کشمیریوں کی نسل کشی اور عالمی ضمیر۔۔۔۔؟

محمد احسان مہر

مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف کشمیریوں کی مزاحمت اور مبنی بر حق جدو جہد کوعالمی برادری کی طرف سے نظرانداز کرنا،حریت قیادت کو پاپند سلاسل رکھنا،عظیم حریت قائد امام سید علی گیلانی ؒاور اشرف صحرائی ؒکی دوران اسیری شہادت،اور معروف تحریکی قائد یاسین ملک کی زیر حراست زندگی کو لا حق خطرات کشمیر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور برسر روزگار نوجوانوں کو بھی بھارتی فورسز کے خلاف مزاحمتی تحریک میں شامل ہونے کا جواز فراہم کر رہے ہیں۔بھارتی وزیراعظم کے دورہ کشمیر کے موقع پر کشمیریوں نے مکمل ہڑتال اور اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا مودی اور عالمی برادری کو بڑا واضح پیغام دیاکہ کشمیری آزادی کی قیمت پر کسی قسم کاریلیف اور مراعات ہرگز قبول نہیں کریں گے۔

مقبوضہ جموں وکشمیر 1947سے بھارتی غاصبانہ اور جابرانہ فوجی قبضے میں ہے جہاں 9لاکھ فوجی تعینات ہیں،جو پرامن کشمیری نوجوانوں،بچوں،بوڑھوں اور خواتین کو بھی تشددکا نشانہ بناتے ہیں،مجاہدین سے ہمدردی کی وجہ سے نوجوان خاص طور پر اس صورتحال کا سامنا کرتے ہیں،5اگست کے بھارتی اقدام، اورکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد اسے 9لاکھ بھارتی فوج کے قبضے میں دے کر دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بدل دیا گیا ہے،جہاں کسی کی عزت و عصمت محفوظ ہے نا کسی کا جان و مال،رات دن پکڑ دھکڑ،گھر گھر تلاشی،سرچ آپریشن،کریک ڈاؤن، ذ ہنی اور جسمانی اذیتیں،عقوبت خانوں کا ٹارچر، پیلٹ گن کے فائر اور آہن و بارود کی بارش آنکھوں کی بینائی چھین رہی ہے اور زندگیاں نگل رہی ہے، مکانات تباہ اور باغ اجاڑے جا رہے ہیں، تو ایسے میں کون۔۔۔اور۔۔۔کتنا صبر کرے۔؟

بھارتی گجرات کے مسلمانوں کا قاتل اب کشمیر ی مسلمانوں کی نسل کشی کے در پہ آزاد کھڑا ہے،کشمیر کی سیاسی اورحریت قیادت کو منظم اور منصوبہ بند طریقے سے راستے سے ہٹایا جا رہا ہے،اور بے حس و بے ضمیر عالمی برادری خاموش تماشائی بنے کھڑی یہ سب دیکھ رہی ہے۔اہل کشمیر یہ پوچھ رہے ہیں کہ ان غیر معمولی حالات میں کشمیر کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کے دعویدار کہاں کھڑے ہیں،70سالہ ناکام سفارت کاری کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کی شکل میں ہمارا منہ چڑارہی ہے۔کیا کشمیریوں کے ساتھ اس ظلم و زیادتی کا اخلاقی اور سیاسی طور پر تدارک کیا جا سکتا ہے۔۔۔؟ستم تو یہ ہے کہ ہم کشمیریوں کی قربانیوں کا اعتراف (کشمیری پاکستان کی بقا ء کی جنگ لڑ رہے ہیں) جیسے الفاظ سے کرتے تھے، لیکن۔۔اب عمل تو دور کی بات۔۔ایسے الفاظ کہنے سے بھی کترا رہے ہیں۔

بھارتی حکومت جس طرح کشمیریوں کی نسل کشی،کشمیر میں غیر ریاستی افراد کی آ باد کاری اور ان کو نوکریوں کی فراہمی،مقامی افراد کو جبرا نوکریوں سے بے دخلی،ریاستی انتظامیہ سے کشمیریوں کے اختیارات میں کمی جیسے اقدامات سے ریاست کا مسلم تشخص اقلیت میں بدلنے کی کوشش میں کامیاب نظر آرہی ہے،ڈر ہے کہ بھارتی حکومت امام سید علی گیلانی اور اشرف صحرائی کی شہادت کے بعد تحریکی قائد یاسین ملک کی زندگی کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتی ہے،تحریکی اور حریت قائدین کی شہادتوں سے پیدا ہونے والے خلاء سے حق خود ارادیت کی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے،حزب کے سربراہ اور متحدہ جہاد کونسل کے چیر مین سید صلاح الدین نے پریس کے نام جاری اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ حالات جس تیزی کے ساتھ خوفناک رخ اختیار کر رہے ہیں ایسے میں ذرا سی بھی کوتاہی کی گنجائش نہیں۔ مسئلہ کشمیر کا اہم فریق ہونے کی حیثیت سے پاکستان سفارتی سطح پر حریت قیادت کی زندگیوں کو درپیش خطرات سے عالمی برادری کو آگاہ کرے تاکہ کشمیریوں کی نسل کشی کا سلسلہ رک سکے اور خطے میں کوئی انسانی بحران پیدا نہ ہو۔

٭٭٭