو پہنچیں۔۔
تاریخ کا سبق”-
حقیقی حکمران اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے۔ دوسرے حکمران عارضی ملکیت رکھنے والے فانی نگران ہوتے ہیں۔ظلم و جبر کو اہل اللہ خوشحالی اور اقتدار کا شر کہتے ہیں،جس طرح بھوک افلاس کا شکار، مفلسی کی چکی میں پستا ہو اور غربت و بے بسی میں جیتا ہوا انسان کفر کا ارتکاب کرنے کی حد تک پہنچ جاتا ھے ویسے ہی مقتدر افراد، تخت نشین بادشاہ، وغیرہ بھی تکبر کے شر کے زیر اثر پستیوں کی گہری کھائیوں میں لڑھک جاتے ہیں۔ پیروں کے صاحبزادگان وزرا کے شاہزادگان اور ذیل داروں کے فرزندان اپنے باپ کے زیر اثر اوباشی اور بدمعاشی میں مبتلا ہو کر، قانون شکنی اور بد اخلاقی کرتے، اور ملک میں بد امنی پھیلاتے ہیں، ریاستی عوام پر ظلم و جبر سے تسلط جماتے ہیں۔
خوشحالی اور سیر شکمی کے شر سے تباہ ہونے والا قارون جو اپنی امارت اور دولت کے اعتبار سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔وہ حضرت موسٰی علیہ السلام کا کزن، چچا زاد بھائی بتایا جاتا ہے،۔ وہ توریت کا بہت بڑا قاری تھا۔ شہرت اور تعریف کو بہت پسند کرتا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حسد رکھتا تھا کہ میرے چچا زاد بھائی تو نبی بن گئے، قبیلے کے سردار بن گئے میں کیوں پیچھے رہ گیا ہوں۔
وہ فرعون کے درباریوں میں شامل ہوا اور بد عنوانی سے بہت ساری دولت اکٹھی کر لی۔ مال و متاعِ نے اسے اس قدر بے شرم، گستاخ اور کمینہ بنا دیا کہ اس نے بالواسط حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تہمت لگوا دی۔ جو جھوٹی ثابت ہو گئی۔اللہ نے اپنے غضب سے اسے عبرتناک سزا دی یہاں تک کہ اس کا مال و متاع، اہل خانہ اور اس کے محلات وغیرہ سب زمین میں دھنسا دیے۔۔کل تک جو قارون کی دولت دیکھ کر رشک کرتے تھے۔اس کا عبرتناک انجام دیکھ کر استغفرُللہ استغفرُللہ پکار اٹھے۔ (۔سورت القصص آیت نمبر۔ 81)
شیخ مجیب الرحمٰن پاکستان کے سیاست دان تھے۔ سیاسی کلچر اور نفسیات کے عین مطابق اس نے اپنی سیاست کا آغاز احتجاجی تحریک سے کیا۔ اکتوبر 1971 کو ہم چند SAILORS بمعہ اپنے انچارج آفیسر کے مغربی پاکستان آنے کے لیے ڈھاکہ ائیر پورٹ پر پسنجرز لاونج میں بیٹھے تھے۔ہمارے ساتھ بنگالی ساتھی ہمیں الوداع کہنے آئے ہوئے تھے۔ دو ایک ساتھی مجھے ایک کونے کی طرف لجا کر کہنے لگے، جس طرف حالات اور واقعات جا رہے ہیں لگتا ہے اب ہم شائد دوبارہ نہ مل سکیں۔ میری یہ بات شہزاد منیر یاد رکھنا ہم مغربی پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتے ہم لوگ ملک کے نظام سیاست اور حکومت میں مناسب تبدیلی چاہتے تھے مگر اب لگ رہا ہے کہ۔معاملات شیخ مجیب الرحمٰن کے بس میں بھی نہیں رہے اور وہ اب کچھ کر بھی نہیں سکے گا۔ علیحدگی ہوگی، شیخ مجیب وزیراعظم بنے گا، وہ تو کہتا ہے مجھے فوج مار دے گی، واقعی اسے پاکستانی فوج نہیں بلکہ بنگلہ بندو کو بنگالی فوج ٹھکانے لگائے گی۔
14 اگست 1975 کو ویسا ہی دیکھا گیابنگلہ دیش کی پوری فوج نے نہ صرف شیخ مجیب الرحمٰن بلکہ اس کا خاندان نوکر چاکر اور حمایتی فوجی گولیوں سے بھون دئیے، اور ٹینکوں کے گولوں سے اس کا شہر ملیا میٹ کر کے رکھ دیا۔ شیخ مجیب اپنے ملٹری سیکریٹری اور آرمی چیف کو پکارتا رہا مگر کوئی بھی اسے مکافات عمل کے خونی پنجوں سے نہ چھڑا سکا۔ تاریخ نے اپنے نصاب میں ایک اور عنوان کا اضافہ کر دیا کہ شاید کوئی اس سے سبق سیکھ لے۔
تاریخ کا سبق –
حقیقی حکمران صرف اللہ الرحمٰن ہے۔۔۔باقی سب اشخاص ملکیت کے عارضی نگران ہوتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو پڑھا لکھا تعلیم یافتہ جوان بیرسٹر تھا۔ سندھی وڈیرے کا صاحب زادہ تھا۔ وہی بنا جو اس کے باپ شاہنواز بھٹو نے اور سندھی وڈیرا کلچر نے بنایا۔ وہ طبقہ واریت کے خمار سے نکل ہی نہ پایا۔ اس نے یہی تاریخ سے سیکھا تھا کہ مقتدر حلقوں سے بنا کر رکھو اور تخت نشین کی جی بھر کے چاپلوسی اور خوشامد کرو۔ ” بھٹو جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہہ کر پکارتا تھا ” بھٹو خوشامدی اس طرح کا تھا کہ اس نے اسکندر مرزا۔کو خط لکھا کہ جب کبھی پاکستان کی تاریخ لکھی جائے گی تو آپ کا نام قائد اعظم محمد علی جناح سے بھی اوپر لکھا جائے گا۔ اس کے صلہ میں اسکندر مرزا نے اسے نصرت بھٹو جو ایرانی نژاد تھیں نکاح میں دلوائیں۔اور وزارت بھی دی۔ یوں اسکندر مرزا اور بھٹو ہم زلف بھی بنے، ہم خیال بھی اور دونوں کا انجام بھی کوئی اتنا اچھا نہ رہا۔ تھا، بھٹو اقتدار میں آیا تو ” ایک کریلا دوجا نیم چڑھا” کے مصداق سندھی وڈیرا اور پھر ملک کا وزیراعظم، آپے سے باہر ہو گیا۔۔
نہ اپنا جماعتی منشور یاد رہا، نہ اسلام۔ نہ اخلاق۔ اپنے پرانے ساتھیوں کے ساتھ انتہائی بد تمیزی سے پیش آتا تھا۔ تکبر کے شر کی لپیٹ میں آیا تو فطرت، فضا اور فضیلت سب مخالف ہو گئے۔اقتدار کو بحال رکھنے کے لیے بہتیرے پاپڑ بیلے، خوشامد کی دھونس دھاندلی کھیلا مگر کھیل ہار گیا۔ قتل کے مقدمے میں (جھوٹا یا سچا) پھنس گیا کوئی قانون اور قانون دان اسے پھانسی کے پھندے سے نہ بچا سکا۔
تاریخ کا سبق:-
حقیقی اور لازوال حکمران صرف اللہ الرحمٰن ہے۔ باقی سب حکمران عارضی ملکیت رکھنے والے نگران اور خود بھی مر مٹ جانے والی مخلوق ہیں۔
٭٭٭